شان رسالت ﷺ قرآن کریم میں

حمد وثناء رب العالمین کے لئے جو سب خوبیوں کا مالک ہے اور سارے جہان کو پالنے والا بہت مہربان رحمت والا ہے جس نے اس جہان کو اولادآدم کے سردار محمدالرسول اﷲ ﷺ کی ولادت سے سرفراز فرمایا آپ کے ذریعہ تمام انبیاء و مرسلین ،ملائکہ مقربین کی سعادت کی تکمیل فرمائی آپ کی ذات اقدس میں تمام ظاہری و باطنی کمالات جمع فرمادیئے آپ کو سب کا امام ،محسن اور دنیا وآخرت میں امداد کرنے والا بنا یا جس طرح آپ تمام نبیوں میں اعلیٰ و افضل ہیں اسی طرح آپ کی امت تمام امتوں میں افضل و بہتر ہے اسی طرح اﷲ رب العزت کی گزشتہ نازل کی ہوئی کتابوں میں جو کچھ تھا وہ سب آپ پر نازل ہوئی کتاب قرآن مجید میں جمع فرمادیا اور تمام گزشتہ کتابوں کی تفصیلات قرآن مجید میں جمع فرماکر آپ پر احسان عظیم فرمایا۔ آپ ﷺ پر نازل کلام الٰہی میں رب تعالیٰ خود آپ کی شان اور خوبیاں بیان فرمارہاہے ۔

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی ) !بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوش خبری دیتا ،ڈرسناتا ،اﷲ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب اور ایمان والوں کو خوش خبری دوکہ ان کے لئے اﷲ کا بڑا فضل ہے اور کافروں اور منافقوں کی خوشی نہ کرو اور ان کی ایذا پر در گزر فرماؤ اور اﷲ پر بھروسہ رکھو اور اور اﷲ بس ہے کار ساز ۔ ( القرآن سورہ سجدہ ۳۳۰ ، آیت ۴۸،۴۵)
آپ ﷺ تمام جہاں کے لئے نبی اور رسول ہیں آپ ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں دنیا کے کسی بھی خطہ ، ملک یا سلطنت کے کسی بھی قوم کے دانشور جس نے حسد اور بغض کی عینک کے بغیر سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کیا ہو وہ یہی بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے حضرت محمد ﷺ وہ واحد ہستی ہیں کہ آپ جیسا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ قیامت تک کبھی ہوگا ۔قرآن مجید میں رب تبارک وتعالیٰ نے آپ کی شان یوں بیان فرمایا وَ رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ ترجمہ : اے محبوب ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔(الضحیٰ۔پارہ ۳۰ ) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : لاَ اُقْسِمُ بِھٰذَا اْلبَلَدِ وَ اَنْتَ حِلُٗ بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ ترجمہ : مجھے اس (شہر مکہ ) کی قسم اے محبو ب !تم اس میں تشریف فرما ہو۔( القرآن ،سورہ البلد ۹۰ آیت ۲،۱) یعنی مکہ معظمہ کی قسم جو سب سے پرانا شہر ہے جسے خلیل اﷲ نے بنایا جس کعبۃ اﷲ میں مقام ابرہیم و غیرہ ہیں جہاں ہمیشہ سے حج ہوتا ہے جہاں ہر شخص کے لئے امن و امان ہے جو سید الانبیاء ﷺ کی ولادت گاہ ہے معلوم ہوا کہ حضور کی نسبت سے مکہ معظمہ کو حرمت ملی کی رب تبارک و تعالیٰ نے اس کی قسم فرمائی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں ۔

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا ٭ کہ کلام مجید نے کھائی شہا تیرے شہرو کلام و بقاکی قسم
حضرت مصلح الدین شیخ سعدی شیرازی قدس سرہٗ فرماتے ہیں ۔
بلغ العلی بکمالہ کشفت الدجیٰ بجمالہ
٭ حسنت جمیع خصالہ صلوعلیہ واٰلہ
بارگاہ رسول کے شاعر صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ اپنی عقیدت کا اظہار یوں فرماتے ہیں ۔
واحسن منک لم ترقط عینی ٭ و اجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبر اء من کل عیب ٭ کانک قد خلقت کماتشاء

آپ ﷺ کی شان و عظمت کا ذکر خود رب تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا پورا قرآن عظمت مصطفےٰ ﷺ ہے آپ کی وہ ہستی ہے کہ آپ پر درود وسلام اﷲ پاک نے خود پیش فرمایا تو آپ کی عظمت و رفعت کون بیان کرسکتا ہے ؟ یہ کسی انسان یا جن کے بس کی بات نہیں کہ وہ تاجدار مدینہ ﷺ کی شان اقدس بیان کرسکے کیونکہ ہمارا ایمان ہے اگر دنیا بھر کے سمندرکے پانی سیاہی بن جائیں اور تمام درختوں کے پتے کا غذ بن جائیں ساری مخلوق بھی لکھنا چاہے سب کچھ ختم ہوجائے گا مگر آ پ ﷺ کی مکمل شان بیان نہیں ہوسکتی کیونکہ اﷲ نے آپ کی تعریف کی آپ اﷲ تعالیٰ کی ذات کے محبوب ہیں خود رب تبارک وتعالیٰ نے آپ کو عظمت ،عزت کرامت عطا فرمائی کہ آپ کو اس بات پر رسولوں کا گواہ بنایا کہ اﷲ تعالیٰ نے بذریعہ وحی جو کچھ ا ن کی طرف بھیجا تھا انہوں نے وہ سب اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء و رسول آ پ کے متبعین اور خلفا ہیں۔ اس سچائی کو قرآ ن یوں بیان فرماتا ہے ۔

ترجمہ : اور یاد کروجب اﷲ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا کہ جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھرتشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کی تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔ فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا ؟ سب نے عرض کیا کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں اب تمہارے ساتھ گواہ میں ہوں ، تو جوکوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں ۔ ( القرآن ، سورہ ۳ آیت ۸۲ ، ۸۱)
انعام الٰہی ہی ہے حضور ﷺ کی ولادت : رحمۃ العالمین ﷺ کی ولادت طیبہ اﷲ تعالیٰ کا ایسا انعام ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے یہ ایسا انعام ہے جس کا بارگاہ الہٰی میں شکراداکرنا تمام بنی نوع آدم کے ہر فرد پر لازم ہے یہی وہ احسان ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے بڑے خوبصورت اور پر وقار انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ترجمہ : بے شک اﷲ کا بڑا احسان ہواکہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتاہے اور انہیں پاک کرتاہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔(القرآن ، سورآل عمران ۳،آیت ۱۶۴) اس آیت مبارکہ میں آپ ﷺ کی دو ایسی عظیم صفات کا ذکر کیا گیا ہے جو اس وقت کے حالات کے تناظر میں اور آج بھی حضور کی مقدس شخصیت کو امتیازی اور نمایاں مقام عطاکرتی ہے ۔ (ا) انہیں پاک کرتاہے ۔(۲) انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے ۔ شرک و کفر بداخلاقی ، بد کرداری ،انسانیت سوزی، جنسی بے راہ روی، قتل و خوں ریزی جیسی قبیح اور گندی حرکتوں سے معاشرے کو پاک کرانے کے لئے آپ کا ظہور ہوا تاکہ انسان کے اندر انسانی قدروں کی پہچان اور انکے تحفظ کا سامان کیا جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ترجمہ : اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ۔ ( القرآن ، سورہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۴) (۲) بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا۔ ( القرآن سورہ ۹۵ ، آیت ۴) اﷲ کے رسول ﷺ کے فیض اور تعظیم سے وہ لوگ جوننگ انسانیت تھے جنکا مشغلہ کٹنا مرنا تھا وہ انسان کے محافظ بن گئے اور اس طرح کہ زمین ان کے عدل اور پاکیزگی سے مشکبار ہوگئی خود رسالت مآب ﷺ فرماتے ہیں : ’’بعثت لاتمم مکار م الاخلاق و محاسن الافعال ‘‘ میں اسی لئے بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کی تعلیم کو مکمل اور افعال کی خوبیوں کو دنیا والوں کے لیے مکمل کردوں ۔ ( ابو داؤد شریف ) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے کامل شخص وہ ہے جو بہترین اخلاق والا ہے ( معلوم ہوا کہ جس کے اخلاق اچھے نہیں اس کا ایمان کامل نہیں اس سے ایمان میں کمی زیادتی کا ہونا بھی معلوم ہوتاہے )۔ ( ابو داؤد ، حدیث ۴۶۵۴) حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ عمدہ چال چلن ، عمدہ اخلاق اور میانہ روی ، نبوت کے پچیس اجزا میں سے ایک ہے ( ابوداؤد ، حدیث ۴۷۴۹) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن آدمی اپنے اعلیٰ اخلاق سے سارے دن کے روزہ دار اور ساری رات کے تہجد گزار کادرجہ حاصل کر لیتاہے۔( ابوداؤد ، حدیث ۴۷۷۰)حضور کے اخلاق ،عفو و درگذر انسانوں کے لئے رحمت و شفقت کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے قرآن کریم شان رسالت مآب ﷺ کا معجزہ ہے ۔

قرآن میں میلاد مصطفےٰ : جس طرح شان رسالت سے قرآن مزین ہے اسی طرح آپ ﷺ کا میلاد پاک قرآن میں ہے آپ کی عظمت و برتری کا شہرہ چار عالم میں ہے ۱۲ ربیع الاول کو رحمت الٰہی کے پیکر محسن کائنات ﷺ جلوہ افروز ہوئے آ پ کی ولادت پر مسرت و شادمانی کے اظہار کا حکم رب تبارک وتعالیٰ نے دیا : ترجمہ ’’تم فرماؤ کہ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔وہ انکے سب دھن دولت سے بہترہے ۔ (القرآن ، سورہ یونس ، ۱۰۔آیت ۵۸) اس آیت مبارکہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اﷲ ابن عباس ،حضرت ابو جعفر الباقر ، حضرت قتادہ ، حضرت مجاہد ، حضرت علامہ امام آلوسی بغداد ی ، امام ابوحیان اندلسی ، حضرت امام ابن جوزی ، امام طبرانی اور کئی جید مفسرین علمائے کرام نے فضل سے مراد قرآن اور رحمت سے مراد حضور پاک ﷺ کی ذات کو قرار دیا جبکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے فضل اور رحمت دونوں حضور کی ذات ہی کو قرار دیاہے ۔ مصطفےٰ ﷺ کی رحمت کا تذکرہ تو خود قرآن مجید بیان کررہاہے۔ وَمَا اَرْسَلْنَا کَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ ۔ ( القرآن سورہ انبیاء ۲۱، آیت ۱۰۷) ترجمہ : ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے ۔ اس آیت میں ملنے والی نعمت الٰہی فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا خصوصی حکم ہے ۔

حضور ﷺ بذات خود اپنا میلاد مناتے تھے اور سال بہ سال یا ماہ بماہ نہیں بلکہ ہر ہفتہ مناتے تھے ۔ ہر دوشنبہ کو آپ روزہ رکھتے تھے ، پوچھا گیا کہ یہ کیسا روزہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : میں اسی دن پیدا ہوا تھا ۔ ترمذی شریف میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حضور ﷺ پیر اور جمعرات کے روز ے کا بڑا خیال رکھتے تھے ۔ ( ترمذی ، باب ماجاء فی صوم یوم الاثنین و الخمیس، جلد اول ص ۱۵۷)،مسلم شریف میں حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ کیسا روزہ ہے ؟ یعنی پیرکے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : کہ یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور میری بعثت ہوئی یا مجھ پر قرآن نازل ہوا ( مسلم ۔ جلد اول ، باب استحباب صیام الاثنین و الخمیس ۲۶۸) شارح بخاری علامہ قسطلانی مواہب میں لکھتے ہیں ۔ ہردور میں اہل اسلام حضور ﷺ کی ولادت کے ماہ میں محفلیں کرتے ،کھانا کھلاتے ، ان کی راتوں میں صدقے کرتے اور خوشیوں کا مظاہر ہ کرتے اور نیک کاموں میں اضافہ کرتے ، آپ کی ولادت کے احوال پڑھتے اور اس کی برکا ت ان پر نازل ہوتیں ۔ ( ملخصا المواہب الدنیہ جلد اول صفحہ ۱۴۸)
عشق رسول اور ہماری ذمہ داریاں :آپ ﷺ کی شان و عظمت انسان کیا بیان کرے جب رب تبارک و تعالیٰ نے شان بیان فرمائی عشق رسول میں حضور کی ولادت کے موقع پرمیلاد کی محفل منعقد کرنا مٹھائیاں بانٹنا و غیرہ محبت و عقیدت کے بہت سے طریقے ہیں ا ن کو اپنایاجائے اصل اور سچی محبت تو یہ ہے کہ سچا پکا مسلمان بنیں آپ ﷺ کی اتباع و پیروی اور فرمابرداری کریں نماز، روزہ ،حج و زکوٰۃ جو فرائض ،واجبات و سنن اور نوافل ہیں حتی الامکان پابندی کریں رشتہ داروں، حاجت مندوں ،غریبوں کی حاجت روائی کریں حتی الامکان دوسروں کی خبر گیری کریں، فائدہ پہنچائیں و غیرہ وغیرہ تبھی ہم صحیح معنوں میں عاشق رسول کہلائیں گے اور اﷲ و رسول کی خوشنودی بھی ملے گی انشا اﷲ یہی آپ ﷺ کے امتی ہونے کا حق ہوگا اور آپ کی شان رحمۃ اللعالمینی سے ہم سب کو فائدہ ہوگا ۔
نمائشوں کی نہیں عشق کی ضرورت ہے ٭ خلوص سے کہاں کہتے ہو یا رسول اﷲ
کہاں وہ نام نبی اور کہاں درودیوار ٭ دلوں پر کیوں نہیں لکھتے ہو یارسول اﷲ
اﷲ عمل کی توفیق عطافرمائے آمین آمین ثمہ آمین

Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 195685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.