جب رحمت العا لعمین محمدنبیﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو
کہا اِقرا باسمِ ربک الذی خلق۔ "پڑ ھو اے نبیﷺ اپنے رب کانام لیکر جس نے
پیدا کیا ــ" یہ واضع پیغام تھاکہ اب دنیامیں صرف علم ہی حاکم رہے گا وہی
انسانوں کی ترقی و کامرانی کا زریعہ بنے گا ایک جنگ کے موقعہ پر رسولﷺ نے
تعلیم یافتہ قریش کے قیدیوں کی قید میں نرمی کی ایک ہی شرط رکھی کہ وہ اہل
مدینہ کو تعلیم دیں جس سے علم کی افادیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں پھر آپ
ﷺ نے فرمایا حصول علم کے لیے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ یہ اقوال اور احکامات
بتاتے ہیں علم کے سوا ترقی کا کوئی راستہ نہیں البتہ یہ سمجھ لینا چائیے کہ
حصول علم کی راہ میں نہ عقیدہ روکاٹ ہوناچاۂیے نہ نسل و لسانی تفریق کیونکہ
تعلیم کا حصول ہر شہری کا بنیادی و انسانی اور جمہوری حق ہے اور اس حق سے
مختلف حیل و بہانوں سے محروم رکھنے والے عناصراور حلقے کسی بھی طور پر
جمہوری کہلانے کے مستحق نہیں یہ تب ممکن ہوسکتاہے جب تعلیمی اخراجات ایک
عام آدمی کی پہنچ میں ہو ں۔اور آج تعلیم کی زبوں حالی کایہ حال ہے بلکہ یہ
کہنا زیادہ منا سب ہوگاکہگذشتہ تین دہائیوں سے ہماری شہری اور قصباتی زندگی
میں کاروباری ہوس نے ایسے تعلیمی اداروں کو جنم دیا جنہیں عام لفظوں میں
انگلش میڈم ـ سکول کہا جاتا ہے۔ان کی لاتعداد اقسام ہیں پوری دنیا میں کسی
بھی ملک کے نظاِم تعلیم کے ساتھ اتنا بھونڈا مذاق نہیں جس قدر ظالمانہ
طریقے سے چند سو روپے ماہانہ پر انگلش میڈم والوں سے لیکرکئی ہزار روپے
ماہانہ پرتعلیمی ادارے قائم کرکے کیاگیا ایک چھوٹے سے قصبے میں لوگوں کے
بچوں کو جدیدانگیریزی تعلیم کا لالچ دینے کے لئے کیاگیا۔ بلکہ اب توشہروں
میں بھی یہ بزنس عام ہوگیاہے کیاکیا ڈھنگ اختیار کیے جاتے ہیں سب سے پہلے
کوئی عمارت خواہ گھر ہوکوئی گودام یاتین چار دکانوں کامجموعہ اسے کرائے پر
یا خرید کرحاصل کیاجاتاہے اس میں رنگ برنگی کرسیوں دیواروں پر چیختے چلاتے
رنگ کے پلستران پر مغرب سے متاثرکارٹون کے کرداروں کی تصویروں اور اگر ممکن
ہو تو چند عالمی حقائق اور مناظر کی پینٹنگ لگاکر اس قابل کیا جاتاہے کہ
اسکے تنگ تاریک کمروں پر کلاسوں کا اہتمام کیا جسکے اسکے لیے انتہائی مشکل
سا انگریزی نام سلیکٹ کیاجاتاہے۔ جیسے ایسانام جو دہیات نماقصبہ میں رہنے
والوں کو اچھنباسالگے یہ صرف اور صرف کاروبار چمکانے کی خاطر ایسا کرتے
ہیں، جیسے لٹل سکالر،لٹل انجیلز، ،رائزنگ سٹار، بیسٹ ریڈر ، مون سٹار، ان
تمام کے اگے انگلش میڈیم لکھ کر ادارے کا افتتاح ہو جاتاہے اب جبکہ تعلیم
تجارت میں تبدیل ہو چکی ہے ، کم تر معیار کی تعلیم کے نجی سکول بھی وجود
رکھتے ہیں۔ جو تعداد میں بڑھتے جارہے ہیں اور جو ایسے بچوں کے لیے ہیں جن
کے والدین سرکاری اداروں کی تعلیم سے مایوس ہو کر اپنی آمدنی کا ایک بڑا
حصہ اپنے بچوں کی تعلیم پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دینی
مدارس کے طلباء بھی ہیں جو تمام عمر کے لیے تنگ نظر سوچ کے قیدی ہو جاتے
ہیں۔
میں نے جب یکساں تعلیم کے بارے میں کچھ اساتذہ سے تشریح پوچھی تو ان کا
کہنا تھا کہ یکساں تعلیم سے مراد وہ نظام ہے جس میں غربا اور امراء کے بچوں
کی تعلیم میں کوئی فرق نہ ہو بلکہ سب کی تعلیم کا معیار یکساں ہونا چاہیے۔
یعنی اس ملک کا ہر بچہ ایک جیسی تعلیم حاصل کرے۔جہاں تعلیم میں اونچ نیچ نہ
ہو اور بچوں میں کمتر اور بر تر کا فرق نہ ہو۔ یہ نظام پرائمری سے مڈل اور
پھر میٹرک تک بچے کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی حاصل کی ہوئی تعلیم سے بخوبی
واقف ہوں۔ پاکستان میں تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے پاکستان میں درسی عمر
یعنی 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً پانچ کروڑ بچے ہیں جن میں سے ڈھائی
کروڑ بچے تو تعلیم حاصل کرنے سے مکمل طورپر محروم ہیں یعنی وہ کبھی سکول
گئے ہی نہیں۔ یوں سمجھیں کہ پاکستان آدھا مستقبل تاریک ہے۔ جو بچے سکول میں
داخل ہو بھی جاتے ہیں ان میں سے آدھے (یعنی کل بچوں کا ایک چوتھائی بچے)
پرائمری کی سطح تک پہنچنے پر یا اس سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف
پانچ تا دس فیصد بچے ہو ں گے جو کالج تک پہنچ پاتے ہیں۔ سرکاری سکول ضرورت
سے بہت کم ہیں۔ اور جو ہیں بھی وہ ابتری کا شکار ہیں۔ کئی جگہ بغیر چھت کے
سکول ، بغیر بنچوں کی کلاسیں اور ٹوٹے پھوٹے بلیک بورڈ ہیں۔ ایسے سکول بھی
ہیں جن میں پینے کا پانی میسر نہیں، نہ ہی اجابت خانے موجود ہیں۔ پھر
لڑکیوں کے کئی سکول ہیں جن کی چار دیواری تک نہیں ہے انتہائی شرم کی بات تو
یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ان ضروریات کو اپنے وسائل سے نہیں بلکہ غیر ملکی
خیرات سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اوراس پیسے میں بھی خیانت کر جاتی
ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد ضرورت سے کم ہے۔ پھر کہنے کو سب کے
پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن ایک کے بعد ایک سروے یہ بتایا ہے کہ ان میں سے
بیشتر اساتذہ جن جماعتوں کے جو مضامین پڑھاتے ہیں ، اس کا ایک معمولی سا
امتحان وہ خود پاس نہیں کر پاتے۔ پھر ہزاروں کی تعداد میں ایسے سکول بھی
ہیں جو وجود نہیں رکھتے یا جن میں ایک بھی شاگرد نہیں لیکن وہاں کے جن بھوت
اساتذہ اپنی تنخواہیں پوری لے جاتے ہیں۔ جوکہ ملکی خزانے کوایک عجیب سا
جھٹکا لگ جاتاہے جسکاخمیازہ عوام کو سہناپڑتاہے بلکہ مخصوص طبقے کے لیے
اعلیٰ معیار کی نجی تعلیم کا وجود ہی طبقاتی نطام تعلیم کی تعریف فراہم
کرتا ہے۔ اعلیٰ معیار کی تعلیم کے باعث مالدار طبقے کے بچوں کے لیے دنیا
بھر کے مواقع کھل جاتے ہیں اور ان کی طبقاتی بر تری برقرار رہتی ہے چاہے ان
کی ذاتی ذہنی صلاحیتیں اوروں سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اس قسم کے تعلیمی مواقع
صرف پانچ فیصد بچوں کو میسر ہیں۔ اس کے بر عکس، سرکاری تعلیمی اداروں میں
پڑھنے پر مجبور بچے اچھی تعلیم سے محرومی کا شکار رہتے ہیں اور ان میں سے
معدودے چند ہی عمدہ ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔جب تک ملک کا
بندوبست طبقاتی ہے ، یہاں یکساں تعلیمی نظام رائج نہیں ہو سکتا کیونکہ
تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے سے وسائل و اختیارات کی اجارہ داریوں پر
ضرب پڑ سکتی ہے۔
لیکن قوم کے تمام افراد کو اچھے معیار کی تعلیم فراہم نہ کرنا قومی مفاد کو
نقصان پہنچانے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ تعلیم انسانی محنت میں قدر کا اضافہ
کرتی ہے جس کی وجہ سے قومی پیداوار میں صرف بنیادی اشیاء کی پیداوارہی نہیں
بلکہ اعلیٰ صنعت و حرفت پر مبنی اشیاء کی پیداوار کے امکانات بھی وجود میں
آسکتے ہیں جن کو بروئے کار لا کر محنت سے زیادہ دولت پیدا کی جاسکتی ہے۔
ساتھ ہی انسانی سرمایہ کو مستحکم اور فعال بنایا جا سکتا ہے۔ وہ سیاستدان
اور حکام جو تعلیم کو ملکی معاملات میں ترجیح نہیں دیتے وہ قوم کو ناقابل
بیان نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بلکہ وہ قوم کو ایک دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
تعلیم کے معیار کا حال یہ ہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے سالہا سال کے سروے
ہمیں مطلع کرتے ہیں کہ پانچویں جماعت کے اکثر بچے دوسری تیسری جماعت کی
ندار دو عبارت ٹھیک طرح پڑھ سکتے ہیں اور نہ حساب کے سوال درست حل کر سکتے
ہیں۔سرکاری تعلیم کی اس زبوں حالی کا علاج معاشرے نے یہ نکالا ہے کہ نجی
سطح پر تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں اور تعلیم ایک کاروبار بن گیا ہے ۔ 1972
سے پہلے بھی نجی سکول ہو تے تھے لیکن ان کا تناسب پانچ فیصد سے زائد نہیں
تھا۔ ان میں سے بھی بیشتر فلاحی بنیادوں پر قائم تھے۔ اب یہ سب کاروباری
ہیں اور ان کا تناسب بڑھتے بڑھتے 40 فی صد سے اوپر ہو چلا ہے۔ حالات کا رخ
بتا رہا ہے کہ بہت جلد یہ تناسب بڑھ کے 50 فیصد سے بھی زائد ہو جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1972 سے پہلے نجی تعلیمی اداروں میں انحطاط نہیں آیا
تھا۔ 1986 ء میں نجی اداروں کو دوبارہ اجازت ملنے کے بعد سرکاری تعلیمی
ادارے ایک مسلسل انحطاط کا شکار ہیں۔ یہ انحطاط نجی تعلیم کے کاروبار کو
مزید تقوید دے رہا ہے۔ حکومت نے 2005 میں یہ اعلان کیا تھا کہ 2015 تک
تعلیم میں صنفی نا برابری کو ختم کر دیا جائیگا لیکن وہ ابھی تک یہ کام
نہیں کر سکی ہے۔ 2012-13 کے سروے کے مطابق خواندگی کا تناسب مردوں میں 71
فیصد اور عورتوں میں 46 فیصد رہا۔ اب ہماری قوم کو دہشت گردی کا بھی سامنا
ہے جس سے تعلیم کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ بنیاد پرست مذہبی دہشت گرد مرد
وعورت بھی ان سے بیزار ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم کے خاص دشمن بھی ۔ اپنے زیر
اثر علاقوں میں انہوں نے لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کئے اور لڑکیوں کے
تعلیمی اداروں کو حملہ کر کے تباہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ تعلیمی اداروں کو
اپنی پناہ گاہوں کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ ساتھ ساتھ ہماری فرسودہ
سماجی رعایات ، فیوڈل ذہنیت اور مذہبی توہم پرستی بھی لڑکیوں کی تعلیم میں
رکاوٹ ہے۔
یہ ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ سرکاری تعلیم کے انتظام میں بے حد و
حساب کرپشن ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرکار
تعلیم پر اتنے وسائل خرچ نہیں کرتی جتنی کہ اسے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا
بھر میں یہ تسلیم اصول ہے کہ ہر ملک کواپنی کل قومی پیداوار کا کم از کم
چار فیصد حصہ پر خرچ کرنا چاہیے۔ بعض ممالک تعلیم پر چھ اور آٹھ فیصد تک
بھی خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی یہ خرچ کبھی دو فیصد سے زائد ہوا
ہو۔ اکثر و بیشتر اس کی سطح ڈیڑھ اور دو فیصد کے درمیان رہتی ہے۔ گزشتہ کئی
دہائیوں سے ہر حکومت، چاہے وہ فوجی ہو یا غیر فوجی ، مسلم لیگ کی ہو یا
پیپلز پارٹی کی، ہر سال وعدہ کرتی آئی ہے کہ وہ تعلیم پر قومی اخراجات کو
کل قومی پیداوار کے چار فیصد تک بڑھائے گی۔ بلکہ پچھلی پیپلز پارٹی کی
حکومت نے اسے سات فیصد تک لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن کوئی بھی حکومت
اسے دو فیصد سے زائد کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ یہ تمام وعدے جھوٹے ثابت
ہوئے۔ شائد عمداً یہ جھوٹ بولا گیا تھا کیونکہ انہیں بھی معلوم تھاکہ جو
وعدے وہ کررہے ہیں ان کو پورا کیا ہی نہیں جا سکتا ۔
سوال یہ ہے کہ آخر یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ، چاہے جمہوری ہوں یا
آمرانہ، وعدوں کے باوجود تعلیم پر سرکاری اخراجات کو قومی پیداوار کے دو
فیصد سے زیاد ہ اور صحت پر ایک فیصد سے زیادہ کیوں خرچ نہیں کر سکتیں۔ کیا
یہ صرف نیتوں کا معاملہ ہے یا اس کے پیچھے چند گہری حقیقتیں ہیں۔ اٹھارویں
آئینی تر میم کے تحت جہاں تعلیم کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے
وہیں پانچ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے ہر بچے پر تعلیم حاصل کرنا لازم کر
دیا گیاہے۔ اور سرکار پر یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ ان بچوں کے لیے نہ
صرف تعلیم کا بندوبست کرے بلکہ انہیں مفت تعلیم دلائے۔ تعلیم لازم کرنے کا
مطلب یہ ہے کہ اس عمر کے بچے اب کارخانوں ، ورکشاپوں ، چائے خانوں، دکانوں
، گھروں ، وغیرہ میں ملازم نہیں رکھے جا سکتے اور نہ ہی وہ دن بھر کوڑے کے
ڈھیروں سے غذا اور کاغذ چنتے نظر آنے چاہئیں۔ قانون میں انہیں ملازم رکھنے
والوں اور سکول نہ بھیجنے والے والدین کے لیے سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اس
آئینی ترمیم کا اور اس سے متعلق صوبائی قوانین کو منظور کرنے کا اب تک صرف
یہ فائدہ ہوا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی واہ واہ ہوگئی ہے لیکن عملاً
بچوں کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں اور
کارخانوں، دکانوں ، گھروں وغیرہ میں ان سے پہلے ہی کی طرح مشقت لی جاتی ہے۔
اگر اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے سرکار 5 سے 16 سال تک کی عمر کے
تمام بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے اور فی الوقت ویسی ہی ٹوٹی پھوٹی
سہولیات مہیا کرے جیسی کہ آج کل سرکاری سکولوں میں ہیں تو آئیے ذرا اندازہ
لگاتے ہیں کہ اسے کیا کرنا ہوگا۔
اسے ڈھائی کروڑ بچوں کے لیے تعلیم کا اضافی بندوبست کرنا ہوگا۔ آج کل
تقریباً تین کروڑ بچوں کے لیے 23 لاکھ سے کچھ اوپر سکول ہیں۔ ڈھائی کروڑ
مزید بچوں کے لیے اسے تقریباً 20 لاکھ نئے سکول تعمیر کرنے پڑیں گے۔ آج کل
13 لاکھ سرکاری سکول ٹیچر ہیں۔ حکومت کو مزید دس گیارہ لاکھ ٹیچر بھرتی
کرنے ہوں گے۔ اسی کے حساب سے تعلیمی انتظامی کے ملازمین کی تعداد بھی بڑھے
گی۔
تو ہمارے حکمرانوں نے دنیا جہان سے واہ واہ حاصل کرنے کے لیے آئین میں
ترمیم تو کردی ہے اور قوانین بھی بنالیے ہیں لیکن کیا وہ اس ملک کے ہر بچے
کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکے گی ؟ آئیے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی
کوشش کریں۔
مختصر جواب تو یہ ہے کہ جب تک اپنے وسائل نہیں بڑھاتے ہم یہ کام ہرگز بھی
نہیں کر پائیں گے۔ ہمارے محصولات اتنے کم ہیں کہ دفاعی اخراجات ، قرضوں کی
ادائیگی اور انتظامی امور کے اخراجات کے بعد اتنے کم پیسے بچتے ہیں کہ
تعلیم و صحت جیسے سماجی شعبوں پر خرچ کے لیے بمشکل ہی کچھ بچ پاتا ہے۔
کرپشن اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ ہے۔
پاکستان کے رواں مالی سال کے بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ تقریباً 49 کھرب
(یا 4,900 ارب) روپے ہے جبکہ تمام محصولات صرف 36 کھرب روپے تک محدود ہیں۔
13 کھرب روپے کے خسارے کو مزید قرض لے کر پورا کیا جائے گا جس سے آئندہ
سالوں میں قرضوں کی ادائیگی اسی تناسب سے بڑھ جائے گی۔ اس ایک سال میں دفاع
پر 11 کھرب روپے خرچ ہوں گے (بشمول فوجی پنشنوں کے) اور اب تک لیے گئے
قرضوں کی ادائیگی پر 18 کھرب روپے لگیں گے۔ اس طرح دفاع اور قرضوں کی
ادائیگی پر ہی ملا کر 29 کھرب روپے خرچ ہو جائیں گے۔ یعنی دفاع پر کل
اخراجات کا 23 فی صد اور قرضوں کی ادائیگی پر 37 فی صد خرچ ہو جائے گا۔ جس
کا مطلب یہ ہے کہ ان دومدوں پر ہی کل بجٹ کا 60 فی صد لگ گیا۔ اب محصولات
کو دیکھیے۔ یہ تین مدوں میں آتے ہیں۔ ٹیکسوں سے ، غیر ممالک میں مقیم
پاکستانیوں کی بھیجی رقوم سے اور قومی اثاثوں کی فروخت سے ۔ ٹیکسوں سے اس
سال ہماری متوقع قومی آمدنی 36 کھرب روپے ہو گی، غیرملکوں سے بھیجی گئی رقم
8 کھرب متوقع ہے اور تھوڑی بہت رقم اثاثے بیچنے سے بھی مل جائیگی۔ گویا کہ
ہماری اپنی آمدنی کا 80 فی صد حصہ صرف دفاع اور قرضوں کی ادئیگی میں نکل
جاتا ہے۔ پھر ہماری انتظامیہ بھی ہے جو دس فیصد لے جاتی ہے ۔ تو ہمارا سب
سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ چادر چھوٹی ہے اور ہمارے پاؤں بہت پھیلے ہوئے ۔
اور ہم بجائے چادر کو بڑا کرنے کے اپنے پاؤں کاٹنے کی تدبیر کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں ایک بنیادی اصول ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کم محصولات کے ساتھ کسی بھی
صورت میں اچھی حکمرانی نہیں ہوسکتی۔ تاریخ کے جتنے بھی کامیاب حکمران گزرے
ہیں ان کی کامیابی کا راز زیادہ سے زیادہ محصولات جمع کرنے میں تھا۔
پاکستان کے سالانہ محصولات مجموعی قومی پیداوار کا محض دس فیصد ہیں جو
نہایت کم ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے محصولات ان کی قومی پیداوار کا 25 سے
30 فیصد تک ہوتے ہیں۔ کم از کم اٹھارہ ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں یہ تناسب
40 فیصد ہے اورایک ملک تو ایسا بھی جس میں یہ تناسب پچاس فیصد تک ہے۔ محض
10 فیصد کے محصولات کے ساتھ اچھی حکمرانی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ صرف ان ممالک
میں ممکن ہے جہاں قومی پیداوار قدرتی وسائل کی وجہ سے بہت زیادہ ہے اور
آبادی بہت کم ، جیسے کہ متحدہ عرب امارات ۔ ہمار ا ملک ان دونوں معاملات
میں بد قسمت ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ملک میں براہ راست ٹیکس اور بالواسطہ ٹیکس کے
درمیان تناسب بھی الٹا ہے ۔ بالواسطہ ٹیکس جو بجلی ، گیس پیٹرول ، اشیائے
صرف، وغیرہ جیسی بنیادی ضرورتوں پر لگتا ہے اور جس کا بوجھ امیر اور غریب
سب پر تقسیم ہوتا ہے 60 فی صد کے قریب ہیں اور براہ راست ٹیکس جو آمدنی و
دولت کے تناسب پر لگتا ہے اور جس سے غریب مسثنیٰ ہوتا ہے 40 فی صد کے لگ
بھگ ہیں ۔ گویا کہ دنیا کے دستور کے عین بر عکس ہمارے ہاں کل محصولات میں
امیروں کا حصہ کم ہے اور غریبوں کا زیادہ۔ امیروں کے لیے یہ سہولت قوانین
کے تحت بھی ہے اور کرپشن کی وجہ سے بھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے
کے امراء بے حساب دولت کے مالک ہیں جسے وہ ملک سے باہر بھیج کر وہاں
جائیدادوں کی شکل میں جمع کرتے رہتے ہیں اور دنیا کی ہر قسم کی عیاشی کے
مزے لوٹتے ہیں۔ اس کے بر عکس غریب عوام اچھی اور معیاری تعلیم اور صحت کی
بنیادی سہولتوں کے اپنے حق سے بھی محروم ہیں۔ سب سے زیاد ہ تکلیف دہ بات یہ
ہے کہ زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے جس کا فائدہ کسانوں اور چھوٹے
زمینداروں سے زیادہ جاگیر داروں اور بڑے زمینداروں کو پہنچتا ہے۔ کسانوں کی
محنت سے حاصل کردہ دولت دبئی اور انگلینڈ امریک اٹلی وغیرہ میں جائیدادیں
خریدنے میں صرف ہوتی ہے۔
کرپشن سے پاک حکومت ہی، عوام کو تعلیم اور علاج معالجے کی بنیادی سہو لتیں
فراہم کرسکتی ہے ،مشلاََ، محنت کشوں کو روز گار فراہم کرنا ہو ، لوگوں کو
لوٹ مار، قتل و غارت گری بلکہ چھرا گروپ ،سٹریٹ کرائم سے نجات دلانی ہو تو
اس ملک کا محصولات کا نظام ٹھیک کرنا ہوگا۔اور پھر حاصل کیے گئے ریونیوبھی
کرپشن سے پاک ہوناچائیے اور ٹیکس کا تناسب مجموعی قومی پیداوار کا کم ازکم
تیس فیصد کرنا ہوگا۔ مناسب وسائل مہیا کئے بغیر سرکاری نظام تعلیم ٹھیک
نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تعلیم میں طبقاتی فرق ختم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ
سرکاری نصاب تعلیم پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک کورس کی کتابیں توہم پرستی اور جامد و ساکت
نظریات سے بھرپور ہیں اور اپنے حالات، تہذیب اور معاشرے کی عکاسی نہیں
کرتیں۔ ایسے مواد کو نصاب سے خارج کیا جائے ۔ پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت
تک تعلیم مادری زبان میں فراہم کی جائے۔ ا ور اسلامی اتعلیم بھی ساتھ ساتھ
لازمی قرار دی جائے مدارس کی تعلیم نہ صرف دور جدید کے تقاضے پورے کرتی
بلکہ اس کے برعکس مذہبی تعلیم تفریق اور نفرتوں کومٹانے کاباعث بھی بنتی ہے
۔پاکستان کے آئین کے مطابق ملک کے ہر بچے کو چاہے وہ دیہات کا ہو یا شہر کا
مفت میٹرک تک تعلیم مہیا کی جائے۔ بچوں کی تعداد کے مطابق تعلیمی ادارے
قائم کئے جائیں۔ تعلیمی اداروں کی عمارات ضرورت کے مطابق تعمیر کی جائیں جن
میں فرنیچر ، لیب ، انسانی ضروریات مثلاً پانی ، بجلی، لیٹرین وغیرہ کی
سہولت مہیا کی جائے۔ نصاب سرکاری اسکول کا ہو یا نجی اسکول کا یا پھر مدرسے
کا ، حکومت کی طرف سے رائج کیا جائے۔ پھر یہ نصاب ایسا ہو جو نفرت ، کمتری
اور تعصب سے پاک ہو، اتحاد و عمل کو فروغ دے اور اپنے حالات تہذیب معاشرت
کو سمجھنے اور برتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ تعلیمی نصاب میں ہر پانچ سال کے
بعد مستند اساتذہ کی خدمات کے ذریعے اصلاح و ترمیم کی جائے تاکہ وہ بدلتے
ہوئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ اعلیٰ معیاری تعلیمی ادارے سرکاری
سطح پر قائم کئے جائیں۔ انہیں ضروریات کے مطابق وافر فنڈز فراہم کئے جائیں۔
ان فنڈز کو تعلیمی امور سے متعلق خرچ کیاجائے اور غیر متعلق انتظامی امور
پر صرف نہ کیا جائے۔ ملک بھر تجارتی بنیادوں پر قائم ٹیوشن سینٹر و اسکول
بند کئے جائیں۔ محصولات کا نظام بہتر اور منظم و مستحکم کیا جائے۔ تاکہ ہر
شہری قانون کے مطابق محصول ادا کرسکے ۔ اس کے ساتھ ہی محصول وصول کرنے کے
عمل کو شفاف اور آسان بنایا جائے ۔ زرعی ٹیکس فوراً رائج کیا جائے۔ اور
عوام سے حاصل کی ہوئی محصول رقم میں کوئی ادارہ یا افرا د خردبرد کرے تو
اسکو عبرت ناک سزا دی جائے ۔ اور ہنگامی بنیاد پر تعلیم کو عام اور سہل
کرنے کے لئے قانون پر عمل درآمد کیاجائے تاکہ 09 ہزار روپے میں 12 گھنٹے
کام کرنے والا عام آدمی بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکے ۔ |