بچوں کی ذہن سازی میں والدین کا کردار

دہلی میں ایک چھوٹا سا نیک اور پرہیز گارگھرانا تھا جو نہایتپُرسکون زندگی بسر کر رہا تھا۔اس گھرانے کا کل اثاثہ میاں بیوی کے علاوہ ایک بچہ تھا۔ میاں دن بھر رزق حلال کمانے کے لئے محنت مزدوری کرتا اور بیوی گھریلو کاموں کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت اور ذکر و اذکارمیں مصروف رہتی۔بچہ ذرا بڑا ہوا تو اُس کو قرآن پاک کی تعلیم دلوانے کے لئے مدرسہ میں داخل کیا گیا۔اَب بچہ صبح والد کے ساتھ مدرسے جاتا اور پھر ظہر کی نماز کے بعد گھر آتا۔ گھر آتے ہی وہ والدہ سے کھانا مانگتا۔ والدہ بچے کے کھانا مانگنے کے جواب میں کہتی۔ ’’بیٹا ! رزق تو اﷲ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ اس لئے تم اﷲ تعالیٰ سے دُعا مانگو ، وہی تمہاری دُعا سنے گا اور وہی کھانا بھی دے گا ‘‘۔بچہ اپنے ننھے ہاتھ اﷲ تعالیٰ کے سامنے پھیلاتا اور بڑے خلوص سے دُعا مانگتا۔ ’’اے میرے اﷲ! مجھے بھوک لگی ہے، مجھے کھانا عطا فرما ‘‘۔جب وہ دُعا مانگ رہا ہوتا تو اُس کی والدہ چپکے سے کھانا لاکر اُس کے پیچھے رکھ دیتی۔ دُعا مانگنے کے بعد بچہ جب پیچھے مڑ کر دیکھتا تو گرم گرم کھانا موجود ہوتا تھا۔ بچہ مزے سے کھانا کھا لیتا۔یوں ایک عرصہ گزر گیا اور دن بدن بچے کا عقیدہ پختہ ہوتا گیاکہ اﷲ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کو رزق دیتا ہے۔اتفاق سے ایک روز بچے کی والدہ کو ایک شادی میں شریک ہونے کے لئے گھر سے باہر جانا پڑا۔جوں جوں ظہر کو وقت قریب آتا گیا وہ بے حد پریشان ہوتی گئی۔ کیوں کہ بچے کے مدرسے سے واپس گھر آنے کا وقت ہو رہاتھا۔وہ اس سوچ میں تھی کہ جب بچہ گھر آئے گا اور وہ حسب معمول اپنی عادت کے مطابق کھانے کے لئے اﷲ سے دُعا کرے گا لیکن اسے کھانا نہیں ملے گا۔یوں نہ صرف بچے کا اﷲ پر سے یقین اُٹھ جائے گا بلکہ اُس کے کئی برس کی محنت بھی رائیگاں چلی جائے گی۔والدہ پریشانی کے عالم میں دُعا کرتی جارہی تھی کہ اﷲ تعالیٰ اس کی برسوں کی محنت کو ضائع ہونے سے بچا لے اور بچے کا یقین بھی قائم رہے۔

جب شادی کی تقریب سے فارغ ہوکر بچے کی والدہ پریشانی کے عالم میں شام کے وقت گھر پہنچیں تو اُس نے ڈرتے ہوئے کھانے کا دریافت کیا۔بچے نے جواب دیا۔ ’’میں نے تو دوپہر کو کھانا کھا لیا تھا ‘‘۔ والدہ نے پوچھا ۔ ’’بیٹا ! کہاں سے ؟ ‘‘۔’’اماں جان ! جہاں سے روز کھاتا ہوں ۔ جب میں گھر آیا تو اﷲ تعالیٰ سے دُعا مانگی اور ہر روز کی طرح اُس نے آج بھی گرم گرم کھانا بھیج دیا ‘‘۔ بچے نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔والدہ نے جب یہ سنا تو خوشی سے اُس کا چہرہ دمک اُٹھااور فوراً اﷲ کے حضور سجدہ بجا لائی اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ آج اُس کے بیٹے نے دُعا مانگنا سیکھ لیا۔ یہ بچہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔

بچوں کی ذہن سازی اور تربیت میں والدین کا کردار ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق والدین کا کردار بچوں کی پیدائش سے قبل ، دوران ِپیدائش اور پیدائش کے بعد کے تمام مراحل میں اثرانداز ہوتا ہے۔ لہٰذا ان تمام مراحل کے دوران والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیئے۔ کیوں کہ آج کا بچہ کل معاشرے اور قوم کا ایک فردبنے گا۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں والدین کے پاس اپنے بچوں کی ذہن سازی اور تربیت کے لئے وقت نہیں ہے ۔حالاں کہ بچپن کا دور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔کیوں کہ اسی دور میں بچے کے اندر سیکھنے کا مادہ وافر مقدر میں یایا جاتا ہے اوراسی میں اُس کی بہترین ذہن سازی کی جاسکتی ہے۔یعنی جو ذہن بچپن میں نیک پروان چڑھے گا تواُس کے اثرات جوانی اور بڑھاپے میں بھی نظر آئیں گے۔پس والدین کا فرض بنتا ہے کہ بچوں کی ذہن سازی اور کردار سازی میں کوئی کسر نہ چھوڑیں تاکہ وہ معاشرے اور قوم کے لئے قیمتی سرمایہ ثابت ہوں۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.