بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا انوکھا اظہار

بیٹی اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے، زمانہ جہالت سے لیکر اب تک ایک مخصوص بلکہ دین سے ناواقف طبقہ کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس تصور کرتے ہیں۔ اور بیٹی کے پیدائش پر شرم کے مارے اکثر گھر سے نکلنا بھی پسند نہیں کرتے۔ پختون معاشرے میں بھی یہ بیماری بدرجہ اتم موجود ہے۔ حالانکہ بیٹا اور بیٹی دونوں اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے، اس میں خاتون خانہ ماں یا باپ کو کوء دخل نہیں۔ لیکن پھر بھی بیٹی کے پیدائش پر اکثر اوقات شادہ شدہ لڑکیوں کو ساس کے جانب سے نحوست کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔

حقیقت یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے (ترجمہ) آسمانوں اور زمین کی سلطنت وبادشاہت صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دنوں عطا کردیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرمادیتا ہے۔ (سورہ الشوریٰ ۹۴، ۰۵) لڑکیاں اور لڑکے دونوں اﷲ کی نعمت ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی ضرورت ہے۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں، اور مرد عورتوں کے محتاج ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس میں دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

اﷲ کی اِس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض احباب ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بڑی آرزوئیں اور تمنائیں کی جاتی ہیں، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات بچی کی پیدائش پر شوہر اپنی بیوی پر، اسی طرح گھر کے دیگر افراد عورت پر ناراض ہوتے ہیں، حالانکہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اﷲ کی عطا ہے۔ کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمان? جاہلیت کے کافروں کا عمل تھا، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ (ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ خوب سن لو کہ وہ (کفار مکہ) بہت برا فیصلہ کرتے ہیں)۔ (سور? النحل ۸۵۔۹۵)

لہذا ہمیں بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی یقیناًخوشی ومسرت کا اظہار کرنا چاہئے۔

بیٹی پر پیدائش کی خوشی کا اظہار کرنا اور اس خوشی کے منانے کی ترغیب ہم ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن کہیں بھی ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت نہیں کیا کہ کسی نے بیٹی کے پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا، خوشی کو لوگوں پر ظاہر کیا ہو تاکہ دین سے ناواقف لوگ اس سے سبق لیکر اپنے عمل میں تبدیلی لے آئیں۔ لیکن اس معاشرے میں اب ایسے افراد بستے ہیں جو اﷲ کے حکم اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلنے میں اپنی کامیابی تلاش کرتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ گذشتہ کل ہوا۔

ہمارے محلے کے مدرسے کے منتظم جو کہ میرے استاد بھی ہیں۔ حافظ محمد ظاہر نہایت سمجھدار انسان نہیں۔ گذشتہ ہفتے ان کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئی، کل انہوں نے اپنی بچی کے عقیقہ کرنے کے لیے کچھ خاص انتخاب کیا تھا، انہوں نے بیٹی کے پیدائش پر ایک صحت مند قیمتی بچھڑا ذبح کیا، اور گاؤں کے تمام افراد کے علاوہ گاؤں کے تمام خواتین کو کھانے پر مدعو کیا، اس تقریب میں ہمیں خاص طور سے مدعو کیا گیا تھا اس موقع پر علاقے کے علمائے کرام، معززین اور دیگر دوست احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور استاد محترم کو مبارکباد بھی دی، استاد محترم کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں عوام و خواص کو جمع کیا گیا یہ بتانے کے لیے کہ بیٹی اﷲ کی رحمت ہے بیٹی کے پیدائش پر ناراض نہیں ہونا چاہیئے بلکہ جس طرح بیٹے کے پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے بیٹے کی پیدائش کی خوشی منائی جاتی ہے دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے، یہی سلوک اور طریقہ بیٹی کے پیدائش پر بھی اختیار کرنا چاہیئے۔

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں، بیٹے کی پرورش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)

احباب آپ بھی بیٹی کو اﷲ کی رحمت تصور کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں اس طریقہ کار پر عمل کیجئے، اس سے بچیوں میں احساس محرورمی کا دور بھی ختم ہوجائے گا، بچیاں اپنا مستقبل محفوظ تصور کرسکیں گے۔ اور احکامات خداوندی پر بھی عمل ممکن ہوجائے گا۔
 

Muhammad Bilal Yasir
About the Author: Muhammad Bilal Yasir Read More Articles by Muhammad Bilal Yasir: 12 Articles with 19130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.