پونچھ کی بزرگ تاریخی شخصیت نمبردار سردار نقی محمد خان
زندگی میں 86 کے قریب بہاریں دیکھنے کے باوجود آج بھی توانا ہیں ،یونین
کونسل دھمنی سے تعلق رکھنے والے سردار نقی محمدخان کو علاقے بھر میں معتبر
حیثیت اس لیے حاصل ہے کہ انہوں نے زندگی بھر دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا
کیں،پچھلے چھ، سات عشروں سے دن ہو یا رات، بارش ہو یا برف، میدان ہو یا
پہاڑ جب بھی کسی پنچایئت میں ان کو بلایا جاتا ہے تو وہ انکار نہیں کرتے
اور موقع پر فیصلہ کرتے اور اس پر عمل کراتے آئے ہیں۔ 47 ء سے قبل ڈوگرہ
راج میں بھی ان کے والد سردار شاہ محمد خان اور انکے دادا سردار موتا ـخان
کو خاص مقام حاصل تھا، علاقے بھر میں ہزاروں کنال اراضی کی د یکھ بھال اور
مالیہ اکٹھا کیا کرتے تھے، اس کے ساتھ علاقے بھر میں جتنے بھی تنازعات جنم
لیتے ان کے فیصلے یہی بزرگ کیا کرتے تھے۔سردار نقی محمد خان نے میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ 7 دہائیوں میں ہزاروں کی تعداد
میں تنازعات کے فیصلے کیے، یونین کونسل دھمنی اور اس کے ساتھ ملحقہ بیشتر
علاقوں میں زمینوں کی تقسیم ان کے ذریعے ممکن ہوئی، نقی محمدخان کے بقول وہ
47 ء کی جنگ آزادی کے دوران تین سال تک فوج کا حصہ رہے،پونچھ سیکٹر میں وہ
اپنے ساتھیوں سمیت کشمیر داخل ہوئے جہاں انہوں نے زندگی کے مشکل ترین لمحات
گزارے،واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم کشمیر میں داخل ہوئے تو ایک
رات کے وقت جس کوٹھی میں ہم نے پناہ لی تھی وہاں بارود سے دشمن نے حملہ کیا
جس میں ہمارے 5 کے قریب ساتھی موقع پر شہید ہو گئے۔ سردار نقی محمد خان ،آزاد
کشمیر کی جدوجہدآزادی اورڈوگراہ سامراج کے خلاف بغاوت کو یاد کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ 47 ء سے قبل پونچھ بھر میں لوگوں کو منظم کرنے والا اور انہیں
دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار کرنے والے شخص سدھنوتی سے کرنل سردار خان
بہادر خان (داداوزیر حکومت نجیب نقی خان )تھے،کیپٹن حسین خان نے ابتداء میں
کرنل خان محمد خان کا ساتھ تو نہ دیا لیکن بعد میں وہ اس تحریک میں ایسے
سامنے آئے کہ شہادت کا درجہ پایا،نمبردار سردار نقی محمد خان کہتے ہیں کہ
دہمنی و گردونواح میں آباد تمام برادریوں میں کوئی ایک بھی ایسا گھر موجود
نہ تھا جس کے مرد ، ڈوگرہ راج کے خلاف لڑنے کیلئے باہر نہ نکلے ہوں،اور
خواتین نے انکی ہر ممکن مدد نہ کی ہو، نقی خان افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
47ء کے وقت اس علاقے سے زیادہ تر غیر مسلم تو چھپ کر چلے گئے تھے لیکن،،،
سینکڑوں ہندووں اور سکھوں کو لوگوں نے ان کے گھروں میں زندہ جلایاتھا،ایسا
لگتا ہے کہ ان افراد کی چیخیں مجھے آج بھی سنائی دیتی ہیں۔سردار نقی محمد
خان بتاتے ہیں کہ علاقے کی نمبرداری انہیں ورثے میں ملی اور وہ آج تک اپنے
اس ورثے کو سنبھالے ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ علاقے میں سدھن قبیلے کے
علاوہ دیگر جتنے بھی قبائل دھمنی و گردونواح میں آباد ہیں ان کا سب کے ساتھ
دوستانہ تعلق رہا ہے، جب بھی کسی نے ان قبائل سے زمینیں چھیننے کی کوشش کی
تو انہوں نے ایسے اقدامات کو سختی سے روکا، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ
اجداد نے دیگر قبائل کے افراد کو خود یہاں لا کر آباد کیا تھا،اس لیے ان کی
نگرانی اور تنازعات حل کرنا بھی ہماری ذمہ داری تھی، جسے الحمداﷲ ہم نے
بخوبی نبھایا۔ سردار نقی محمد خان کہتے ہیں کہ علاقے کی نمبرداری کرنا ایک
مشکل ترین کام ضرور رہا ہے لیکن وہ کو خدمت خلق سمجھ کر نبھاتے آئے
ہیں۔سردار نقی محمد خان اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے
ہیں کہ میں نے دوشادیاں کی تھی، 9 بیٹے ہیں اور سب کے اب اپنے اپنے گھراور
گھرانے ہیں اور وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں،کھانے کے حوالے سے سردار صاحب
مسکراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ دیسی مرغ کی دعوت کو کسی صورت نہیں ٹھکرا
سکتے،،، اس کے ساتھ دیسی گھی اور گوشت بھی شوق سے کھاتے ہیں، ،،، ذاتی
جائیداد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس 14 سو کنال اراضی تھی جو تقسیم
ہو کر میرے حصے میں 700 کنال آئی، جس کی دیکھ ریکھ اب میری اولاد اور آگے
ان کی اولاد نے کرنی ہے۔ اپنے بھانجے سابق وزیر حکومت عابد حسین عابد کی
سیاست کے بارے میں کہتے ہیں کہ عابد نے اپنے علاقے میں ملازمتوں اور
تعمیرات کے حوالے سے وہ کام کیے جو گزشتہ 70 سالوں میں کوئی دوسراحکمران نہ
کرسکا۔ سردار نقی خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پونچھ سے باہر بہت کم سفر کیا
ہے ۔ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے بہت زیادہ پیدل سفر کیا ہے ،
تب بھی جب 47 ء میں آزادکشمیر حاصل کیا اور 65ء اور 71 ء کی جنگ میں بھی جب
میں اور میرے ساتھی اپنی افواج کو اسلحہ ودیگر سامان مہیا کرنے جاتے تھے،
وہ کہتے ہیں کہ جنگوں کے دوران اسلحہ جاری کرنے اور اس کا حساب کرنے کا
اختیار مجھے سونپا گیا تھا جبکہ ہم نے اپنی افواج کی ہر طرح سے مدد کی۔ ایک
واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چک سے تعلق رکھنے والا اعظم استاد کمال
کا بہادر شخص اور بہترین ڈرائیور تھا، جنگی حالات میں ایک طرف دشمن گولہ
باری کر رہا تھا تو ادھر اعظم استاد مرحوم نے پونچھ کے پورے سیکٹر میں رات
کے اندھیرے میں بغیر گاڑی کی لائیٹیں جلائے حیران کن سفر کیاتھا۔سردار نقی
محمد خان کہتے ہیں کہ انہوں نے عدالتوں میں آج تک جتنے بھی مقدمے کیے زیادہ
تر مقدمات کی خود وکالت کرتے تھے اور جن مقدمات میں بھی انہوں نے وکلاء کا
ہائیر کیا تو کسی نے بھی ان سے فیس وصول نہیں کی۔ گہرے لہجے میں انہوں نے
بتایا کہ میرے پوتے پر قتل کا مقدمہ تھا ، دوسال قبل جب فیصلے کے ذریعے
پوتے کو رہا کیا تو دوسرے فریق کے ورثاء کو ہم نے 40 لاکھ روپے کی ادائیگی
کرنی تھی، اﷲ بھلا کرے ، عزیزوں اور تعلق داروں کا کہچالیس لاکھ روپیہ
لوگوں نے ادا کیا، اور آج تک کسی نے بھی واپس ایک روپیہ نہیں مانگا، وہ
کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ چالیس لاکھ روپے مجھ پر قرض ہے لیکن اس
کے ساتھ میں میں اﷲ پاک کا شکر اداد کرتا ہوں کہ اس نے ہماری عزت رکھ لی،
پوتا بھی باہر آگیا اور رقم کا بندوبست بھی ہوگیا۔سردار نقی محمد خان
موجودہ نسل نو کے بارے میں ارمان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کی نسل کو خوراک،
لباس سمیت مال و دولت اور تمام جدید سہولیات میسر ہیں لیکن ان کو انسانیت
اور بزرگوں کا احترام کرنا نہیں آتا،افسوس کہ ،یہ نوجوان نسل اپنے اپنے حال
میں مگن اور معاشرے کے دیگر تمام معاملات سے لاپرواہ ہو گئی ہے۔ |