بے نشاں

 میں اپنی ذات کی تو بات کرتاہی ہوں ساتھ ساتھ دوسروں کی بات بھی کرنے کا حق رکھتا ہوں میں مجھ میں اک نامکمل شخص ہوں لوگ مجھے کہاں مکمل بندہ بننے دیتے ہیں وہ کون ہے جو مکمل پاکباز ہے خلق خدا کیسے پاکباز سمجھتی ہیارے دنیا تو ان لوگوں کو مکمل سمجھتی ہے جو دو چار اچھی باتیں سنانے کا ہنر جانتے ہوں سچ ہے شاید کہ جیسے میں بھی ٹھہرا تو ڈھونگ رچانے والا انسان جو اپنے تئیں خود پارسا و پاکدامن لیکن بتاؤ اگر میں ایسانہیں ہوں تو کوئی ایسا انسان بتادو مجھے جو ڈھونگی نہیں ہے تاکہ میں بھی جا کر اسکی قدم بوسی کروں اور اسے ہی کامل مرشد مان لوں میرے پاس ہے نا شاید آپ کے پاس کوئی حل کون ڈھونگ رچاتا ہے اور کون نہیں اس کا پتہ نہ مجھے ہے نا ہی شاید آپ کوبڑے بڑے مزاروں کے گدی نشین دن میں پاکبازی اور رات میں۔۔ انسانیت شرماتے ہیں بات بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔۔اگر آج کا ملاں قوم لوط کی نشانی دکھاتا ہے تو میں نے اس انسان کو بھی دیکھا ہے جس نے سارا دن ملاں کی ذات پر سب و ستم کیااور رات کے اندھیرے چھاگئے تووہ انسان بھی مولانا کی جن حرکات پر تبرا کرتاتھا وہی کرنے لگا۔دیکھتے چلو اْس شخص کو بھی جس نے سارا دن حقوق نسواں کے لیے پْرزورحمایت کی اور اگلے دن اک فقیر بے بس و مجبور عورت کے ہاتھ پہ پانچ روپے رکھتے ہوئے اسے عجیب نظروں کے قہر میں گھیرے رکھا یہی نہیں ہمت اور بھی بڑھی پر کیا کیجئے میں کس کو پاکباز لکھوں مجھے تو خود شرم آتی ہے خود کو اچھا لکھوں گا تو مجھ جیسا انسان اس دنیا میں کوئی نہیں کیونکہ مجھ پہ لکھنا دنیا کا کام ہے نا کہ میرا اور ہاں یہ بات سچ ہے کہ میں تو سب پر لکھ سکتا ہوں نابلکہ میں تو تنقید کرکے سب کی پگڑیاں اچھالتا ہوں اورانسانیت کی دھجیاں اڑا سکتا ہوں دیکھ تو لیا کہ حقوق نسواں پہ بات کرنے والا کتنا شہوت پسند ہے ملاں کی حرکت پہ زمین و آسمان ایک کردینے والا خود قوم لوط جیسی عادت کا کتنا شوقین ہے میں ہر ایک جگہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے گیا ہوں جو مکمل ہو لیکن کوئی مکمل ملا ہی نہیں کوئی مکمل ملتا کیسے اب تماشہ تماشہ نہ لگا اپنا کام کر منہ سنبھال اپنا اتنا تیرا منہ نہیں جنتی تو بات کرتا ہے دنیا کیا ہے اک تماشہ ہے گورکھ دھندہ ہے چال بازی ہے سب تماشہ کرتے ہیں اپنا،اپنی ذات کا اور دوسروں کی ذات کاجو چال بازی سے زندگی گزارے بس وہی آدمی جو ان سب سے پاک وہ بدھو افسوس اب ماتم کیا جائے بیمار دنیا پرمنٹو کی طرح گھسیٹا جائے گلیوں میں تو بہت اچھا ہے پیار محبت سب ختم گورکھ تماشہ چوربازاری منٹو اچھا تھا مر گیا سب کو ان کی ہی نظر میں اب اچھا تو یہی ہے کہ مجھ جیسوں کا امتحان لیا جائے اور دیکھا جائے کون کتنے پانی میں ہے مولوی قوی کو مت دیکھو اسے صرف اک آدمی سمجھومیری سوسائٹی کا ہر بندہ ایسا ہے یہ خیال دل کے تھے جنہوں نے آنکھوں کوسیلاب دئیے یہ دل ہی محو گفتگو تھا جو ضمیر کی ترجمانی میں کبھی سینے کے ایک طرف اور کبھی دوسری طرف اصلاح کے قدم رکھ کر نظروں کو جھکنے سرکو بلند رکھنے اورزبان بند رکھنے کی تلقین کر ررہا تھا۔

Fareed Ahmed Fareed
About the Author: Fareed Ahmed Fareed Read More Articles by Fareed Ahmed Fareed: 32 Articles with 29597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.