ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گاؤں میں حواکی ایک اوربیٹی
شرمناک سلوک کانشانہ بنی اس انسانیت کوشرمسارکرنے والے واقعے کی جتنی بھی
مذمت کی جائے، اس کیلئے جتنے بھی افسوس کے کلمات اداکئے جائیں، ملک
کاہرباشندہ اس پرلعن طعن کرے، مجرموں کیلئے زمین تنگ کرنے کے جتنے دعوے
سامنے آئیں وہ کم ہے نجانے ہمارے معاشرے سے قانون کے احترام کے ساتھ ساتھ
انسانیت بھی کیونکراٹھتی جارہی ہے ہم دنیاکی تاریخ کے جدیدترین دورمیں رہ
رہے ہیں ،ہمیں تاریخ کے متمدن ترین انسان ہونے کاشرف بھی حاصل ہے ،ہمیں
دیگراقوام کی نسبت دین سے آگاہی بھی زیادہ حاصل ہے ، ہم میں علماء ، فقہاء
،اولیاء اﷲ ، قانون کے رکھوالے ، وکلاء ، اعلیٰ پائے کے اساتذہ، اپنے
فیصلوں کیلئے شہرت یافتہ جج اورانقلابی سیاستدان موجودہیں مگرانکی موجودگی
کے باوجودناہی معاشرہ درست سمت میں گامزن ہورہا ہے اورناہی ملک وریاست کی
کوئی کل سیدھی ہورہی ہے آوے کاآوے بگڑاہواہے جس کاجہاں بس چلتاہے قانون
کوروندھتاہے انسانیت کوشرمسارکرتاہے اوراس ملک کاکوئی بھی باشندہ کسی بھی
غلیظ ترین حرکت سے نہیں چوکتااس معاشرے کواخلاقیات سکھانے کیلئے قانون کی
عملداری ضروری ہے جبکہ ہمارے ہاں قانون کوپاؤں کی جوتی بناکررکھ دیاگیاہے
کوئی کونسلراس لئے الیکشن نہیں لڑتاکہ وہ معاشرے کے اخلاق کوسنوارے
گایاعوام کی خدمت کریگابلکہ اسکے پیش نظریہ ہوتاہے کہ اسے بیشک دس بیس لاکھ
روپے خرچ کرنے پڑیں کسی سے ادھارلیناپڑے ، زمین گروی رکھنی پڑے’’ انڈرپلے‘‘
کے شیطانی چکرمیں پھنسناپڑے مگراسے کونسلربن کرممتازحیثیت کاتاج پہنناہے اس
نے اپنے منشیات فروشی کے کاروبارکیلئے اپنی حیثیت کااستعمال کرناہے ،جوے کے
اڈے پولیس سے دوررکھنے ہیں اوراپنی حرام کی کمائی کوبچاناہے کوئی آدمی کسی
سکول میں چپڑاسی اسلئے نہیں بھرتی ہوتاکہ وہ وہاں سرکاری فرائض کی بجاآوری
کرے قوم کے بچوں اوراساتذہ کی خدمت کرے بلکہ اسکے پیش نظردوچارگھنٹے کی
ڈیوٹی کے بدلے پوری تنخواہ وصول کرناہوتاہے ڈیوٹی جوائن نہ کرنے کے
باوجودحاضری لگانی ہوتی ہے کچھ اسی قسم کی صورتحال ہرشعبے میں ہے کوئی
سیاستدان ایمانداری ، دیانتداری ،تبدیلی اورخدمت کے نام پہ اقتدارحاصل
کرتاہے اوراپنے خزانے بھرنے کے سواکچھ نہیں کرتاکسی سرکاری افسرکے پیش
نظروزیرکوخوش کرنے اوراقرباپروری کے سواکوئی کام نہیں ہوتاکسی پولیس افسرکی
نظرمیں بڑے لوگوں کی خدمت اورعام لوگوں کی تذلیل ہی اصل ایمانداری اورحب
الوطنی ہوتی ہے کچھ اسی قسم کی صورتحال کاسامنا ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں
گرمٹ میں شریفاں بی بی کوبھی کرناپڑا اسکے بھائی نے کوئی جرم کیا ،کوئی
گناہ کیا جسکی پاداش میں اسے برہنہ کرکے گاؤں کی گلی کوچوں میں گھمایاگیایہ
مردانگی جن مردوں نے دکھائی انہیں تو خداہی پوچھے مگرجوزندہ لاشیں اس تماشے
سے محظوظ ہوتی رہیں ان لوگوں پر الگ سے ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے اس معاشرے
کے اخلاقیات کاجنازہ توپہلے ہی اٹھ چکاہے اب ایمانیات بھی تباہی کے دہانے
پرپہنچ چکی ہیں ان سینکڑوں بے ایمان لوگوں میں ایساکوئی مردنہیں تھاجواس بے
لباس عورت کولباس فراہم کرتاحکومت اورقانون توہے ہی طاقتوروں کی حفاظت
کیلئے عام لوگ بھی اب بے حسی کی تمام حدودپارکرچکے ہیں پھرمثالی پولیس
کالازوال کرداربھی ملاحظہ ہو مثالی پولیس نے لڑکی اوراسکی والدہ کے خلاف
ایف آئی آردرج کرائی بعدازاں اس ایف آئی آرکوغائب کرکے جورپورٹ درج کرائی
گئی اس میں اصل ملزم کانام درج ہی نہیں ہونے دیاگیامیں حیران ہوں کہ اس
اعلیٰ کارکردگی کے بعدبھی ہمارے حکمران’’ مثالی پولیس‘‘ کی راگ الاپ رہے
ہیں گرمٹ میں پولیس کاجوکردارساری دنیاکے سامنے آیااس سے تو نہیں لگتاکہ
خیبرپختونخواکی پولیس میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی رونماہوچکی ہے یہی کچھ
پنجاب ، سندھ اوربلوچستان کی پولیس بھی کررہی ہے اوروہی سب مثالی کہلانے
والی پولیس بھی کررہی ہے پھر یہ پولیس مثالی کس ناطے سے کہلائی جارہی ہے ؟اعلیٰ
عدلیہ کی جانب سے بھی کوئی ردعمل نہیں اعلیٰ عدلیہ اگرنوٹس لیتی تو
ہوسکتاہے ایک معصوم عورت کوانصاف نابھی ملتااسکی اشک شوئی توہوجاتی اسے کسی
ملک کی شہری ہونے کااحساس ملتا مگراعلیٰ عدلیہ آجکل سیاسی کیسوں اورسیاست
میں ایسی پھنس چکی ہے کہ اسکے پاس کسی مظلوم کیلئے وقت ہی نہیں ، کسی کی
عزت سربازارنیلام ہو اورہم عدلیہ کی آزادی کے گیت گائے یہ آج کے آزادعدلیہ
والے،پڑھے لکھے ،تبدیلی کے علمبردار،اسلام کاقلعہ ،دنیامیں سب سے زیادہ
دیندارلوگ رکھنے والے اورانسانی حقوق کے چیمئین پاکستان میں ہی ممکن ہے
ورنہ تواس قسم کی کوئی مثال شائد پتھرکے زمانے میں بھی دستیاب نہیں
سیاستدانوں کوایک مشغلہ ہاتھ آیاہرسیاسی جماعت دامے درمے سخنے اس واقعے
پراپنی سیاست چمکارہی ہے کوئی ڈیرہ اسماعیل خان کے دوردرازگاؤں گرمٹ میں
جلوہ افروزہورہاہے توکوئی ٹی وی پراس واقعے کے حوالے سے انسانی حقوق
کاعلمبرداربناہواہے کوئی میڈیاکے سامنے مظلوم خاتون کی شادی کی ذمے داری
اٹھارہاہے توکوئی اس حوالے سے ایک دوسرے پرکیچڑاچھال رہاہے کوئی متاثرہ
خاندان کیساتھ فوٹوسیشن میں مصروف ہے توکوئی انکے غم میں پگھلاجارہاہے ان
سب مصنوعی اوربے جان حرکات سے ناہی تو مظلوم خاتون کی کوئی خدمت ہورہی ہے
اورناہی اسکے غمزدہ خاندان کی اشک شوئی ممکن ہے ان تمام خواتین وحضرات میں
سے کسی سیاستدان ،وزیر،مشیر،ایم این اے ، ایم پی اے یااعلیٰ افسرکویہ توفیق
نہ ہوسکی کہ وہ اپنی’’نیک کمائی‘‘ میں سے کچھ حصہ اس خاتون کے حوالے
کرتاہرآدمی گرمٹ جانے کیلئے ادھارکھائے بیٹھاہے مگرکسی کوپانچ روپے مددکی
توفیق نہیں ہوناتویہ چاہئے تھاکہ وہاں جانے والاہرسیاستدان متاثرہ خاندان
کے ساتھ دوچارلاکھ روپے کی نقدامدادکرتاملک کے تمام اراکین پارلیمنٹ اپنی
ایک ایک ماہ کی تنخواہ دینے کااعلان کرتے جس سے متاثرہ خاتون کی حوصلہ
افزائی ہوتی اوراسے زندگی کی جانب لوٹنے کیلئے سہارادستیاب ہوتا خالی خولی
پریس کانفرنسوں اورچہرہ نمائیوں سے کسی مظلوم کوکیاحاصل ؟ ان روایتی دوروں
اورفوٹوسیشنزسے اگرچہ لوگ خودکوہیروسمجھنے لگتے ہیں مگرعوام میں انکی کوئی
ویلیونہیں عام آدمی خودکوغیرمحفوظ سمجھتاہے ملک میں عدم تحفظ کااحساس بڑھ
رہاہے طاقتوروں کوقانون کاخوف نہیں کمزوروں کوقانون سے مددنہیں ہمارے
حکمرانوں اورسیاستدانوں کویہ واقعہ ٹیسٹ کیس کے طورپرلیناہوگااعلیٰ عدلیہ
واقعے کاازخودنوٹس لیکرپولیس کوبھی سخت احکامات جاری کرے اورروزانہ کی
بنیادپرکیس چلاکرمجرموں کوکڑی اورعبرتناک سزادے ایسی سزاجورہتی دنیاکیلئے
مثال ہواورآئندہ کیلئے پاکستان میں کسی کواس قسم کی غلیظ حرکت کے سوچ کی
بھی ہمت نہ ہو ڈیرہ اسماعیل خان کااندوہناک اورشرمناک واقعہ ہم سب کی مردہ
ضمیروں کیلئے کسی تازیانے سے کم نہیں شریفاں بی بی کی بربادعزت ریاست کے
ذمے قرض ہے اوریہ قرض ورلڈبینک کاقرض نہیں جس کیلئے مزیدٹیکس لگائے جائیں
بلکہ یہ قرض اس وقت اترے گاجب ریاست اورعدالت مجرموں کوکڑی سزادیکرعبرت
کانشان بنائے گی۔ |