روزی کے چہرے پر شرارت کے رنگ اک اک کرکے اترنے لگے،،،اب
اس کا چہرہ
فکر کی لکیروں سے بھرنے لگا تھا،،،
اس کے حلق نے بمشکل الفاظ اگلنے شروع کیے،،،
امی آخر ہوا کیا ہے،،،میں بالکل ٹھیک ہوں،،،سلمان میرے سامنے بیٹھا ہوا
ہے،،،میں تھوڑی دیر میں آپ کے پاس ہوں گی،،،آپ سے بڑھ کر کیا ہے میرے
لیے،،،
سلمان حیرت اور رنج سے اس پھولوں سے بھری پٹاری کو کوہِ گراں پر چڑھتا ہوا
دیکھ رہا تھا،،،
روزی نے وہاں ماں کی بات سنی،،،اب وہ قدرےنارمل ہونے لگی،،،پہلی بار اس نے
نظریں اٹھا کر سلمان کو دیکھا،،،
ارے ماں،،،کیا ہوگیا ہے،،،ہٹا کٹا میرےسامنے بیٹھا ہوا ہے،،،پھر اس کی
مسکراہٹ لوٹنے لگی،،،اسے آتا ہی کیا ہے،،،سمجھا رہی ہوں،،،بات سمجھ ہی
نہیں آرہی،،،سیدھی سی بات ہے مگر لگتا ہے انگلی ٹیڑھی کرنی پڑے گی،،،
ایسے اس کے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے،،،بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے،،،
بس آپ اپنا خیال رکھیے،،،پھر بھی آپ کہتی ہیں تو میں اسے کان سے پکڑ کر
لے آؤں گی،،،ویسے بھی سب آرڈینیٹ کو ہر حکم ماننا ہی پڑتا ہے،،،
باس اِز آلویز رائٹ،،،ٹھیک ہے امی مگر آپ کو قسم ہے کوئی بھی پرابلم
ہو،،،آپ
نے کال کرنی ہے،،،
ہائے امی میں اسے کیسے آپ کا پیار دوں،،،بس بول دیتی ہوں ،،،امی پوچھ رہی
تھیں،،،
سلمان نے خود کو پیپر پنسل تک محدود کر دیا،،،جیسے وہ کچھ سن ہی نہ رہا
ہو،،،وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ اک دوسرے کو سن رہے ہیں،،،
روزی نے فون رکھ دیا،،یس ناؤ یو مِے رپلائے،،،
سلمان نے حیرت سے اسے دیکھا،،،دھیمے سے لہجے میں بولا،،،آباؤٹ واٹ،،،،
روزی زور سے بولی،،،یہاں سے کب بھاگو گے،،،
سلمان کے چہرے پر دنیا جہان کی مایوسی امڈ آئی،،،وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے
لگا،،،
روزی اس کو مسلسل سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی،،،سلمان کو لگا،،،جیسے
بانو تین مہینوں کا روم رینٹ مانگ رہی ہو،،،اسے ذلت کا احساس ہونے لگا،،،
دھیمے سے بولا،،،ہمارا ہر فیصلہ آنے والا کل کرتا ہے،،ہماری
وفاداری،،،زبان،،،
وعدے سب کا تعلق پیٹ سے ہے،،،چادر سے ہے،،،چھت سے ہے،،،
ہمارے سر پر کمزور سے ستونوں پر کھڑی ‘‘چھت‘‘ ہی ہمارا آسمان ہوتا ہے،،،
سڑک پر رات گزارنا آسان نہیں،،،ہر کوئی ذلیل کرتا ہے،،،دھتکارتا ہے،،،
کتے بھی بے گھر پر بھونکتے ہیں،،،شاید فٹ پاتھ پر اپناحق ذیادہ سمجھتے
ہیں،،،
خالی پیٹ بہت برا برا بولتا ہے انسان،،،دوکوڑی کا ہو جاتا ہےاپنی نظرمیں،،،
جب انسان دو کوڑی کا ہو جائے اپنی نظر میں پھر جینے کا جواز ہر لمحے
کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے،،،
روزی کی آنکھوں سے آنسو برسنے کو تھے،،،پلکیں ان کا بوجھ اٹھانے کو قاصر
ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
|