بلیک فرائی ڈے اور اسلامی معاشرہ

نومبر کے چوتھے جمعے کو امریکہ میں بلیک فرائی ڈے کہا جاتا ہے ،ریکارڈ کے مطابق 1924ء سے امریکہ میں گھریلوضرورت کی مصنوعات فروخت کرنے والی اسٹوروں کی ایک بڑی چین’’مے سی‘‘ نے تھینکس گوونگ کے موقع پر نیویارک میں ایک بڑی پریڈ کا آغاز کیاتھا،یہ پریڈ تب سے ہر سال بڑے جوش و خروش ہوتی ہے ، جسے لاکھوں لوگ سڑکوں کے کنارے کھڑے ہوکر اور کروڑوں اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ اسی دوران کسی موقع پر ’’مے سی‘‘ نے پریڈ کا اگلے دن، یعنی جمعے پر بڑے پیمانے کی سیل کا اعلان کیا۔ اکثر اس سے متفق ہیں کہ یہی بلیک فرائی ڈے کا آغاز تھا اور پھر بھلا پیسہ کمانے کی دوڑ میں دوسرے اسٹور اور تاجر بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے، چنانچہ چند ہی برسوں میں تھینکس گوونگ کے بعد کا جمعہ امریکہ میں ارزاں نرخوں پر چیزوں کی خریدو فروخت کا سب سے بڑا دن بن گیا،یاد رہے کہ بلیک فرائی ڈے کو باضابطہ طورپر کرسمس کی خریداری کا نقطہ آغاز بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ اس دن کی لوٹ سیل کے بعد کرسمس کی روایتی سیل شروع ہوجاتی ہے جو کرسمس ختم ہونے کے بعد بھی نئے سال کے آغاز تک جاری رہتی ہے ۔اور یوں یہ روایت امریکہ ،کینیڈا ،برطانیہ اوریورپین ممالک تک پھلتے ہوئے پاکستان جیسی اسلامی اور مشرقی تہذیب میں اثرانداز ہونا شروع ہوگئی ہے۔بُنیادی طور پہ یہ دن عیسائیت یا مغربی معاشرے کا ایک حصہ ہے ،وہ اپنے کرسمس ڈے کی تیاریوں کے حوالے سے اپنی خریداری کی شروعات کرتے ہیں ،جس سے کسی بھی باشعور انسان کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ روایت باعث تقلید ہے ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب میں یوم الجمعہ کو سیدالایام کہا جاتا ہے ،جو اپنے اندر ڈھیروں خیروں اور برکتوں کو سمیٹے ہوئے ہے،اسلام میں کوئی دن برا یا بلیک نہیں ہوتا ہے ،حیران کن امریہ ہے کہ یہود و نصریٰ نے اپنی خریداری کی ابتداء جمعہ کے دن سے شروع کرکے اسے بلیک کیوں نہیں کہا؟ جب کہ سنڈے کو چھٹی بھی ہونے کے ساتھ ساتھ اسی لقب کے ساتھ اسے کیوں متعین نہیں کیا گیا ؟

یاد رہے کہ اپنی اصل کے لحاظ سے مغربی دنیا کا یہ اقدام مسلم تاجر برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کرسمس کے لیے کی جانے والی خریداری کے نقطہ آغازپرزبردست ڈسکاؤنٹ دیتی ہے ،بلاشبہ کسی بھی تہوار سے پہلے اس طرح رعایتی نرخ پر اشیا کی فروخت اپنی ذات میں ایک اچھا تصور ہے،اس کے نتیجے میں غریب اور کم آمدنی والی طبقات بھی تہوار کی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں ،کیوں نہ بحیثیت مسلمان رمضان المبارک ،عیدالفطر اور عیدالاضحی سے قبل اس اچھی روایت کو زندہ کرتے ہوئے ہم بھی ڈسکاؤنٹ اور رعائیتی نرخوں پر اشیاء ضروریہ کی لوٹ سیل لگا لیں کیونکہ زندہ قومںس دوسروں سے اچھی چیزیں لیتی ہیں مگر اس کی پیروی میں اتنی اندھی نہیں ہوتیں کہ ان کے پس منظر اور موقع محل کو بالکل فراموش کردیں۔
 

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 248578 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More