گاڑی کا بیک کیمرہ کام نہیں کر رہا تھا۔ پیچھے ہٹتے وقت
اس میں دیکھنے کی کچھ عادت سی ہو گئی ہے ۔اس کے کام نہ کرنے کی وجہ سے کچھ
تشنگی محسوس ہو رہی تھی ۔ آج فرصت تھی سوچا فائدہ اٹھاؤں۔گھر کے قریب ہی
ایک جدید ورکشاپ ہے ۔وہاں پہنچا تو ایک نوجوان نے آگے بڑھ کرآنے کی وجہ
پوچھنے کے بعد کہا کہ استاد جی کو بلاتا ہوں۔فوراً ایک پچاس سالہ شخص آگیا۔
تعارف کے بعد پتہ چلا کہ وہ ورکشاپ کا مالک بھی ہے اور گاڑیوں کا مکینیکل
کام خود کرتا ہے۔ میں نے اسے کیمرے کی خرابی کا بتایااور کہا کہ چونکہ
کیمرے ابھی نئے نئے گاڑیوں میں متعارف ہوئے ہیں اس لئے کسی ایسے کاریگر سے
اسے ٹھیک کرائے جوپوری طرح کام جانتا ہو۔ فکر نہ کریں اس کا جواب تھا۔مجھے
اس نے سامنے بیٹھنے کا کہا اور آواز دی، ’’چھوٹے استاد، فارغ ہو کر اس گاڑی
کا بیک کیمرہ بھی دیکھنا ہے۔‘‘
مجھے بیٹھے کوئی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ میرے پاس
آیا۔ اور میری گاڑی کی طرف اشارہ کرکے پوچھنے لگا۔ سر جی اس گاڑی کا بیک
کیمرہ ہے جو ٹھیک کرنا ہے۔میں نے ہاں کہا، اس نے فوراً گاڑی کا بونٹ کھولا،
پھر ڈگی کھولی ۔ میں کچھ گھبرا گیا، بیٹا کیمرہ ٹھیک کرنا بھی آتا ہے یا
نہیں۔ اس نے بڑی خود اعتمادی سے کہا۔ سر جی آرام اور اطمینان سے بیٹھو، بس
دو تین منٹ کا کام ہے۔ اس نے گاڑی کے آگے اور پیچھے دو چکر لگائے اور کہنے
لگا، سر جی چیک کر لو۔میں نے دیکھا ، کیمرہ بہت ٹھیک کام کر رہا تھا۔
میں نے اندازہ لگایا ،اانتہائی ہونہار بچہ تھا ۔اس کی پڑھنے اور لکھنے کی
عمر تھی مگر حالات نے اس کے ساتھ ظلم کیا، اس کا بچپن چھین کر اسے اس
ورکشاپ میں مشقت کی نذر کر دیا تھا۔ میں نے پہلا سوال کیا، بیٹا تم پڑھتے
کیوں نہیں۔ وہ ہنسنے لگا، سر جی کون ہمیں پڑھائے گا۔ میں بہت ٹھیک ہوں،
یہاں بہت خوش ہوں۔دل تو کرتا ہو گا۔میں نے پھر پوچھا۔ بالکل نہیں کرتا۔ جو
چیز بس میں نہیں اس کے بارے کیا سوچنا اور کیا دل نے کرنا، وہ کھل کر ہنسنے
لگا۔ میں نے پوچھا بیٹا کہاں کے رہنے والے ہو؟ بولا یہیں رہتا ہوں۔اسی
ورکشاپ میں۔ میں نے دوبارہ سوال کیا بیٹا تمہارا گھر کہاں ہے؟ ماں باپ کہاں
رہتے ہیں؟ کام چھوڑ کر میرے قریب آ گیا۔ آپ لگتا ہے بہت سے سوال کرنے کے
موڈ میں ہیں۔ میں ایک ہی دفعہ ساری باتیں بتا دیتا ہوں امید ہے مزید سوالوں
کی ضرورت نہیں پڑے گی۔وہ مسکرایا اور سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ عمر شاید آٹھ یا نو برس ہو گی۔ لہجے میں
بلا کی خود اعتمادی تھی۔ میرے ہاں کہنے پر بڑی روانی سے بولنا شروع ہوا۔
جناب میں بہت چھوٹا تھا مجھے کچھ ہوش نہ تھی جب میرا باپ فوت ہو گیا۔بس
اتنا یاد ہے کہ ہم دو بھائی تھے۔ میں چھوٹا تھا کچھ عرصے بعد ماں نے دوسری
شادی کر لی۔ نیا باپ انتہائی ظالم تھامجھے، میرے بڑے بھائی اور ماں سب کو
مارتا تھا۔ اس کی مار پیٹ سے تنگ آکر ایک دن بڑا بھائی گھر سے بھاگ گیا۔
ماں نے بہت ڈھونڈا مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔سوتیلے باپ کو پرواہ ہی نہیں
تھی، مجھ لگتا ہے میرے سوتیلے باپ ہی نے اسے غائب کیا ہو گا بلکہ بیچ دیا
ہو گا۔ شروع میں ماں اسے یاد کر کے روتی رہی پھر بظاہر ہر چیز ٹھیک ہو گئی۔
بس ماں میرا بہت خیال رکھتی تھی۔ مگر میرے سوتیلے باپ کی مار پیٹ کی عادت
نہیں بدلی تھی۔ پھر ایک دن ماں بھی کسی کے ساتھ بھاگ گئی وہ مجھے بہت پیار
کرتی تھی مگر اس دن اس کے پیار کو پتہ نہیں کیا ہوا، بھاگتے ہوئے مجھے بھول
گئی۔ وہ پھر بڑی تلخ سی ہنسی ہنسنے لگا۔
وہ دوبارہ گویا ہوا، اب میں تھا اور میرا سوتیلا باپ۔ ایک دن ایک شخص نے
کچھ روپے دے کر مجھے میرے باپ سے خرید لیا اور مجھے ایک دوسرے شہر لے
آیا۔اس شہر میں اس کی ورکشاپ تھی۔میں ورکشاپ میں کام کرنے لگا۔ وہ ورکشاپ
والا بہت ظالم تھا۔ ذرہ سی غلطی پر خوب مارتا اورکھانا بھی نہ دیتا۔ دو
ڈھائی سال پہلے جب مجھے ایک دن بہت مار پڑی تو میں روتا ہوا ایک طرف بیٹھ
گیا، ورکشاپ والے نے کہا کہ میں ابھی دوبارہ ماروں گا۔میں ڈرا ہوا تھا،
پہلی مار ہی کافی تھی مگر وہ اور مارنے کے موڈ میں تھا۔ ورکشاپ کے قریب کسی
دوسرے شہر سے کوئی بارات آئی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا باراتی واپس جانے کے
لئے بس میں سوار ہو رہے تھے۔میں بھی بھاگ کر بس میں بیٹھ گیا۔ وہ بس مجھے
اس شہر میں لے آئی۔ دو دن آوارہ پھرنے اور سڑکوں پر سونے کے بعد میں یہاں
سے گزر رہا تھا تو یہ ورکشاپ بند تھی اور دو گاڑیاں باہر کھڑی تھیں۔ ایک
گاڑی کو وہ لاک کرنا بھول گئے تھے۔میں نے گاڑی کھولی او ر گاڑی کی سیٹوں پر
مزے سے صبح تک سوتا رہا۔صبح استاد جی نے مجھے سوتے ہوئے پکڑ لیا۔جو آج آپ
پوچھ رہے ہیں، وہی سب استاد جی نے پوچھااور بس اس دن سے میں اسی ورکشاپ میں
سوتا ہوں۔
بس یہی میری کہانی ہے اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے کچھ یاد نہیں
کہ میں کس شہر میں پیدا ہوا، کہاں پلا، میرے سگے باپ کا نام کیا تھا، میری
ماں بھاگنے کے بعد اب کہاں ہے،گھر سے بھاگنے والا میرا بھائی کس حال میں ہے،
وہ لوگ کبھی نظر بھی آئے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے، سب رشتے
مستقل کھو گئے۔ اب استاد جی میرا ابا ہے، میری اماں ہے ۔میں سوچوں میں گم
تھا اس نے ہنس کر مجھے آنکھ ماری۔ کوئی اور سوال؟ اس سے اب کیا سوال۔ اس کی
زندگی تو ہمارے پورے معاشرے کے لئے ایک سوال ہے جس کا اس معاشرے کے
ٹھیکیداروں کے پاس کوئی جواب نہیں۔اس قدر ہونہار بچہ اور کس طرح معاشرے کی
بے حسی کا شکار ہوا۔ جسے حالات نے وقت سے پہلے ہی بالغ کر دیا تھا۔ مگر یہ
بچہ اکیلا نہیں ۔ ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی ہزاروں داستانیں ہمارے سماج
میں روز جنم لیتی ہیں ۔کوئی سوچ رکھنے والا حکمران اگر کبھی اس ملک کو میسر
ہوا تو شاید ان بچوں کے بارے سوچے ورنہ یہ چبھتا ہوا سوال ہمیشہ سوال ہی
رہے گا۔ |