سر سید احمدؒخان نے تعلیم کے میدان میں نام ہی نا کمایا
بلکہ بانی تعلیم سمجھاجاتاہے اُنہوں نے سن 1885میں علی گڑھ کالج کی بنیاد
رکھی ساتھ ہی اسی کالج میں طلباء طالبات کو دینی وعصری مضامین پڑھائے اس سے
پہلے مسلمانوں کے اندر عصری علوم کے حصول کا شعور نہیں تھا اور عصری علوم
کے زیور سے ناآشنا تھے صرف ہندوں عصری علوم کے حصول میں مصروف تھے اور
تعلیم کے میدان میں بہت آگے جاچکے تھے جب سرسید احمد ؒ خان نے علی گڑھ کالج
کی بنیاد ررکھی تواُس وقت سے مسلمانوں میں عصری علوم کے حصول کا رجحان
چلاآرہا ہے سرسید احمدؒخان نے جب مسلمانوں کو پڑھنے کا شوق دلایا تو ان
پرعلماء اکرام کی طرف سے فتوے آئے اوراُنہیں کافروں کا سہولیت کار قر اردیا
گیا لیکن اُنہوں نے حوصلہ نہیں ہارااور سب دوست واحباب کو تسلیاں دیتے رہے
عصری علوم کومسلمانوں کیلئے انتہائی ضروری قرار دے دیاعلی گڑ ھ کالج سے
پہلے مسلمان تعلیم کے اہمیت سے بے باخبر تھے بلکہ تعلیم میسر نہیں تھا اُس
دور میں سرسید احمدؒ خان نے عصری علوم کا جو پیغام مسلمانوں کو دیا کہ دینی
علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو حاصل کرنا مسلمانوں کیلئے ضروری ہے تو اسی
طرح بیسویں صدی کے شروع میں ایم ایم اے کی دور حکومت میں جتنے بھی تعلیمی
ادارے کھولے گئے اُن کی نظیر نہیں ملتی اسی دور میں پورے خیبر پختونخوا میں
بے شمار تعلیمی ادارے کھولے گئے اورحکومت کی طرف سے مفت کتابیں دینے کا
سلسلہ شروع ہو اجس کی وجہ سے وہ سرسید احمدؒخان کا وہ اُدھوراخوب جو کبھی
اپنی حیات میں پورا نہ کرسکا وہ اس دور میں اکرم خان درانی نے پوراکیا یہ
اُسی محنت کی آخری کڑی ہے جو کچھ آج ہم تعلیمی اداروں میں حاصل کر رہے ہیں
یہ اُسی کی مرہون منت ہے ان ہی خدمات کی وجہ سے اُسے،، سر،، کا خطاب ملاجب
2002 میں اکرم خان درانی بنوں سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تو اُس وقت
دینی جماعتوں نے خیبر پختونخوا میں اتحادقائم کیا کئی عرصہ ایم ایم اے
بحالی میں گزر گیا تو تمام دینی جماعتوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق اکرم خان
درانی کے سر پروزیر اعلیٰ خیبر پختونخواکا تاج سجادیا گیا ساتھ ہی چند ماہ
بعد اکرم خان درانی کو شیر خیبر پختونخواکا خطاب ملا اس مشکل دور میں صوبہ
سرحد کی حکومت کو جن خطرات سے دوچار ہونا پڑا وہ وہ بہت زیادہ تھے لیکن
اکرم خان درانی نے عصری تعلیم عام کرنے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی اُس وقت
ایک طرف بعض لوگ عصری علوم کے خلاف تھے تو دوسری اکرم خان درانی نے پورے
خیبر پختونخوا میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا حساس ترین ضلعوں میں شمار
ضلع بنوں آج کے دور میں تعلیم کے لحاظ سے بہت آگے ہیں اسی ضلع میں اکرم خان
درانی نے اپنے دور میڈیکل کالج ،یونیورسٹی آف سائنس اینڈٹیکنالوجی،انجینئر
نگ یونیورسٹی اورچھوٹے چھوٹے تعلیمی ادارے دیہاتی علاقوں میں کھولے ان
اداروں سے ایسے لوگ نکلیں گے جوکہ ملک کے بھاگ ڈورسنبھا لیں گے مختلف
محکموں میں جاکر ملک کی خدمت کریں گے جن میں ماہرین تعلیم ،ماہرین طیب
اوردیگر محکموں کیلئے ماہرین پیدا کرنے کے مواقعے بڑھیں گے اب جبکہ اکرم
خان درانی اب وفاقی وزیر ہیں اُنہوں نے صدر مملکت ممنون حسین کو دعوت دے کر
بنوں جیسے پسماندہ علاقے کا دورہ کرایااس کے ہمراہ گورنر خیبر پختونخوا
اقبال ظفر جھگڑا اور صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن مشتاق احمد غنی بھی شریک
ہوئے اس موقع پر وفاقی وزیر اکرم خان بنوں یونیورسٹی کے زیراہتمام ہونے
والے نووکیشن میں سپاسنامہ کی شکل میں صدر مملکت ممنون حسین سے چھوٹے بڑے
منصوبے کا مطالبہ کیاجب صدرمملکت ممنون حسین نے خطاب کیا تو اُنہوں نے اپنے
خطاب کے دوران وفاقی وزیر اکرم خان درانی کو،،بنوں کاسر سید احمد ؒخان،،
کاخطاب دیا یہ صرف اکرم خان درانی یا جمعیت علماء اسلام کیلئے اعزاز کی بات
نہیں ہوگی بلکہ خیبرپختونخوا کے عوام کیلئے عمواناً اور بنوں کے عوام کیلئے
خصوصاً خوشی کی بات ہے یہی وفاقی وزیر اکرم درانی کی خدمات کااعتراف ملک
میں بسنے والے ہر محب وطن کرتا ہے لیکن بحیثیت ایک قوم ہماری بھی ذمہ داری
بنتی ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں جو کچھ بھی موجود ہوتا ہے ان کو اپنا ذاتی
سمجھے ان میں جو بھی معلمین ہیں وہ پورے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ عصری
علوم کو قوم کے بچوں میں منتقل کرے اور ایک ترقی یافتہ قوم کی طرح ایسی
فضانائے کہ جس طرح ہمارے ملک سے حصول علم کیلئے طلباء باہر ملکوں میں جاتے
ہیں اسی طرح دوسروں ملکوں سے طلباء حصول علم کیلئے آنا شروع کریں ۔ |