عشق کے رَنگ (سفیرِ اعظم)

بے پناہ حُسن کی دولت سے مالا مال مصعب بن عمیر کو اگرچہ زیبائش کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ان تمام خوبیوں نے انہیں شہر مکہ کا گلفام شہزادہ بنادیا تھا، شہر مکہ ہی نہیں گرد ونواح میں کتنی ہی آنکھیں تھیں جو انکا شریک سفر بننے کے سپنوں سے آراستہ تھیں۔

آج عمیر کے گھر ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی، تھوڑی ہی دیر میں اس بچے کے حُسن و جمال کے قصے شہر کی اکثر خواتین کے زبان پر زد و عام تھے۔ کچھ عورتوں کا کہنا تھا کہ،، اُنہوں نے دس سالوں میں اتنا حسین بچہ نہیں دیکھا۔ ۔۔۔ کوئی اس بات کو سراسر افسانے سے تعبیر کررہا تھا۔جبکہ کسی کا خیال تھا کہ،، بچے عموما خوبصورت ہی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن مردوں کا حُسن وہی ہے جو بلوغت کے بعد بھی قائم رہے۔ تب کسی نے کہا صرف حُسن کی بات نہیں اُس کی پیشانی سے سعادت اور انفرادیت بھی صاف ظاہر ہوتی ہے۔

عمیر کی زوجہ کی نگاہیں بھی اپنے بچے سے نہ ہٹتی تھیں۔ انہوں نے عمیر سے کہا دیکھو تو سہی ہمیں خداوند نے کسقدر حسین بچے سے نوازہ ہے۔ مجھے خوف ہے کہ،، میرا یہ بچہ کسی حاسدہ کی نگاہوں کا شکار نہ ہوجائے۔ اس لیئے جسقدر جلد ممکن ہو، اسکی نظر اتار دینی چاہیے۔اور ہاں شہر بھر کے مسکینوں میں صدقہ کا انتظام بھی جلد کردیجیے گا۔۔۔۔۔ عمیر کے گھر یہ پہلا بچہ نہیں تھا۔ لیکن عمیر بھی بچے کے حُسن و جمال کے سبب اپنی زوجہ کے خیالات سے متفق تھا۔یہ بچہ جُوں جوں بڑا ہوتا چلا گیا، لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنتا چلا گیا۔ کوئی اسے دیکھ کر پھولوں سے تشبیہ دیتا کوئی کہتا بدر کامل بھی اسکے چہرے کے مقابل کچھ نہیں۔

کسی دانا نے کہا یہ بچہ مشکل حالات میں بھی صبر استقامت والا ہوگا۔ یہی سوچ کر شائد گھر والوں نے بچے کیلئے مصعب نام تجویز کردیا۔مصعب جُوں جُوں بڑے ہوتے چلے گئے حُسن ونفاست کا استعارہ بنتے چلے گئے۔بہترین سے بہترین باریک ریشمی پوشاک زیب تن کرنا، اعلی ترین عطریات خرید کر استعمال کرنا مصعب کا شعار تھا۔جبکہ حضرمی چپل آپ کے خوبصورت پاؤں کو مزید نکھار بخش دیتی۔ گھڑ سواری، نیزہ بازی سے شغف اور فطرت کے حسین نظاروں کو متجسس ہو کردیکھنا۔ راتوں کو مکہ کے صحراؤں میں نکل جانا اور فلک پر جگمگاتے چاند ستاروں کے اسرار کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتےمصعب بن عمیر کو اندر ہی اندر شاعر بھی بنادیا تھا۔ انکی شاعری میں آبشاروں کی جلترنگ کا تذکرہ بھی ہوتا تو پھولوں کی لطافت سے لیکر چاندنی کی ٹھنڈک کا احساس بھی۔۔۔۔

بے پناہ حُسن کی دولت سے مالا مال مصعب بن عمیر کو اگرچہ زیبائش کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ان تمام خوبیوں نے انہیں شہر مکہ کا گلفام شہزادہ بنادیا تھا، شہر مکہ ہی نہیں گرد ونواح میں کتنی ہی آنکھیں تھیں جو انکا شریک سفر بننے کے سپنوں سے آراستہ تھیں۔

اگرچہ مصعب کو رُومانوی داستانیں پسند تھیں ، جنہیں داستان گو بڑے اہتمام سے مکہ کی بھیگی راتوں میں مزے لے لیکر بیان کیا کرتے تھے، لیکن کبھی کبھارلیلی و قیس کے پرلطف قصے سننے کیلئے مصعب بصد شوق صحراوں میں قائم بادیہ نشینوں کے ڈیروں پر بھی جایا کرتے تھے۔۔۔۔ لیکن خود مصعب ابھی تک کسی کی نگاہ ناز کا شکار ہوئے تھے اور نہ کسی زُلف کے اسیر بن سکے۔

مکہ میں بت پرستی عام تھی۔ اور نجانے کتنے ہی بُت انکے اپنے گھر میں موجود تھے۔ جن پر مشفق مادر گرامی عمیر کی حفاظت کیلئے اکثرچڑھاوے چڑھایا کرتیں۔ لیکن مصعب بن عمیر کا دل ان باتوں سے مطمئن نہ تھا۔ وہ ہمیشہ یہی سُوچتے کہ جو بُت خود ہمارے ہاتھوں کے ہنر کے محتاج ہُوں وہ بھلا کس طرح ہمارے نفع و نقصان کے مالک ہوسکتے ہیں۔؟ لیکن عرب کے اکثر لوگ پتھروں کو پُوجتے پُوجتے خود بھی پتھر دل ہوچکے تھے۔ عورتوں کی خودمختاری کے خوف سے بچیوں کو لڑکپن میں قتل کردینا معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔ غریبوں اور غلاموں پر چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر ظلم توڑے جاتے۔ اگر کوئی غریب سر اُٹھانے کی کوشش کرتا، تو اُسکا سر ہمیشہ کیلئے کچل دیا جاتا۔عربوں کی ان حرکات کی وجہ سے مصعب اپنے سینے میں ایک گھٹن محسوس کیا کرتے تھے۔

ایک ایسے ہی تازہ واقعہ جس میں کسی بادیہ نشین مسلمان گھرانے کو معمولی شبہ پر قتل اور خیمے کو جلادینے کی وجہ سے مصعب بن عمیر دعوت اسلام کے فلسفہ مساوات پر سنجیدگی سے سے غور کرنے لگے تھے۔ اور جب اُنہوں نے سورہ والقمر کی آیات سُنی تو بیساختہ پکار آُٹھے واللّه یہ کسی انسان کا لکھا کلام ہر گز نہیں ہوسکتا، کلامِ الہی کی تاثیر نے آگہی کے دروازے پر دستک دی تو ایک رات بیقراری کی حالت میں مصعب دارالارقم پہنچے اور حضور سید دو عالم صلی اللّه علیہ وسلم کے چہرہ والضحی پر فدا ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔

مصعب بن عمیر اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے آغوش رحمت میں وہ قلبی سکون پالیا جس کی وہ ہمیشہ تمناء کیا کرتے تھے، دل رُخ ِمصطفی صلی اللّه علیہ وسلم پر ایسا فدا ہُوا کہ،، اب ہر لمحہ قربت حبیب میں رہنے کو مچلتا۔لیکن نہ مکہ کے ایسے حالات تھے۔ اور نہ مسلمانوں کو عبادت کی کُھلی آزادی، پھر دوسری طرف مصعب یہ بھی جانتے تھے کہ،، مشفق مادر گرامی نے اُنہیں بڑے ناز و نعم سے پال پوُس کر جوان کیا ہے۔اور اِنکی ہر خواہش کو لب پر آتے ہی پوری کردینے والی ماں کو جس دن انکے دین حنیف کو اپنانے کی خبر ملے گی، وہ اس صدمہ کو آسانی سے سہہ نہیں پائیں گی۔

یُوں کچھ دن مزید گزر گئے، اُمِ مصعب خناس بھی بے خبری میں بیٹے کے سر پہ سہرا سجانے کے خواب بُن رہی تھی۔ اُنہوں نے تو مصعب کے لئے یثرب کے ایک نہایت مالدار سردار کی بیٹی کو بھی پسند کرلیا تھا، پھر اچانک ایکدن خناس بنت مالک کو خبر ملی کہ،، مصعب راتوں میں چھپ چھپ کر نا صرف دارالارقم میں نبی کریم علیہ السلام سے ملاقاتوں کیلئے جاتے ہیں، بلکہ کسی نے اُنکو مسلمانوں کی طرح عبادت کرتے بھی دیکھا ہے۔

والدہ نے جب مصعب رضی اللّه عنہ سے بازپرس کی تو مصعب رضی اللّه عنہ سے بڑے ادب سے ماں کو بتایا کہ،، وہ اسلام کی دولت سے مالامال ہوچکے ہیں۔۔۔ یوں تو خناس بنت مالک کی طبیعت بچپن سے ہی حاکمیت پسندی کی جانب راغب تھی، لیکن گھر میں دولت کی ریل پیل نے اُنہیں مزید جاہ پرستی کا شکار بنادیا تھا۔

انہوں نے پہلے محبت سے مصعب کو سمجھانے کی کوشش کی، اُنہیں دنیاوی آسائش کی رغبت بھی دلائی لیکن ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد بلاآخر اُنہیں ایک کمرے میں قید کردیا گیا، فراق حبیب صلی اللّه علیہ وسلم سے مصعب رضی اللّه عنہ کو ایک پل چین نہ آتا تھا، لیکن وقت کی رقاب مصعب کے ہاتھ سے پھسلتی چلی جارہی تھی۔ خناس ہرچند دن کے بعد مصعب سے آبائی مذہب سے متعلق اُنکی رائے دریافت کرتیں۔ اور ہر بار مصعب کا جواب یہی ہوتا ہے۔کہ،، امی جان اگر ساری دنیا کی دولت کے انبار بھی میرے قدموں تلے جمع کردئیے جائیں تب بھی میں اپنے کریم آقا علیہ السلام سے رُخ پھیرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا یہاں تک کہ صعوبتیں برداشت کرتے کرتے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

پھر ایکدن مصعب رضی اللّه عنہ کو خبر ملی کہ تاجدار کائنات صلی اللّه علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ مصعب نے دوستوں کو خفیہ پیغام بھیجا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں، اور یُوں کسی نہ کسی تدبیر سے مصعب قید سے فرار ہوکر مسلمانوں کے ساتھ پہلی ہجرت میں شامل ہوگئے۔حبشہ میں اگرچہ مسلمان مہاجرین کوعبادات میں کوئی روک ٹوک نہ تھی اور آپ یہاں بھی بے مصرف وقت گزارنے کے بجائے اسلام کی تبلیغ کی کوشش میں مصروف تھے ، لیکن سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد مصعب کےدل کو بیقرار کئے رکھتی تھی۔ پھر ایکدن مصعب کو خبر ملی کہ مکہ کے تمام لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اور مکہ معظمہ سرکشوں کے وجود سے پاک ہوچکا ہے۔ اکثر صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے دل اِس خبر کو سُننے کے بعد قربت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مچلنے لگے۔ اور چند اصحاب مکہ کی جانب واپس لُوٹ آئے۔ مکہ پہنچ کر معلوم ہُوا کہ، خبر جھوٹی تھی۔ اور یوں مسلمانوں کا یہ قافلہ واپس مشکلات کا شکار ہوگیا۔

مصعب کو ایکبار پھر قید کرنے کی کوشش کی گئی تو مصعب نے جذباتی لہجے میں والدہ پر واضح کردیا کہ،، بخدا لوگوں نےاگر مجھے آپ کے حکم پر اس مرتبہ پھر اپنے کریم آقا علیہ السلام سے جُدا کرنے کی کوشش کی ، تو میں ہر گز خاموش نہیں رہوں گا۔ بلکہ میری تلوار نیام سے باہر نکل کر ہی میرے مقدر کا فیصلہ کرے گی۔ یہ دھمکی اگرچہ کارگر رہی لیکن خناس بنت مالک نے مصعب کو غضبناک ہوکر گھر سے نکال کر لاتعلقی کا اعلان کردیا۔مصعب رضی اللّه عنہ والدہ سے بیحد محبت کرتے تھے۔ اس لئے والدہ کے سخت موقف پر دل شکستہ ہوکر بہت دیر تک آنسو بہاتے رہے۔ خناس بنت مالک بھی اگرچہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے آنسوؤں کو ضبط کئے رکھا، یہاں تک کہ،، مصعب گھر سے باہر چلے گئے تو کئی پہر مصعب کی جدائی پر زار و قطار روتی بلکتی رہیں۔

کچھ ہی عرصہ میں مصعب رضی اللّه عنہُ کی ظاہری حالت بدلنے لگی۔ سرخ و سفید چمکدار و ملائم چمڑی بھوک اور زمانے کی سختیوں کا شکار ہوگئی۔ متواتر فاقوں نے مصعب کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنادیا تھا۔ ریشمی لباس اُونی چیتھڑوں سے بدل چکا تھا۔ اور حضرمی چپلیں پہنے والے کے پاؤں کو مکہ کے خار و نوکیلے پتھروں نے بوسہ لے لیکر زخمی کرڈالا تھا۔ لوگ مصعب کی حالت دیکھ کر افسوس کرتے ، کسی کی آنکھ نم ہوجاتی تو کوئی بے دین کہتا، دیکھو لات وہبل نے مصعب سے کیسا بہترین انتقام لیا۔

لیکن وہ بدنصیب لوگ نہیں جانتے تھے کہ،، مصعب اب صرف زمان گیتی پر ہی محفلوں میں زیر بحث نہ تھے بلکہ افلاک پر قدسی ملائک بھی حیرت و خوشی سے اُنکی استقامت پر نثار ہورہے تھے۔ اور سید دو عالم صلی اللّه علیہ وسلم کی نگاہ ناز میں مصعب رضی اللّه عنہُ وہ مقام حاصل کرچکے تھے کہ،، جونہی قریۃالانصار (مدینہ) کے 12 خوش نصیبوں نے بیعت عقبی اول کے بعد اپنی تربیت، فقہی احکام اور تبلیغ دین کیلئے ایک معلم و سفیر اسلام کی درخواست تاجدار کائنات کی بارگاہ میں پیش کی تو کریم آقا علیہ السلام کی نگاہ ناز نے مصعب رضی اللّه عنہُ کو اسلام کا پہلا سفیر منتخب فرماکر مدینہ روانہ فرمادیا۔

اور کچھ ہی عرصہ میں مصعب رضی اللّه عنہُ نے مدینہ پہنچ کر یہ ثابت کردیا کہ حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب کسقدر حکمت و دانشمندی کا مظہر تھا۔ مصعب رضی اللّه عنہُ نے نا صرف یہ کہ،، اپنے اخلاق و اعلی تربیت کے سبب بہترین حکمت عملی سے مدینہ والوں کے دل جیت لئے، بلکہ،، آپکی فہم فراست نے جلد ہی یہودیوں کی لگائی آگ جس کی وجہ سے انصارمدینہ کے دو بڑے قبائل اُوس اور خزرج برسوں سے ایک دوسرے کے خونی دشمن بنے ہوئے تھے۔ اور یہودی اس آگ کو مزید بھڑکاتے رہتے تھے تاکہ انصار اس قبائلی جنگ کیلئے اسلحہ اور قرض مہنگے سُود پر اَن یہودیوں سے حاصل کرتے رہیں۔ مصعب کی انتھک کوششوں اور نصیحت سے بلاآخر ایک دن انصار مدینہ کے گھروں میں لگی یہ آگ بجھ گئی۔ اور مدینہ طیبہ میں محبتوں کے غنچوں کی آبیاری نے لوگوں کو مصعب اوُر اسلام کا گرویدہ بناڈالا۔

مدینہ کے لوگوں کو مصعب کی صورت میں ایک مشفق و مہربان ناخدا مل گیا تھا جو طوفان میں پھنسی انکی کشتی کو ساحل تک حفاظت سے نکال لایا تھا۔ مدینہ کے لوگ مصعب پر نثار تھے، جبکہ مصعب کی زبان پر ہر گھڑی اپنے کریم آقا علیہ السلام کے بیمثال حسن اخلاق کے تذکرے تھے۔ جسکی وجہ سے مدینہ کے نومسلموں کے دلوں میں روز بروزعشق مصطفی صلی اللّه علیہ وسلم خُوب پروان چڑھ رہا تھا۔ مصعب مدینے میں ادب و سلوک کی منازل سے لوگوں کو روشناس کرارہے تھے۔ جسکی وجہ سے انصار مدینہ کا شوقَ دید و وصال لبریز ہوا چاہتا تھا۔

پھر مدینہ کے 72 لوگ ایک وفد کی صورت میں مصعب کی رہنمائی میں مکہ آئے ۔تاکہ حضور علیہ السلام سے مدینہ طیبہ میں دائمی شرف اقامت کی درخواست کی جاسکے، آنکھوں کی پیاس بجھی تو انصار نے جانا کہ،، جان جاناں صلی اللہ علیہ وسلم کے تعمیل حکم کی خاطر مکہ سے دور رہ کر مصعب ہجر کی کیسی سختی برداشت کررہے ہیں۔ بھلا ایسا کون ہوگا جو اپنی خوشی سے ایک لمحہ بھی حبیب کردگار سے جدائی کا تصور بھی کرسکے ! مدینہ کے لوگوں نے مصعب کی انتھک کوششوں سے مدینہ میں جوق در جوق لوگوں کی اسلام میں دخول کے قصے اور اُوس و خزرج کے درمیان مصالحت کے تذکرے سُنائے تو کریم آقا علیہ السلام اتنے خوش ہوئے کہ،، مکہ کے وحشیوں کے تمام ظلم و ستم کچھ لمحوں کیلئے بھول کر مسکراتے ہوئے مصعب کو دُعاوں سے نوازتے رہے ۔

مصعب رُخ مصطفی صلی اللّه علیہ وسلم کے جلووں میں گم تھے، اور دوسری طرف خناس بنت مالک اطلاع پاکر مصعب کی دید کی متمنی تھی۔ کسی کو بھیج کر ملاقات کا پیغام دیا ، تو مصعب کو ہوش آیا، جب ماں کی خدمت میں حاضری دی۔۔۔۔تب خناس نے بیٹے سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ،کیا میں نے تمہیں نو ماہ اپنے شکم میں رکھ کر درد برداشت نہیں کئے؟ کیا میں نے تمہیں بچپن سے جوانی تک ناز ونعم سے نہیں پالا؟ کیا میں نے تمہاری پہلے حبشہ اور اب مدینے کی جدائی برداشت نہیں کی؟ اگر ہاں تو کیا میرا تجھ پر پہلا حق نہ تھا کہ،، پہلے تو میرے پاس آتا ؟

مصعب رُوتے ہوئے کہنے لگے امی جان آپ نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے۔ آپ نے میری پرورش میں کوئی کمی یا زرا سی بھی کوتاہی نہیں کی۔ لیکن خدا کی قسم مصعب کیلئے ایسا ممکن ہی نہیں کہ،، وہ اپنے آقا علیہ السلام سے پہلے کسی کو دیکھنا پسند کرے، چاہے وہ آپ جیسی شفیق ماں ہی کیوں نہ ھو۔

مصعب کی گفتگو نے خناس بنت مالک کے غرور کو چکنا چُور کردیا تھا، اُس نے حسرت سے مصعب کو دیکھا پھر غضبناک لہجے میں بولی، اگر تمہارے لئے تمہارے نبی اتنے ہی اہم ہیں اور تمہاری نظر میں اگر میری اتنی ہی وقعت ہے۔ تو ابھی میری نظروں سے دُور ہوجاؤ، اور آئندہ کبھی مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ میں بھی دل پر پتھر رکھ کر سمجھولُوں گی کہ،، میرا مصعب اب اس دُنیا میں نہیں رہا۔

خناس بنٹ مالک کی گفتگو اور لہجے سے مصعب آبدیدہ ہو کر ماں کے قدموں سے لپٹ کر روتے ہوئے بولے۔ امی جان میں بھی آپ سے بہت محبت کرتا ہوں، اس لئے آپکو جہنم کا ایندھن بنتا نہیں دیکھ سکتا۔ خدارا اس ریاکاری کے طلسم سے نکل انا کے بت کو توڑ ڈالئے تاکہ آپ بھی آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ خناس بنت مالک پر مصعب کی گریہ و زاری نے اگرچہ کافی اثر کیا لیکن یکایک شیطانی وساوس نے انکے دل و دماغ کو پھر سے اپنی گرفت میں لے لیا چنانچہ سنبھل کر شقاوت سے کہنے لگی۔ میں اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر ایک نیا دین نہیں اپنا سکتی۔ ورنہ عرب کے لوگ مجھے کم عقل و کمزور سمجھیں گے۔
ان للّه و انا الیہ راجعون۔


مصعب حتی الامکان کوشش کے باوجود اپنی والدہ کو دین اسلام کی جانب مائل نہیں کرپائے اور ہجرت سے چند ماہ قبل مصعب کی والدہ سے یہ آخری ملاقات ثابت ہوئی، تھوڑے ہی عرصہ بعد حکم خداوندی سے محبوبِ کبریا صلی اللّه علیہ وسلم نے ہجرت فرما کر مدینے کو ہمیشہ کیلئے شرفِ فضیلت عطا فرمادی۔

ایک دن حضور سید دو عالم صلی اللّه علیہ وسلم اپنے اصحاب رضوان اللّه اجمعین کے جُھرمٹ میں جلوہ افروز تھے اور مصعب اس حال میں تشریف لائے کہ،، آپکے جسم پر ایک دھاری دار کرتہ تھا، جسکی خستہ حالی کا یہ حال تھا کہ،، وہ کئی جگہ سے پیوند کیا گیا تھا، اور آستینوں میں کپڑے کے بجائے بوسیدہ چمڑے سے پیوند لگایا گیا تھا۔ صحابہ کی آنکھیں مصعب کی غربت پر چھلک پڑیں، تو تاجدار مدینہ صلی اللّه علیہ وسلم نے گواہی دی۔ بیشک میں نے مکہ میں مصعب سے ذیادہ خوبصورت بالوں، بہترین لباس اور ناز و نعم سے پلنے والا نہیں دیکھا۔ مصعب کی قربانیوں کیلئے تاقیامت اس سے بہترین الفاظ ادا نہیں کئے جاسکیں گے، کیونکہ یہ محبوب اعظم صلی اللّه علیہ وسلم کا اپنے عاشق کی لازوال محبت کا اعتراف ہے۔

جس طرح حضور سید دو عالم صلی اللّه علیہ وسلم نے اول سفیر اور اسلام میں پہلا جمعہ پڑھانے کی سعادت مصعب کو عطا فرمائی ۔غزوہ اُحد میں بھی پرچمِ اسلام مصعب رضی اللّه عنہُ کو عطا فرمایا گیا، اُس دن آپ کے حُسن و جمال کا یہ حال تھا، کہ نگاہیں آپکے چہرے پر ٹہرتی نہ تھیں، قریب تھا کہ،، مسلمان یہ جنگ بغیر کسی بڑے نقصان کے جیت جاتے تیراندازوں نے بغیر حکمِ مصطفی صلی اللّه علیہ وسلم پہاڑی چھوڑ دی جس سے جنگ کا پانسہ بدل گیا، بھاگتے کفار واپس لوٹ آئے، اُس گھڑی افراتفری کا یہ عالم تھا کہ،، اپنوں کے ہاتھوں اپنے قتل کئے جارہے تھے۔

کفار نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم کی جانب بڑھنے لگے تو مصعب نے غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے پرچم اسلام کو تکبیروں کے ساتھ دائیں بائیں ہلانا شروع کردیا کفار کی توجہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم سے ہٹ کر مصعب رضی اللّه عنہُ کی جانب مبذول ہوگئی۔ اور آپ شہید ہوگئے۔ اور اُحد کے میدان میں ستر شُہداء میں امیر حمزہ رضی اللّه عنہُ کے بعد یہ دوسرا بڑا غم تھا جو کریم آقا علیہ السلام نے اپنے قلب اطہر پر برداشت کیا، روایت ہے کہ،، مصعب کی شہادت کے بعد ایک فرشتہ نے مصعب کی شکل اختیار کی اور پرچم اسلام زمین پر نہ گرنے پایا۔۔۔ مصعب آج دُنیا سے پردہ فرماتے ہوئے بھی منفرد تھے، آپکو کفن کیلئے جو چادر دی گئی وہ ظاہری حجم میں چھوٹی تھی، قدم چھپائے جاتے تو چہرہ کُھل جاتا اور چہرہ چھپانے کی کوشش میں قدم ظاہر ہوجاتے، سرکار مدینہ نے ارشاد فرمایا چہرہ ڈھانپ دو اور قدموں کو گھانس سے چھپادو۔ اللّه کے بعد اُحد والوں کا میں خود نگہبان ہوں۔ حضور سید دُو عالم صلی اللہ علیہ نے اپنے اصحاب کو اُحد والوں کے قبور کی زیارت کی ترغیب دیتے ہُوئے ارشاد فرمایا ، اللہ کی قسم قیامت تک جو انہیں سلام پیش کرے گا، یہ شُہدا ٗ بھی اُنہیں جواب دیں گے۔

ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095765 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More