پراپرٹی کا کام بہت نفع بخش ہے اس لئے بہت سے لوگ اس سے
وابستہ ہیں کچھ باقاعدہ کچھ بے قاعدہ۔ باقاعدہ پیشہ ور لوگ ہیں جن میں
زیادہ تر بہت دیانتداری اور خلوص سے کام کرتے ہیں، ان کے اپنے اعلی اخلاقی
ضابطے اور خوبصورت رکھ رکھاؤ ہیں۔ سجے سجائے دفتر ہیں۔بلا کے ملنسار
ہیں۔کاروبار کو خدمت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ ڈیل ہویا نہ ہوایک تعلق بنا
لیتے ہیں۔ بے قاعدہ وہ ہیں کہ چلتے پھرتے کاروباری ہیں۔نہ کوئی اخلاقی
ضابطہ، نہ کوئی رکھ رکھاؤ، فقط کمیشن سے غرض۔ کمیشن ملنے کے بعد تو کون میں
کون، پہچانتے ہی نہیں۔بعد میں ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتے۔سودا صحیح ہو یا
غلط آپ کی قسمت۔ سودا ٹھیک ہے تو آپ خوش اور اگر غلط ہو تو بد دعائیں، اور
ایسے ڈیلروں کے سودوں میں زیادہ تر گڑ بڑ ہی ہوتی ہے اور لوگ تاحیات گالیاں
نکالتے رہتے ہیں۔یہ ڈیلر خالصتاً برساتی ہوتے ہیں، جی ہاں برساتی مینڈک۔
مینڈک سے یاد آیادو عورتیں ایک جگہ سے گزر رہی تھیں کہ ان کے سامنے ایک
مینڈک آ گیا۔ وہ رکیں تو مینڈک بولا، بی بی میں ایک انسان ہوں، چل پھر کر
پراپرٹی کا کام کرتا تھا۔ غلط سودے کرنے اور کروانے میں میرا کوئی ثانی
نہیں تھا۔ میرے ڈسے ہوئے لوگوں نے اتنی بد دعائیں دیں کہ میں مینڈک بن گیا
ہوں۔ آپ مہربانی کریں میرے جسم کو چوم لیں میں انسانی شکل میں واپس آ جاؤں
گا۔ ایک عورت ابھی سوچ رہی تھی کہ کیا کرے کہ دوسری نے ٹشو پیپر نکالا ۔
مینڈک کو اس سے پکڑا اور اپنے پرس میں ڈال لیا۔پہلی عورت نے حیران ہو کر
پوچھا کہ مینڈک نے تو چومنے کا کہا تھا تم نے پرس میں ڈال لیا ہے۔دوسری
بولی ،دو باتیں سمجھ لو، ایک، ایسے بے ایمان کو انسان ہونا ہی نہیں چاہیئے۔
یہ مینڈک ہی ٹھیک ہے لوگ تو محفوظ رہیں گے، دوسرا ،بولتا مینڈک ایک بے
ایمان شخص کی نسبت انتہائی قیمتی اور نایاب چیز ہے ، گھر میں شاندا ر شیشے
کا پنجرہ بنا کر رکھوں گی۔تم بھول جاؤ کہ ہم میں سے کسی نے اسے چومنا ہے۔
جو ایماندار لوگ ہیں، وہ بے ایمانی نہیں کرتے مگر کبھی کبھارغلطی سرزد ہو
جانا تو یقیناًان کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایک ڈیلر نے کسی کو مکان خرید کر
دیا، خریدنے والا جس دن نئے مکان میں آیاڈیلر اس کے لئے ایک خصوصی گلدستہ
بنوا کر لایاجس پر اس نے اپنے مطابق گھر کی مبارک باد کا پیغام
لکھوایا۔مالک مکان نے گلدستہ وصول کیا تو دیکھا اس پر لکھا تھاـ’’ ریسٹ ان
پیس‘‘۔ اردو میں اس کا ترجمہ ہے اﷲآپ کو جوار رحمت میں جگہ دے۔یہ فقرہ
عموماً مرحومین کے لئے کہا جاتا ہے۔ڈیلر کچھ کم پڑھا ہوا تھا اور مالک مکان
کچھ زیادہ ہی۔ مالک مکان برا مان گیا۔ڈیلر مخلص آدمی تھا اسے اس بات کا
افسوس ہوا۔ مگر غلطی گلدستہ بیچنے والے کی تھی ۔ وہاں سے گلدستے والے کے
پاس گلہ کرنے پہنچ گیا۔ گلدستے والے نے بات سنی تو مزید پریشان ہو گیااور
کہنے لگا۔ اوہوکیا بتاؤ ۔ابھی وہ لوگ بھی آتے ہوں گے کہ جن کے کسی عزیز کی
قبر پر جو گلدستہ پڑا ہو گا اس پر ’’نیا گھر مبارک‘‘ لکھا ہو گا۔
پراپرٹی ڈیلروں سے وابستہ یہ لطیفے مجھے یوں یاد آئے کہ میرے ایک محلے دار
حاجی اشفاق بھی پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ انتہائی نفیس انسان ، بہت ملنسار، شائبہ
ہی نہیں ہوتا کہ ڈیلر ہیں۔ شخصیت ایسی کہ لمحوں میں دل میں اترجاہیں۔ بھائی
چارے کوبھی کمیشن کے متبادل کے طور پر قبول کر لیتے ہیں، پیسے کی بات ہی
نہیں کرتے۔میرے جیسے قلاش آدمی نے کیا خریدنا اور کیا بیچنا ہے مگر میرے
ساتھ ان کا خلوص اور پیار کاانمول رشتہ ہے۔اسی رشتے کے سبب کبھی کبھی ان کی
طرف کھنچا جاتا ہوں۔ان کے پاس بیٹھا تھا کچھ اور بھی ڈیلر تھے۔ وہاں پتہ
چلا کہ بعض عام آدمیوں کا ڈیلروں کے ساتھ طرز عمل بھی لطیفوں جیسا ہی ہوتا
ہے۔
ایک ڈیلر گاہک لے کر کسی پلاٹ کے مالک کے پاس گئے۔ گاہک اور پلاٹ بیچنے
والا دونوں بہت سیانے تھے۔ گاہک نے پہلے ملکی حالات کا رونا رویا ۔ پھر
مارکیٹوں کی پریشان کن صورتحال پر روشنی ڈالی اور آخر میں پلاٹ کے مالک کو
پلاٹ کی قیمت میں زیادہ سے زیادہ رعایت کے لئے ایک بڑا جمپ لگانے کا
کہا۔پلاٹ کا مالک مسکرایا ، اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا، ایک قدم آگے بڑھا ،
پہلے تھوڑا نیچے ہوا اور پھر پورے زور سے اوپر اچھلا۔اس کے بعد بڑے اطمینان
سے اپنی کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے خریدار کو کہا، بھائی تمہاری فرمائش
پر میں اس عمر میں جتنا بڑا جمپ لگا سکتا تھا ، لگا دیا ہے۔ باقی رہی قیمت
کی بات تو قیمت میں وہی لوں گا جو میں نے آپ کو بتائی ہے۔
ایک کروڑ پتی صاحب ایک پلاٹ بیچنا چاہتے تھے۔ انہوں نے پراپرٹی ڈیلر کو فون
کیا اور فوری ضرورت کا بتایا۔ ڈیلر اگلے دن ان کے پاس تھا۔ انہوں نے بڑے
تپاک سے خوش آمدید کہا، چپراسی کو چائے اور بسکٹ لانے کا کہا۔ اپنی زمین کے
بارے بتایا اور اس کی ڈیمانڈ سوا کروڑ روپے فی کنال کے قریب بتائی۔ اسی
دوران چائے اور بسکٹ وغیرہ آگئے۔ چپراسی چائے بنانے لگا، ڈیلر نے ان کا ریٹ
سن کر کہا کہ موجودہ مارکیٹ ریٹ بہت کم ہے۔ ارد گرد سارے پلاٹ پچاس لاکھ کے
لگ بھگ فی کنال بک رہے ہیں ، آپ کا پلاٹ سوا کروڑ میں نہیں بک سکتا۔ یہ سن
کر اس مالی لحاظ سے بڑے آدمی نے چپراسی سے کہا، چائے اٹھا لواور ڈیلر کو
کہا کہ آپ جا سکتے ہیں۔ یوں مالی لحاظ سے حاثاتی طور پر بڑا آدمی بننے والے
ایک شخص نے اخلاقی طور پر خود کو انتہائی چھوٹا آدمی ثابت کر دیا۔ پراپرٹی
ڈیلر اس بات پر ہنس رہے تھے اور میں معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی پر رو رہا
تھا ۔ |