سردیوں کی شام تھی عاصمہ آنٹی ھمارے گھر آئی تھی عاصمہ
آنٹی ہماری پڑوسن تھی.ویسے تو وہ ہر لحآظ سے بہتر خاتون تھی مگر اُن کی ایک
عادت اچھی نا تھی ,وہ وہسرے کے ٹو میں لگی رہتی تھی اور اس ہی وجہ سے باقی
ملنے والے انھیں پسند نہیں کرتے تھے مگر میری امی کا کہنا ہے کے ہر طرح کے
انسان سے ہمیں ملتے رہنا چاہیے کیونکہ ہر انسان کے اندر کچھ خوبیاں اور
خامیاں موجود ہوتی ہے جس سے ہمیں اپنی خامیاں اور خوبیوں کا اندازہ ہوتا
ہے.آج گھر کی صفائی کر کے میں بھی اُن کے پاس بیٹھ گئی آج آنٹی کا موضوع "تعلیم"
تھا آنٹی امی سے کہہ رہی تھی شابانہ بہن تم نے کیا اپنی بیٹی کو بی.اے
کروایا ہے آج کا دور تو انجنئیر اور ڈاکٹر کا ہے بڑا اسکوپ ہے اس کا ہر جگہ
باآسانی ملازمت بھی مل جاتی ہے اور کسی قسم کی پریشانی کا بھی سامنہ نہیں
کرنا پڑتا ھماری امی جان نے عالمہ کا قورس کیا ہوا تھا ,اسی وجہ سے وہ اُن
کی بات سےمتفق نہیں ہوئی.امی نے کہا ایسا نہیں ہے علم چاہیے کوئی سا بھی
کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہوتا اور یہ بات کہنا علم کے ساتھ نا انصافی
ہے.کیونکہ ہمارے مذہب اسلام نے علم حاصل کرنے کو کہا ہے,اور اس بات کو مرد
اور عورت دونوں پر فرض قرار دیا ہے.ہاں یہ ضرور کہاں ہے "علم حاصل کرو چاہے
چین تک جانا پڑے " آج ہم جس دور میں رھ رہے ہیں ہمیں علم کی ضرورت چاہے تکہ
ہم معاشرے سے جہالت کا خاتمہ کر سکے ہمارہ دین ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم
دوسرے کا راستہ بنے ,راستہ ہموار کریں عاصمہ آپ یہ کس قسم کی باتیں
کر رہی ہے,ارے نہیں نہیں بہن میرا کہنا کا مطلب وہ نہیں تھا شابانہ بہن تم
غلط سمجھی.
غلط سمجھنے کی کوئی بات نہیں ہے دراصل میں یہ سمجھتی ہو انسان ,ہر بچے کا
اپناایک دھان ورجحان ہوتاہے اُس کی توجہ اُس ہی طرف مربوط رہتی ہےجو وہ
پڑنا چاہ رہا ہوتا ہےاُسے حاصل کرنے دینا چاہیے ایسے میں ہم اُنھیں کسی
ایسے فیلڈ میں ڈال دے جس کا اُنھیں شوق نہیں ہے تو ہم بچے کے ساتھ اور اُس
فیلڈ کے ساتھ ناانصافی کریں گےاور اس ہی وجہ سے میں نے اپنوں بچوں کو اُن
کی مرضی کی تعلیم دلوائی ہے.کیونکہ اُن کی اپنی زندگی ہے اور ہر انسان کو
اپنی زندگی اچھی طرح گذارناکا پورا حق حاصل ہے.
ارے ٹھیک کہا آپ نے اسطرح میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ,آپ کی سوچ بہت
قابل ستائش ہےاور ہم سب کو اس ہی طرح سوچنا چاہیے |