ایک بڑے کاروباری آدمی سیٹھ راحیل اکرم نے قیمتی اشیاء سے
خوب صورت اندازمیں سجے سجائے اپنے دفتر جاتے ہوئے پھلوں کی ایک دکان پر سجے
اعلیٰ قسم کے انگوردیکھے تو دل چاہا کہ لے لئے جائیں تاکہ دوپہر کو کھانے
کے بعد کھائے جائیں۔اس نے اپنے ایک ملازم کو تین کلو انگورخرید کر دئیے کہ
جاکرگھر دے دو۔ملازم نے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے گھرجاکر انگورگھروالوں
کو دے دئیے ۔سیٹھ راحیل دوپہرتک بہت مصروف رہا ،دفتر میں میٹنگ فیلڈ میں
کام،دفتر کے معمول کے کام،ملازموں کوہدایات،کبھی گودام کا دورہ کر رہا ہے
تو کسی وقت کسی پارٹی سے مذاکرات کر رہا ہے ،دوپہر کے کھانے کے لئے گھر
لوٹا اور نہادھوکر تازہ دم ہوکر کھاناکھانے بیٹھ گیا،دسترخوان پر سبھی کچھ
توتھا مگر انگورغائب تھے ، بیوی سے انگوروں کے متعلق پوچھا ،بیوی بولی اوہو
۔۔۔۔۔۔۔وہ تو بچوں نے کھا لئے ،کچھ ہم نے چکھ لئے، اس طرح وہ ختم ہوگئے ۔واقعہ
تومعمولی ساتھا گھروں میں اکثر ہوجاتاہے،مگر کبھی کبھی کوئی معمولی جھٹکے
انسان کوبہت اونچاکردیتے ہیں ۔اوراس کے دل کے تالے کھول دیتے ہیں ۔اب اس کے
دل میں ایک خیال اٹھا اوروہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے دسترخوان سے اٹھ پڑا،کھانا
ادھورا چھوڑ کر جانے پر سب لو گ حیران بھی ہوئے ،قبل اس کے کہ وہ اس سے
پوچھتے ۔وہ اپنے کمرے میں جا چکا تھا ،اس نے وہاں جا کر تجوری کھولی اوربڑے
نوٹوں کی بہت سی گڈیاں ایک تھیلے میں رکھیں اورگاڑی نکال کر باہر چلے
گئے۔کچھ دیرمختلف سڑکوں سے گزرتے رہے ،اسی دوران انہوں نے اپنے منیجر کو
فون کر کے شہر کے کسی اچھے مقام پر ایک پلاٹ خریدنے کی ہدایت کی ،پھر وہ
ایک دفتر کے سامنے رکے اوربورڈ دیکھ کر اندرچلے گئے ،معلوم کرنے پر
بتایاگیا کہ ہمارے ادارے کے سربراہ اندراپنے کمرے میں ہیں ،ان کو اطلاع کی
گئی ،راحیل اکرم نے اندرجاکرتنویر الحسن سے ملاقات کی ۔وہ بہت ملنسارآدمی
تھے بڑے تپاک سے ملے ،اوررسمی علیک سلیک کے بعد آمد کا مقصدپوچھا ،راحیل نے
بتایا کہ میں آپ کے رفاہی وفلاحی ادارہ کے لئے کچھ تعاون کرنا چاہتاہوں ،آپ
کے کون کون سے پراجیکٹ چل رہے ہیں ،تنویرالحسن نے بتایا کہ ہم سماجی خدمات
کے سات شعبوں میں کام کررہے ہیں ۔تعلیم،صحت ،صاف پانی ،آفات سے بچاؤ،جیلوں
میں قیدیوں کی فلاح وبہبود،یتیم بچوں کی کفالت،روزگار کی فراہمی اور سماجی
شعبے میں کام شامل ہے ،راحیل اکرم نے مزید تفصیل پوچھی تو تنویرالحسن نے
ایک ایک شعبے کے مختلف منصوبوں کی تفصیل سے آگاہ کردیا ،اب راحیل اکرام نے
ان سے کہا کہ میں چاہتاہوں کہ آج شام تک ایک پلاٹ خریدکر اس پر کام شروع
کرادوں ۔اسی دوران ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی ،ا ن کے منیجر کانام فون
کی سکرین پر جگمگارہاتھا ،انہوں نے بات کی ،معلوم ہوا کہ شہرکے ایک معروف
علاقے میں بہت اچھاپلاٹ موجودہے ،انہوں نے منیجرسے تفصیلات پوچھ کر قیمت طے
کرکے پلاٹ فورا خریدنے کا کہ دیا ۔پھر ووبارہ تنویر الحسن سے مخاطب ہوئے کہ
میں اس پلاٹ پر یتیم طلبہ کے لئے ایک رہائش گا ہ،سکول اور ایک معیاری
ڈسپنسری بنانا چاہتا ہوں ۔میری خواہش ہے کہ اس پلاٹ پر آج شام تک تعمیراتی
کام شروع ہوجائے ۔تنویرالحسن کے ساتھ انہوں نے کچھ معاملات طے کر لئے،اپنے
منیجر سے پلاٹ بارے معلوم کیا تواس نے بتایاکہ پلاٹ سے متعلقہ تمام معاملات
طے ہو گئے ہیں اورکاغذات تیا رہورہے ہیں جوایک گھنٹے تک مل جائیں گے۔راحیل
اکرم نے اب اپنے جاننے والے ایک ٹھیکیدارسے بات کی ،اس سے معاملات طے کیئے
،پھر ایک نقشہ نویس سے پلاٹ کا سائز بتاکر نقشہ بنانے کی ہدایات دیں،اس نے
تین گھنٹے کا وقت مانگا۔تب راحیل نے ایک معروف انجنیئرنگ کمپنی میں فون
کرکے ایک ماہر انجنئیر سے رابطہ کیا اورپلاٹ پر تعمیربارے معاملات طے کرلئے
۔اورخود قریب ہی ایک مسجدمیں جاکر نمازظہر اداکرنے لگا۔نماز اداکرکے اس نے
خاصاسکون اوردلی راحت وفرحت محسوس کی اور سوچاکہ میں تو یونہی رب کریم سے
دورتھا ۔اورمحض دولت کے انبارجمع کرنے میں لگارہا ،دلی اطمینان تو اﷲ کے
ذکر (نماز) میں ہے۔نمازسے فارغ ہواتو منیجر نے بتایاکہ پلاٹ کے کاغذات
تیارہیں ،راحیل دفتر چلے گئے ۔کاغذات دیکھے ۔دفترکے کام نمٹائے ۔عصرکی نماز
اداکی تو نقشہ نویس نے اطلاع دی کہ آپ کا نقشہ تیا رہے ۔خودہی گاڑ ی چلاکر
نقشہ نویس سے نقشہ لے کردیکھا تو بہت پسند آیا ،پھرانہوں نے انجنیر سے بات
کی وہ بھی فارغ ہوچکے تھے ۔انہوں نے انجنیئر کو پلاٹ کی جگہ پہنچنے کا کہا
،اور ٹھیکیدار کو بھی وہاں بلالیا،منئجر کو نقشہ دے کر ٹھیکیدار کے پاس
بھیج دیا اور خود دفتر سے نکل کر فلاحی انجمن کے دفتر جاکر تنویرالحسن کو
ساتھ لے پلاٹ پر پہنچ گئے،وہاں ٹھیکدار انجنیئر کی ہدایات کے مطابق
کھدائیاں کرا چکا تھا،راحیل اکرم نے تنویرالحسن سے دعاکرانے کوکہا اور پھر
انہی کے دست مبارک سے اس شاندار عمارت کا سنگ بنیادرکھنے کو کہا ۔ جس پر
تنویرالحسن نے کہا کہ دونوں مل کر اس نیک کام کی بنیادرکھتے ہیں ۔تب دونوں
نے مل کر ایک ایک اینٹ لگائی اور تعمیرکا کام شروع ہوگیا،انجنیئر نے سب کو
بتایا کہ یہ خوبصورت اور شاندار عمارت ٹھیک ایک ماہ بعد تیارہوجائے
گی۔چندمنٹ بعد ہی مغرب کی اذان ہورہی تھی۔جس پر راحیل اکرم نے رب کریم کا
شکر اداکیا کہ میرے عزم کے مطابق کام اپنے وقت تک شروع ہوگیا ہے ،پھر سب نے
قریب کی مسجد میں نمازمغرب اداکی، راحیل اکرم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔گھر
پہنچے تو گھروالوں نے حیرانگی سے پوچھا کہ کہا ں چلے گئے تھے کھانا
ادھوراچھوڑکر ۔۔۔؟ راحیل اکرم نے جواب دیا کہ اپنے اصلی گھر ،اصلی رہائش
گاہ اوراس میں کھانے پینے کے سامان کا انتظام کرنے گیا تھا،اﷲ کا شکر ہے سب
انتظام بخیروخوبی ہوگیا،اب سکون سے مرسکتا ہوں ،آپ لوگوں نے تومیری زندگی
میں ہی انگورکے چنددانے میرے لئے رکھنا گوارہ نہ کئے،اورمیں اپنا سب کچھ آپ
لوگوں کے لئے چھوڑ کر چلا جاتا ،۔۔۔۔۔۔۔میرے مرنے کے بعد تم لوگوں نے مجھے
کیا دینا تھا ۔۔۔؟ اس لئے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑاحصہ اپنے
لئے آگے بھیج دیا ہے ۔۔۔۔اوراس پر میرادل نہایت سکون محسوس کررہا ہے۔قارئین
کرام ۔۔۔! کیا کبھی ہم نے بھی سوچا کہ ہم جو اتنا ڈھیروں مال جمع کرنے
اورپھر اس کو گن گن کر رکھنے میں اپنی زندگی کا ایک حصہ صرف کردیتے ہیں
اورجب مرتے ہیں تو وہی سارامال ہمارے پیچھے رہ جانیوالوں کے ہی کام آتا ہے
اور ان میں سے اکثر ہمیں بھول کر اسی دنیا کے بنانے میں لگ جاتے ہیں جہاں
چند دن کے سواہم نے رہنانہیں ،ہم یہ تو نہیں کہتے کہ سارامال ہی اس طرح کسی
رفاہی اورفلاحی کام میں خرچ کردیا جائے ،تاہم یہ ضرورعرض کریں گے کہ ہمارے
معاشرے میں ہزاروں کی تعداد میں مستحق خاندان زندگی کی گاڑی کو گھسیٹنے میں
بہت مشکل محسوس کرتے ہیں ،اﷲ رب العزت نے ہماری آمدنیوں میں معاشرے کے ان
نادارخاندانوں ،یتیم بچوں اوربیوہ خواتین،معذورین اورمریضوں کے علاوہ دیگر
فلاحی کاموں کے لئے بھی حصہ رکھا ہوتاہے ،آئیے اس سے پہلے کہ ہماری زندگی
ہم سے خفاہوکر روٹھ جائے ،ہم اپنی زندگی میں ہی اپنی آنے والی ابدی زندگی
کو پرمسرت اور اطمینان اورنعمتوں بھری بنانے کے لئے آج ہی کچھ کر لے جائیں
۔الخدمت فاؤنڈیشن دکھی انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے بڑے پیمانے پر کام
کررہی ہے ۔آئیے الخدمت فاؤنڈیشن کے دست وبازوبن کر معاشرے کے پسے ہوئے اور
محروم ہو مجبورطبقوں کی امدادوتعاون کے ذریعے اﷲ رب العزت کی عظیم الشان
جنتوں اوراس کی عالی قدر رضا کے لئے اس مہلت عمل سے فائدہ اٹھالیں ۔ |