احتجاج سے عوام کی مشکلات

کسی بھی معاشرے کو قائم رکھنے کے لئے وہاں امن وامان قائم رکھنا سب سے اولین ترجیح ہوتی ہے جس کے بعد باقی معاملات ہوتے ہیں ہر معاشرے میں کئی رنگ ،نسل، اور مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب اور نسل کے لوگوں کو جب ایک معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا پڑے تو اس کے لئے کسی نا کسی کو کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی قربانی دینی پڑتی ہے کچھ لوگ یہ قربانی مذہب کے نام پر کچھ انسانیت کی خاطر اور کچھ لوگ اپنے مقاصد کی خاطر دیتے ہیں پوری دنیا میں یہ دستور رائج ہے کہ جب وہاں کے مکینوں کے وہ جائز حقوق جو ریاست کی طرف سے ان کے لئے مخصوص ہوتے ہیں نہ ملیں تو وہ اپنے جائز حقوق کے لئے احتجاج کا راستہ اپناتی ہیں اس کیلئے جلسے ،جلوس، اور دھرنے بھی دیے جاتے ہیں اور کھبی کھبار ہڑتالیں بھی کی جاتی ہیں اس سب کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ مظاہریں یا احتجاج کرنے والے ریاست کی رٹ کو چلینج کر رہے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے جائز حقوق کے حصول کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ہاں ان احتجاجون کا سلسلہ وسیع ہو گیا ہے اس کی بڑی وجہ شاید چند سالوں میں ان احتجاجوں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے مقاصد کی تکمیل بھی ہے جن کو شاید یہ بات پتا چل گئی ہے کہ ان کے لئے اپنے مطابات منوانا شاید اس طریقے سے آسان ہو گیا ہے ہم چونکہ اسلام آباد کے شہری ہیں اور راولپنڈی اور اسلام آباد جڑواں شہر کہلاتے ہیں اس حوالے سے ہمارا ن دونون شہروں میں آنا جانا روز کا معمول ہے اور اگر ان دونوں شہروں میں کسی ایک میں بھی گڑ بڑہو جائے تو اس کا سارا اثر یہاں کی عوام پر پڑتا ہے جو ان احتجاجوں یا جلسے جلوسوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں

دنیا بھر میں احتجاج ہوتے ہیں مگر جو احتجاج ہمارے ہاں ہوتے ہیں ان کا اثر ریاست پر نہیں بلکہ یہاں کے عوام پر ہوتا ہے میں احتجاج کے خلا ف ہر گز نہیں ہوں مہذب اقوام اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کرتی ہیں لیکن جو صورت حال گزشتہ چند دنوں سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی بنی ہوئی ہے وہ کسی بھی طور پر مہذب نہیں ہے اس میں قصور کس کا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے انتظامیہ ان تمام احتجاجوں سے پہلے ٹریفک کو روآں رکھنے کے لئے متبادل روٹس کا اعلان کر دیتی ہے مگر اس پر عمل کروانے سے ایسے جان چھڑا لیتی ہے جیسے اس کی کوئی ذمہ داری ہی نہ ہو شاید یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں ٹریفک کا حلیہ بگڑ جاتا ہے اسی ٹریفک میں مریض بھی خوار ہو رہے ہوتے ہیں اور اسی میں عام مسافر اور سب سے زیادہ خوار ہونے والے لوگ یہاں کے مقامی شہری ہوتے ہیں جن کو روز اسلام آباد راولپنڈی آنا جانا ہوتا ہے ۔گزشتہ چند دنوں سے راولپنڈی،اسلام اباد کے مختلف علاقوں میں بدترین ٹریفک جام رہا جو ہنوز جاری ہے آئے دن کی ریلیوں ،جلوسوں اوردھرنوں کی وجہ سے جڑواں شہروں کے معمولات زندگی شدیدمتاثرہورہے ہیں لیکن اس حوالے سے دونوں شہروں کی ضلعی انتظامیہ اورحکومت کوئی کارروائی نہیں کرتیجو بھی ریلی یا جلوس پاکستان کے کسی بھی شہر سے اسلام آباد تک آتا ہے اس کا گزر اسی مرکزی شاہراہ سے ہوتا ہے ہونا تو یہ چاہے کہ حکومتی ذمہ داران ان سے مذاکرات کریں اور ان کو ایک مخصوص جگہ دیں جہاں وہ احتجاج کر سکیں اور ان کے اس احتجاج کو ریکارڈ بھی کیا جائے مگر ہمارے ہاں ریکارڈ تب کیا جاتا ہے جب کئی افراد لقمہ اجل بن چکے ہوتے ہیں گزشتہ روز آنے والی ریلی کی وجہ سے دونوں شہروں کوملانے والی مرکزی شاہراہ مری روڈبندہوگئی جس سے جڑواں شہروں میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملی ریلی میں شامل افرادنے بعدازاں ایکسپریس وے کوفیض ابادکے قریب بسیں کھڑی کرکے بندکردیااوریہاں سے اگے جانے کی بجائے فیض ابادکے پل اورملحقہ سڑکوں پرڈیرے ڈال دئیے جس کی وجہ سے دونوں شہروں میں آنے جانے والی ٹریفک معطل ہوکررہ گئی اوردفاتر جانے والے سرکاری ونجی ملازمین،کاروباری افراد اورتعلیمی اداروں کے طلباء وطالبات اورمعمرشہریوں کوفیض ابادسے پیدل چلنے پرمجبورکردیاگیاافسوس ناک امریہ ہے کہ اس دوران دونوں شہروں کی انتظامیہ اورپولیس نے مکمل طورپرچپ سادھے رکھی شاید یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں کہ یہاں کے نظام کو چلانا ان کی ذمہ داری ہے مرکزی شاہراہ پرٹریفک کی بندش کے باعث دونوں شہروں کی دیگرسڑکوں پربھی سارادن گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آتی رہیں ریلی کے اسلام اباد ریڈزون میں داخل ہونے کے خدشہ کے پیش نظر اسلام اباد انتظامیہ اور پولیس نے فیض آباد کے قریب اسلام آباد ہائی وے کو ازخود بند کردیا جس کی وجہ سے نہ صرف اسلام آباد بلکہ راولپنڈی میں بھی ٹریفک جام ہوگئی، اسلام اباد ٹریفک پولیس نے ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے جو ٹریفک پلان جاری کیا تھا اس پر عملدرامد ہوہی نہیں سکا مسافروں کو تو دشواری کا سامنا کرنا ہی پڑا، تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات بھی پندرہ بیس منٹ کا سفر دو دو ،تین تین گھنٹوں میں مکمل کر کے اپنے گھروں کو جا رہے ہیں شہری تنظیموں بھی اس صورت حال میں کچھ کرنے سے قاصر ہیں اور سب سے بری حالت مقامی شہریوں کی ہے

حلیہ سند ماہ کے دوران جو درگت مقامی شہریوں کی ان دھرنوں جلسوں اور ہڑتالوں نے بنائی ہے اس کے بعد اسلام اباد انتظامیہ کو دوسرے شہروں سے انے والے جلوسوں کوروکنے کیلئے سخت حکمت عملی پر عمل کرنا ہوگا اور شہریوں کی سہولیات کی فراہمی اور معمولات زندگی کو رواں دواں رکھنے کیلئے مستقل منصوبہ بندی کرنی ہو گی جس کے بعد ہی حالات کسی بہتر مقام پر پہنچ سکتے ہیں-

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206093 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More