امیر تیمور کی یہ عادت تھی کہ وہ جب کسی شہر کو فتح کرتا
تو وہاں کے علماء کو اپنے دربار میں بلا کر کچھ خاص قسم کے سوالات کرتا
کیونکہ وہ عالموں کی بہت عزت کرتا تھا۔ اگر وہ کسی عالم سے سوال کرتا اور
وہ ادھر ادھر کی مارتا یعنی کسی دلیل کے بغیر بات کرتا تو امیر تیمور اس کو
قتل کروا دیتا تھا۔ چنانچہ جب اس نے حلب کو فتح کیا تو شہر میں قتل عام
کرایا اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر علماء شہر کو قلعہ میں بلا
کر اپنے سامنے بٹھایا اور اپنے درباری مولوی عبدالجبار بن علامہ نعمان
الدین حنفی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ ان علماء سے کہہ دیجئیے کہ میں ان سے
ایک ایسا سوال پوچھوں گا جو میں نے سمر قندی اور میرات کے عالموں سے بھی
دریافت کیا مگر ان لوگوں نے اس کا شافی جواب نہیں دیا۔ لہٰذا ان علماء کی
طرح یہ لوگ بھی میرے سوال کا گول مول جواب نہ دیں بلکہ صاف صاف وضاحت کے
ساتھ جواب دیں اور ان علماء میں جو سب سے زیادہ صاحب علم ہو وہی جواب دے۔
چنانچہ درباری عالم عبدالجبار نے کہا کہ ہمارے سلطان آپ لوگوں سے یہ سوال
کرتے ہیں کہ کل جنگ میں ہمارے اور تمھارے آدمی بکثرت قتل ہوئے تو آپ لوگ یہ
بتائیں کہ ہماری فوج کے مقتولین شہید ہوئے یا تمھاری فوج کے؟ یہ سوال سن کر
تمام علماء گھبرا گئے۔
مگر علامہ ابن طمنہ جواب دینے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور فرمایا کہ مجھے اس
وقت ایک حدیث یاد آگئی ہے۔ ایک اعرابی حضور اکرمﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض
کیا کہ یارسول اللہ ایک شخص مال غنیمت کے لالچ میں جنگ کرتا ہے اور ایک شخص
لڑتے ہوئے اور ناموری کے لئے قتال کرتا ہے اور ایک شخص خدا کی راہ میں
کلمتہ اللہ کی بلندی کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے شہید کون ہے۔ تو حضوراکرمﷺ
نے ارشاد فرمایا کہ جس نے خدا کی راہ میں اعلاءک لمتہ اللہ کے لیے جنگ کی
وہی شہید ہے۔ لہٰذا اے بادشاہ ہماری فوج کے مقتولین ہوں یا آپ کی فوج کے۔
جنھوں نے خدا کی راہ میں کلمہ حق کی بلندی کی نیت سے جنگ کی ہو گی وہ شہید
ہوں گے اور جو مال غنیمت یا نامواری کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے ہوں کے وہ
شہید نہیں ہوں گے علامہ کا یہ مسکت اور شافی جواب سن کر امیر تیمور حیران
رہ گیا اور بے اختیار تیمور کی زبان سے خوب!خوب! نکلا۔ پھر اُس نے تمام
علما کو عزت سے جانے دیا۔ |