روزی بھری ہوئی آواز میں بولی،،،ٹیل می سلمان،،،وائے مام
اِز سو ٹچی اباؤٹ یو،،،
سلمان نے خالی بے معنی نظروں سے روزی کو دیکھا،،،اس کی مسکراہٹ اس
کے لبوں کو چھونے لگی،،،
پتا نہیں میڈم،،،میں لوگوں کی محبت اور نفرت کے درمیان کے فاصلوں کو
ناپنے کے ہنر سے نا آشنا ہوں،،،
بس جو مل جائے،،،میسر ہو،،،اس کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہوں،،،
روزی نے ماحول کو سنجیدہ دیکھا تو،،،جانے کیوں اسے سلمان پر رحم سا
آنے لگا،،،یہ کوئی کھلونا ہے،،،جو میں اس سے کھیلتی رہتی ہوں،،،
روزی نے بمشکل خود کو مسکرانے پر مجبور کیا،،،ماتھے پر زور سے ہاتھ
مارکر اپنے مخصوص لہجے میں بولی،،،‘‘سلمان میں تمہاری فلاسفی سے
تنگ ہوں،،،پلیز ڈونٹ یو گیٹ جسٹ لائک آ نارمل ہیومن بینگ،،،
سلمان نے حیرت سے روزی کو دیکھا،،،‘‘پل میں تولا پل میں ماشہ‘‘،،،عجیب
ہے،،،
مجھے جواب مل گیا،،،روزی نے جھٹ سےکہا،،،تمہیں جب بھی یہاں سے
کوئی اچھی جاب ملے،،،تم چلے جانا مگر مجھ سے مشورہ ضرور کرلینا،،،
دوست نہ سہی باس سمجھ کے،،،مے بی ایم بیٹر دِس ٹائم،،،
سلمان مسکرا کر بولا،،،اتنی جلدی تنگ آگئیں،،،ویسے میں اتنا خود غرض
نہیں ہوں،،،
روزی نے خود سیٹ سے ٹیک لگا لی،،،دانت پیس کربولی،،،‘‘میں خود غرض
ہونے بھی نہیں دوں گی‘‘،،،تم اڑ کر دیکھ چکے ہو،،،میرے سامنے بیٹھے
ہو،،،تم اپنی اڑان دیکھنا،،،اور میری پہنچ،،،
سلمان نے روزی کی طرف دیکھا،،،اس کی نظریں سلمان کو تیزی سے پڑھنے
کے ساتھ ساتھ ٹٹول رہی تھیں،،،
سلمان اٹھ کر جانے لگا،،،کہ گفتگو اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے،،،
روزی نے کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں،،،
اسے گلاس ڈور کھلنے کی آواز آئی،،،وہ آنکھیں موندے بولی،،،
کس قدر ستم گر ہے وہ،،،عرصے بعد بھی ستم سے باز نہیں آیا،،،
کیوں گلابی ہوجاتی ہے آنکھ،،،آج بھی سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔۔۔
|