خلیفہ چہارم امیر المؤمنین حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد
گرامی ہے شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال ونسب سے
ایک منظر دیکھ کر مجھے مضمون لکھنے پر مجبور کر دیا کہ استاذ کا کتنا بڑا
مقام ہے سچ کہاہے کہنے والوں نے کہ استاذ بادشاہ تو نہیں ہوتا مگر بادشاہ
بناتاہے یہ استاذ کی عظمت کی دلیل ہے
استاذ بادشاہ بنا کر خو د اپنی پرانی کرسی پر بیٹھ کر نئے بادشاہ بنانا
شروع کر دیتاہے ۔بچے کو جب استاذ کے پاس بھیجا جاتاہے تو وہ اپنے دائیں
بائیں کو نہیں جانتا جب استاذ اس کو پڑھا کر روانہ کرتا ہے تو وہی بچہ
قیادت کرنے والا ہوتا ہے ۔
جب استاذ کے پاس آتاہے تو وہ اپنا ناک بھی صاف نہیں کر سکتا جب استاذ اسے
بنا سنوار کر تعلیم و تربیت دے کر آگے بڑھاتا ہے تو وہی طالبعلم طلباء کی
یونین کا لیڈ ر بن جاتاہے پھر وہی بچہ آگے بڑھتا ہے تو کبھی افسر و کبھی
بادشاہ بن جاتا ہے
کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل
کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل
گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی
صرف ادراکِ جنو ں تھا اور قبا ناچاک تھی
شاگرد اگرعظمت والے خاندان کا چشم وچراغ ہو گاتوپھر وہ ہمیشہ اپنے استاذ کو
اچھائی کے ساتھ یاد کرتا رہے گا اور اگر استاذ وصال فرما گیا تو وہ ہمیشہ
اپنے والد کی طرح استاذ کے لیے دعا کرتا رہے گا ۔ جس طرح وہ اپنے والدین کو
کسی حال میں نہیں بھولتا اسی طرح اپنے استاذ کو بھی نہیں بھولے گا،
استاذ کا مقام خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے اس
قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا (بتایا)میں اسے
استادکا درجہ دیتاہو ں۔ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں کہ عالم کا حق یہ ہے
کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے
کھڑے ہو جاؤ۔
امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے
نماز پڑھی ہو اور اپنے استاذ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کیلئے دعا نہ
مانگی ہو
جب بھی کوئی وفادار شاگردادارے سے فارغ ہوتاہے تو جاتے ہوئے ساتھی طلباء کو
یہ صدا لگاکر جاتاہے
افسوس ہے وقت سے مہلت نہ لے پائے ہم
جو استاذوں کا حق تھا ان کو وہ عزت نہ دے پائے ہم
جو ہم سے ہونہیں پایا وہی اب کام تم کرنا
مدرسے کی قدرکرنا،معلم کا ادب کرنا
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے جن سے علم سیکھتے ہو ان سے عاجزی و ادب سے
پیش آؤ ،اﷲ پاک کا فضل وکر م ہے راقم الحروف نے جن اساتذہ کرام سے علم حاصل
کیاہے ان کاا دب واحترام زندگی کااصول بنایا ہے اوراپنے شیخ امام اہلسنت
حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدر ؒ و مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید
سواتی ؒ کی خدمت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج راقم کو یہ مقام حاصل ہے
وہ منظر جس کی وجہ سے آج قلم و قرطاس کو اٹھا یا گیا وہ بڑا عجیب ہے
ایک نوجوان العمر استاذ پرائمری سکول سے تبدیل ہوکر جارہاہے اور وہاں کے
طلباء اس طرح بلک بلک کر رو رہے ہیں کہ سخت دل انسان بھی وہ منظر دیکھ کر
رو جاتا ہے کہ معصوم طلباء اپنے استاذ سے کیسی محبت کرتے ہیں ،اپنے استاذ
سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ کر نہیں جانا
، معصوم بچوں کا اپنے استاذ کے ساتھ ایسا پیارو انس جیسے والدین میں سے
کوئی جدا ہوتاہے ۔
قارئین کرام ! اس منظر کو دیکھ کر آپ حیران جو جائیں گے کہ اساتذہ کے ساتھ
طلباء کتنی محبت رکھتے ہیں اور ان کے جانے سے کیسے آنسو بہاتے ہیں یہ مقام
قابل غور ہے۔
ایک دانشور کا قول ہے کہ والدین آسمان سے اتار کر زمین پہ لانے کا سبب ہیں
اور استاذ نے پڑھا لکھا کر پھر بلندی پہ لے جاکر آسمان پہ بٹھا دیا ہے
،حقیقت میں والدین واساتذہ ایسی ہستیاں ہیں کہ اساتذہ ووالدین چاہتے ہیں کہ
ہمارا بچہ ہم سے بہت آگے بڑھے اور اپنامقام بنائے اور وہاں جائے جہاں کوئی
نہ جاسکے اسی بات سے انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے باقی رشتوں میں کوئی ایسا
رشتہ نہیں جنہیں ایسی خوشی حاصل ہوتی ہو۔ہر شخص اس دور میں دوسرے کو گرانے
کی کوشش کرتا ہے مگر استاذ والدین کا بچے کے ساتھ ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ
اسے اٹھا نا چاہتے ہیں ۔
استاذ بچوں کوکیسے پڑھاتے ہیں اور ان کی تربیت کیسے کرتے ہیں یہ وہ استاذ
بتا سکتا ہے جو اپنے بچوں کے لیے خیر خواہی وبھلائی چاہتاہے ۔تعلیم ایک
ایسا انقلاب ہے کہ وہ غلاموں کو آقا وبادشاہ بنا دیتی ہے اور تعلیم ہی کی
وجہ سے بچے باطنی صلاحیتیں نکھر کر ظاہر ہوجا تی ہیں ۔
استاذکی عظمت میں ،عظمت ہے زمانے کی
تعظیم ملے اس کو ،آداب سکھانے کی
دنیا میں جو رہنا ہے تعلیم تو لینی ہے
ہر علم ضروری ہے یہ بات خدا نے کی
کائنات کے سب سے بڑے استاذ محترم کے دومایہ ناز شاگردوں کا ایک حال
اگر غور کیاجائے تو کائنات میں سب سے بڑے استاذ نبی پاک ﷺ ہیں اور سب سے
وفادار و اچھے شاگرد نبی پاک ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین ہیں ان
میں سے دو شاگردوں کاایک واقعہ نقل کیا جارہاہے اور اس واقعہ کو علامہ عینی
ؒ نے نقل کیاہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھمانے حضرت زید
بن ثابت رضی اﷲ عنہ کے رکاب کو تھا م لیا تو انہوں نے کہا اے نبی !(ﷺ) کے
چچا زاد بھائی : ایسا مت کرو (لاتفعل یا ابن عم رسول اﷲ ﷺ )تو اس پر ابن
عباس رضی اﷲ عنھمانے فرمایا ( ھکذا امرنا ان نفعل بعلمائنا )ہمیں اسی طرح
حکم دیاگیا ہے کہ ہم اپنے علما ء کے ساتھ اسی طرح سلوک کریں اور ان
کااحترام کریں تو حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ
عنھما کے ہاتھ کو چوم لیاتو ابن عبا س رضی اﷲ عنھما نے فرمایا (لاتفعل
)ایسا مت کرو،تواس پر حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا ( ھکذاامرنا ان نفعل
بآل رسول اﷲ ﷺ ) ہمیں اسی طرح حکم دیا گیاہے کہ ہم خاندان رسول ﷺ سے اچھا
سلوک کریں (عطاء الباری جلد اول صفحہ 419ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان )
اﷲ پاک کا کروڑ مرتبہ شکر کہ جب سے تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کیا ہے اپنے
شاگردوں کو اپنے بچوں کی طرح پڑھایا ہے یہی سوچ کر کہ ہمارے اپنے بچے کسی
اور استاذ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہمارے یہی بچے ہیں جن کو ہم نے تعلیم
دینی ہے اﷲ پاک نے اس سلسلہ میں ہمیشہ سرخرو رکھا ہے آئندہ بھی اﷲ پاک ہمیں
اچھے بھلے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ) |