اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل
ہے۔ ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی۔ غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ
واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش ، پیغام ، درسِ
حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا
تعلیمات ، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات کے
فقروں میں۔ لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا
جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما،
تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب ، سماجی عوامل و محرکات ، نظم و نسق
مدرسہ، اساتذہ ، طریقہ تدریس ، نصاب ، معیار تعلیم ، تاریخ تعلیم ، اساتذہ
کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔
علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل
میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ
تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں
درس و تدریس ، تعلیم یا طلبہ و مدارس کے توسط سے پیدا ہونے والے مسائل سے
بحث کرنے کے بجائے عام طور پر وہی باتیں کہی گئی ہیں جواقبال کے فکرو فن یا
فلسفہ خودی و بیخودی یا تصور فرد و جماعت کے حوالے سے ان کو ایک بزرگ مفکر
یا عظیم شاعر ثابت کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں ۔ حالانکہ ان باتوں کا تعلق
تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے نہیں بلکہ تعلیم کے اس عام مفہوم سے ہے جس کے
دائرے میں ہر بزرگ اور صاحبِ نظر فلسفی یا شاعر کا پیغام درس حیات آ جاتا
ہے۔
مانا کہ اقبال کے تصور ِ تعلیم کے ضمن میں ایسا کرنا بعض وجوہ سے ناگزیر ہے
اور اقبال کے مقاصد ِتعلیم کے تعین کے سلسلے میں ان کے فلسفہ خودی و بیخودی
یا فلسفہ حیات کو بحرحال سامنے رکھنا پرتا ہے۔ لیکن اقبال کے عام فلسفہ
حیات کو اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا فلسفہ تعلیم سے تعبیر کرنا یا محض ان
دلائل کی بنیاد پر انہیں ایک عظیم مفکر تعلیم یا ماہر تعلیم کہنا مناسب
نہیں معلوم ہوتا ۔ اس لئے کہ بقول قاضی احمد میاں اختر جو نا گڑھی، اقبال
نہ تو فن ِ تعلیم کے ماہر تھے نہ انہوں نے اس فن کی تحصیل کی تھی، نہ اس
موضوع پر انہوں نے کوئی کتاب لکھی بجز اس کے کہ کچھ مدت تک بحیثیت پروفیسر
کالج میں درس دیتے رہے۔ کوئی مستقل تعلیمی فلسفہ انہوں نے نہیں پیش کیا۔
با ایں ہمہ ، اقبال کے تعلیمی افکا ر سے کلیتاً صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔
انہوں نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر غور کیا ہے، مسائل تعلیم کو اپنی
توجہ کا مرکز بنایا ہے، اپنے فلسفہ حیات میں مناسب جگہ دی ہے، تعلیم کے عام
معنی و اثرات پر روشنی ڈالی ہے اس کے ڈھانچے اغراض اور معیار کو موضوع
گفتگو بنایا ہے اور اپنے عہد کے نظام ِ تعلیم پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔
مدرسہ ، طلبہ ، اساتذہ اور نصاب ، سب پر اظہار خیال کیا ہے ۔صرف مشرق نہیں
، مغرب کے فلسفہ تعلیم اور نظام ِ کار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ دونوں کا ایک
دوسرے سے مقابلہ کیا ہے ان کے درمیان حد ِ فاصل کھینچی ہے۔ خرابیوں اور
خوبیوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے
اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پالینے کے لئے کس قسم کی تعلیم اور نظام تعلیم
کی ضرورت ہے۔
افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ
افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے
تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین ، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور
اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قومی زندگی کے
اسی اہم پہلو پر گہرا غور و خوص کیا ہے۔ اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ
متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن
سکے۔
ابتداء میں تو اقبال نے قوم کے تعلیمی پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔ خاص
طور پر اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں اس موضوع پر انہوں نے کچھ
نہیں لکھا۔ البتہ آخر میں انہوں نے اس قومی پہلو کو بھر پور اہمیت دی۔ ضرب
کلیم میں تو تعلیم و تربیت کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ
بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی
نشاندہی کی گئی ہے۔بقول ڈاکٹر سید عبداﷲ، اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوؤں پر
کچھ زیاد ہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا
ہے۔ جس کو اگر مرتب کر لیاجائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا
سکتی ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ آج اگر ہم اپنی نظام تعلیم کو دیکھ لیں تو آئے روز اگر
چہ نصاب میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس تبدیلیاں تعمیری کم تخریبی
زیادہ ہے۔ نصاب تعلیم سے انبیاء کرام اور صحابہ کرام کے واقعات نکال کرناول
اور افسانے ڈالے جارہے ہیں۔ پاکستانی بحیثیت ایک متحد قوم کو ٹکڑے ٹکڑے
کرکے نسلی اور لسانی نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ کیا یہ وطن ہم نے اسلیے
حاصل کیا تھا؟ کہا گیا پاکستان کا مطلب کیا والا نعرہ؟ کہا گیا ایسے وطن کا
تصور جہاں تمام مسلمان رنگ، نسل، لسان اور ذات پات سے مبرا ایک ذات عالی
کیحاکمیت اعلیٰ میں رہ کر پر امن زندگی بسر کریں اور اس ذات عالی کی بندگی
کریں؟ |