ویسے تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے صرف اپنے ادارے کے
لئے خط جاری کروایا ہے، جس میں جوڈیشل افسروں کی جانب سے عدالتی ملازمین سے
گھریلو کام لینے کے سخت نوٹس لیا گیا ہے۔ صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن
ججوں کے نام مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ’’․ ․ ․ ․ عدالتِ عالیہ کے علم میں
آیا ہے کہ عدالتی ملازمین بیلف، تعمیل کنندگان ، نائب قاصدین اور چوکیداروں
سے گھریلو کام کروائے جارہے ہیں ․․․ عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کیا
جارہا۔آئندہ مذکورہ عدالتی ملازمین سے ایسی خدمات لئے جانے پر متعلقہ
جوڈیشل افسروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی․․․‘‘۔
کون سا محکمہ یا ادارہ ہے جس کے چھوٹے ملازمین افسروں کے گھروں میں خدمات
سرانجام نہیں دے رہے؟ بڑے افسروں کو تو یہ سہولت قانونی (اور آئینی ) طور
پر بھی حاصل ہے، کہ انہیں گاڑیاں، ڈرائیور، پٹرول، گھر، ملازمین، فون ، آنے
جانے یعنی ٹی اے ڈی وغیرہ کی سہولتیں حاصل ہیں، یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ کوئی
ہی افسر ہو گا جو سرکاری طور پر دی گئی سہولتوں پر قانع ہوگا، سہولتوں کے
ساتھ کچھ کا خود ساختہ اضافہ بھی کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح درجہ بدرجہ
افسران ہیں، جن کی سہولتیں کم ہوتی جاتی ہیں، مگر اختیارات کے لحاظ سے بہت
سے ایسے محکمے ہوتے ہیں جن کے افسران بہت طاقتور ہوتے ہیں، وہ کم گریڈ ہونے
کے باوجود بھی تمام سہولتیں ڈٹ کر حاصل کرتے ہیں۔ ان کے افسرانہ ٹھاٹ باٹ
اصل افسروں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہوتے۔ افسر بڑا ہو یا چھوٹا، اختیارات
کے ناجائز استعمال اور ان کی دستیاب سہولیات کے بارے میں ایکشن کوئی نہیں
لیتا۔ کہنے کو تو ہر محکمے میں خود احتسابی کا نظام موجو د ہوتا ہے، مگر
ایسے قوانین یا اصولوں پر عمل کم ہی ہوا کرتا ہے۔ جب ہر کسی نے خود عیاشی
کرنی ہے تو وہ اپنے ماتحتوں کو ایسے کاموں سے کس منہ سے روک سکتے ہیں؟
عدالتِ عالیہ کی طرف سے اپنے ماتحت افسروں کے لئے جاری کئے گئے حکم میں بھی
یہی بات دیکھنے میں آئی ہے ، جس کا ذکر خود مراسلے میں ہی موجود ہے کہ’’
2اپریل 2001ء کے جاری حکم پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہورہا․․‘‘۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ احتساب کا کام یہاں بھی ٹھنڈا ہی پایا گیا، جب عملی طور پر
کوئی شکایت سامنے آئی، یا کسی نے اس اہم ایشو کو اٹھایا تو خیال آیا۔ چلیں
دیر آید درست آید، خیال تو آیا، اور حکم کو جھاڑ پونچھ کر نئے سرے سے تیار
کیا گیا اور جاری کر دیا گیا، کچھ عرصہ اس پر عمل بھی ہو جائے گا، اور حسبِ
روایت کچھ ہی عرصہ میں یہ معاملہ پھر ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اگرچہ تمام محکموں
اور اداروں کا کام ہے کہ وہ اپنے اندر احتساب کا بندوبست کریں، مگر عدلیہ
پر تو سب کی نگاہیں ہوتی ہیں، کیونکہ یہ ادارہ اہمیت کے لحاظ سے سب سے
بالاتر دکھائی دیتا ہے، جن لوگوں نے پورے ملک کے عوام کو انصاف دینا ہے،
جنہوں نے ہر کسی کے حقوق اور فرائض کا خیال رکھنا ہے، اُن کو فطری طور پر
سب کے لئے مثال بننا پڑتا ہے، اگر مُنصف بھی انصاف نہ کر سکیں، یا قانون
شکنی کے مرتکب پائے جائیں، یا اصولوں پر نہ چل سکیں تو یقینا انصاف کا بول
بالا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے عدالتِ عالیہ کا یہ تازہ حکم نامہ کرپشن اور بے
اصولی کے گھٹن زدہ موسم میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
عدالتِ عالیہ کا یہ حکم قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی، (عمل کی
شرط بہرحال ضروری ہے)۔ مگر بات صرف عدلیہ کے حکم سے ہی نہیں چلے گی، یہاں
تو ہرسرکاری افسربادشاہ ہے، محکمہ کے چھوٹے گریڈوں کے ملازمین ان کے گھروں
کے ذاتی ملازم کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہر محکمہ اور ادارہ کا
فرض ہے کہ وہ خود ایکشن لے کر اس مکروہ دھندے کو ختم کریں، اگر ایسا نہیں
ہوتا تو پھر عدالتِ عالیہ ایسا ہی حکم جاری کردے، جو اُس نے اپنے محکمہ کے
افسران کے لئے جاری کیا ہے، تاکہ قوم کے خون پسینے سے ادا کئے گئے ٹیکسوں
سے تنخواہ لینے والے لوگ عوام ہی کی خدمت کر سکیں۔ حکومت اورمحکموں کے لئے
ایسے احکامات جاری کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی، مگر مجبوری یہ ہے کہ عیاشی
منہ کو لگ جائے تو اس کا چھوٹنا آسان نہیں رہتا، اس کے لئے بھی عزم اور ہمت
درکار ہے، یا پھر ’’ردّ الفساد‘‘ کی طرز کا کوئی آپریشن۔ |