متاثر کن شخصیات

ہر انسان میں کچھ خوبیاں ہوتی ہیں جو دوسرئے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ایمانداری، فرض شناسی،اصول پسندی، دیانتداری، سخاوت اور سچائی یہ بھی خوبیاں ہیں ایمانداری ، اصول پسندی، دیانتداری اور فرض شناسی گورنمنٹ ملازمین کا فرض ہے لیکن میری نظر میں آجکل کے دور میں یہ سب سے بڑی خوبیاں ہیں جو میری پروفیشنل زندگی میں کم کم ہی دیکھنے میں آئی جس دور میں لوگوں میں خوبیوں کا قحط ہوں اُس دور میں اُن لوگوں کی ضرور تعریف کرنی چاہیے جو ان خوبیوں سے مالا مال ہیں ہو سکتا ہے ان لوگوں سے متاثر ہو کر کچھ اور لوگ بھی اس راہ پر چلنے کی کوشش کریں2001میں ہمارئے ایک دوست چوہدری صاحب پر ایف آئی آر ہو گئی کیس کورٹ میں تھا ہم کوئی اس طرح کے تعلقات ڈھونڈ رہے تھے جس کی وجہ سے عدالت سے ہم کو ریلیف مل جائے یونیورسٹی میں ہمارا ایک دوست تھا پتا چلا کہ اُ س کے ماموں راولپنڈی میں سیشن جج تعنیات ہے اُس کا ہم لوگوں نے ترلا ڈالا لیکن اُس کا ایک ہی جواب کہ وہ سفارش نہیں کریں گے لیکن ہمارئے اصرار پر وہ ہمارئے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گیا اگلی صبح ہم تینوں دوست راولپنڈی پہنچ گئے ہم کو جج صاحب کے آفس میں بٹھایا گیا کورٹ سے فارغ ہو کے وہ اپنے آفس میں تشریف لائے ہمارئے دوست نے اُن سے ہمارا تعارف کروایا اُنھوں نے چائے منگوائی پڑھائی اور یونیورسٹی کے متعلق باتیں شروع کردی پھر آنے کی وجہ پوچھی اُن کے بھانجے اور ہمارئے دوست نے اُن کو کیس کے متعلق بتایااُنھوں نے ایف آئی آر پڑھنے کے بعد چوہدری صاحب کی طرف دیکھا اورکہا بیٹا اب آپ بتائے مسئلہ کیا ہے چوہدری صاحب نے بتانا شروع کیا کہ میرئے بھائی نے اپنی بیوی کو طلاق دئے دی ہے میری سابقہ بھابھی ہمارئے گھر اپنا سامان اُٹھانے آئی تو اُس کی میری والدہ کے ساتھ دوبارہ لڑائی شروع ہو گئی دوران لڑائی میں نے ا پنی سابقہ بھا بھی کے کپڑئے پھاڑ ڈالے جج صاحب نے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا اور کہا بیٹا اگر آپ کی بہن کے کوئی کپڑئے پھاڑ دئے تو آپ کیا کرئے گے چوہدری صاحب نے جذباتی انداز میں جواب دیا میں اُس کو گولی مار دوں گا جج صاحب نے کہا پھر شکر کروں کہ اُس کے بھائی نے تم کو گولی نہیں مار دی بہتر یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے معافی مانگ لواگر وہ تم کو معاف کر دیں تو ٹھیک نہیں تو آپ کو سزا ضرور ملنی چاہیے وہ جج صاحب تھے عبدالقیوم راجہ(اﷲ اُن کی مغفرت فرمائے) کاش اس طرح کے اصول تمام جج صاحبان کے ہوتے تو آج لوگ انصاف کے لیے در در کی ٹھوکرئے نہ کھا رہے ہوتے2008 تک میری بھی یہ سوچ تھی کی گورنمنٹ کی سروس یا سفارش سے ملتی ہے یا پھر رشوت سے لیکن میری سوچ جس شخصیت کی وجہ سے بدلی وہ شخصیت ہے ڈاکٹر رضوان نصیرریسکیو1122میں راولپنڈی ڈویژن میں آکاونٹس کی ایک سیٹ تھی میں نے بھی آپلائی کر دیاٹیسٹ دینے گیا تو ایک سیٹ کے لیے تحریری ٹیسٹ دینے کے لیے چھبیس امیدوار تھے ٹیسٹ دیا یہ سوچ کر پہلے ہی کوئی نہ کوئی سفارشی سلیکٹ ہوچکا ہو گاکچھ دن بعد ریسکیو1122 کی طرف سے ایک لیٹرملاحیرانگی سے کھولا تو انٹرویو کی کال تھی مقرر ہ تاریخ پر وہاں حاضر ہوا پتا چلا کہ چھ لڑکوں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیاہے ہم سب کو ایک ساتھ ہی انٹرویوکے لیے اندر بلا یا گیا ڈاکٹر رضوان نصیر کے ساتھ تین اور افراد انٹرویو لینے والے پینل میں شام تھیں ہم سب سے باری باری ہماری تعلیمی قابلیت اور تجربے کے بارئے میں سوال کیے گئے پھر ہم میں سے تین لڑکوں کو باہر جانے کو کہا گیاباقی جو ہم تین تھے اُن سے ایک بار پھر سوالوں وجواب کا سلسلہ شروع ہو گیاآخر میں ڈاکٹر رضوان نے کہا آپ لوگ جا سکتے ہیں جو سلیکٹ ہو گا اُس کو بلا لیا جائے گا اور جب مجھ کو لیٹر وصول ہوا کہ آپ کو سلیکٹ کر لیا گیا ہے بغیر کسی سفارش اور رشوت کے گورنمنٹ کی جاب ملنا میرئے لیے ایک انہونی تھی ڈاکٹر رضوان نصیر کی محنت، اصول پسندی، ایمانداری اور لگن کی وجہ سے ہی ریسکیو1122 ایک تناور درخت کی شکل میں نمودار ہوا ٓایف بی آر ایک ایسا ادارہ ہے جس کے چپراسی سے لے کر کمشنر تک سب کے سب کرپٹ ہیں اس کی مثال انگور کے اُس گھچے کی ہے جو مکمل طور پر داغ دار ہے لیکن اگر اس داغ دار گھچے میں سے ایک دانہ بالکل صاف شفاف نکل آئے تو آپ بھی اُس طرح ہی حیران ہو گے جس طرح میں ہوا تھا یا اب تک ہورہا ہو ں کراچی آیف بی آر میں ایک کیس کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوامیرا اندازہ تھا دس لاکھ کا چالان جمع کروانا پڑئے گا اور دو لاکھ کم از کم رشوت دینا پڑئے گی میں جس شخصیت کے پاس جا رہا تھا اُن کو نہ میں جانتا تھا اور نہ ہی اُن کو میں نے دیکھ رکھا تھا مجھ کو جن صاحب سے کام تھا وہ انتہائی ملنساراور خوش اخلاق تھے تمام کیس دیکھنے کے بعد فرمانے لگے ٹھیک آپ پندرہ لاکھ جمع کروا دئے میں نے اُن سے کہا سر کوئی پیار محبت جب آیف بی آر میں آپ کہتے ہیں سر کوئی پیار محبت تو آگے سے چپراسی سے لے کر کمشنر تک آپ کو اپنی ڈیمانڈ بتا دیتے ہیں کہ اتنے پیسے آپ گورنمنٹ کے کھاتے میں جمع کروا دئے اور اتنا میرا نذرانہ اُن صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا آپ کیا چاہتے ہیں میں نے کہا سر اتنے نہیں بنتے آپ کی شفقت چائیے باقی آپ کا جو حکم وہ میں آپ کو دئے دیتا ہو کہنے لگے آپ اس طرح کرئے دس لاکھ جمع کروا دئے میں نے پوچھا اور آپ کے لیے کتنے تو میر ی طرف دیکھ کر کہنے لگے نماز پڑھ کر میرئے لیے دعا کر دیا کرئے او ر وہ شخصیت ہے انویسٹی گیشن آفیسر راشد چندریگر کاش راشد چندریگر جیسے لوگ ہمارئے تما م اداروں میں ہوتے تو آج یہ ملک اپنی منزل پر پہنچ چکا ہوتاچھوتھی شخصیت ہے شیخ فرحان سرور یہ کوئی سیاستدان نہیں ہے جو ووٹ کے لیے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور نہ ہی یہ اس لیے کہ گورنمنٹ کے آفیسر یا وزیروں سے اُن کے تعلقات بنے اور ان تعلقات کا فاہدہ وہ اپنے کاروبار کو دئے سکے شیخ فرحان سرور ایک کاروباری شخصیت ہے لیکن ان کی سو فیصد ایکسپورٹ ہے لوگوں کی خدمت کرتے ہے صرف دلی سکون کے لیے میوہسپتال لاہور میں دو وارڈ اُنھوں نے اپنے خرچے سے تیا ر کیے ہیں جو دیکھنے کے قابل ہیں اور اگر آپ کا اتفاق ہو قصور جانے کا تو فیروز پور روڈ پر اُن کی والدہ کے نام پر ہسپتال ہے بلقیس سرور ہسپتال جس میں لاہور کے اچھے ڈاکٹر تعنیات کر رکھے ہیں مریضوں کا علاج فری، مریضوں اور اُن کے لواحقین کے لیے کھانے کا انتظام، صفائی اور ڈسپلن قابل تعریف اس کے علاوہ بلقیس سرور فاوٗنڈیشن کے تحت یتیم بچوں کی کفالت، غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات، ہسپتالوں میں کھانے کی فراہمی جیسے نیک کام کاش ہمارئے تمام کاروباری حضرات شیخ فرحان سرور کے نقش قدم پر چلیں تو اس ملک کے آدھے مسائل حل ہو جائے -

Raja Waheed
About the Author: Raja Waheed Read More Articles by Raja Waheed: 20 Articles with 14744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.