اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے ما بعدجدید تناظرمیں
نئے عہد کی تخلیقیت کے رجحان کے نظام صدیقی بنیادگزار ہیں۔ان کی مایۂ ناز
کتابــــــ ـــــــ’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘‘ پر2016میں
ہندوستانی حکومت کا بڑا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا ہےْ عموماً تنقیدی کتابوں
پر یہ ایوارڈ کم ہی ملاہے۔ اس خصوصی اعزازیافتہ کتاب سے قبل ہی نظام صدیقی
کی تخلیقیت سیریز (سہ ماہی ’’توازن‘‘مالیگاؤں ناسک) اوربعد میں نئے عہدکی
تخلیقیت سیریز کے روپ میں(شاعر ممبئی) ہم عصر اردو ادب نمبر ( جلد
اوّل)،’’نئے موسموں کا پتہ‘‘ (کتاب) سہ ماہی فکرو آگہی،دھلی اور سہ ماہی
’’مباحثہ‘‘ پٹنہ وغیرہ میں خوشبو انگیز اور ثمر بار ہوئی تھی۔پاکستان میں
بھی سہ ماہی’’اوراق‘‘ لاہور ،’’ سمبل‘‘ لاہور اور ’’ادبیات‘‘ لاہور میں کئی
مسبو ط مقالات شائع ہوئے۔ تخلیقیت سیریزمیں ہی سب سے پہلے نظام صدیقی نے
اردو ادب میں ما بعد جدیدیت کو متعارف کرایا تھا۔ مغرب میں ما بعد جدیدیت،
ما بعد ساختیات، رد تشکیل اور قاری اساس تنقید کے ساتھ آگے کا مرحلہ ہےْ
ہمارے یہاں ما بعد جدیدیت، جدیدیت سے آگے کا سفر ہے۔ اس ضمن میں اپنے اہم
اور معنی خیزآر ٹیکل ’’ ما بعد جدید تنقید کے نئے فکریاتی زاوئے میں‘‘ نظام
صدیقی رقمطراز ہیں ــــ:
’’ما بعد جدید تنقید ہمہ رخی روشنی کا مینار ہے۔ ترقی پسندی کا خاتمہ
1953میں ہو گیا۔ جدیدیت اردو ادب پر 1953سے 1970 تک حاوی رہی۔ لیکن آہستہ
آہستہ 1980تک آتے آتے اس نے بھی دم توڑ دیا۔ 1985 تک تو وہ خود حنوط شدہ
دقیانوسیت ، بد ترین عصبیت او ر ادعائیت کے مترادف ہو گئی۔ یہ اپنے کو
محفوظ گھونسلوں میں سمیٹنے کا ایک آسان وسیلہ بن چکی ہے اور ما بعد جدید
منظر نامہ میں نئی فکریات کی تازہ ہواؤں کو روکنے میں یکسر ناکام ہو کر خود
اپنی شکست کی آواز ہو گئی ہے۔ ’’جدید‘‘ اور ’’ معا صر عہد‘‘ میں زمین آسمان
کا فرق ہے۔ معاصر رجحان ما بعد جدیدیت ہے اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
کے ما بعد جدید منظر نامے میں فوری معاصر میلان نئے عہد کی تخلیقیت ہے۔
انسانی فکریات عالیہ میں کوئی حرف اوّل اور حرف آخر نہیں ہے۔ ہیرا کلیٹس اس
روشن ترین لا زوال نقطہ پر اصرار کناں ہے۔ ’’وقت بہتے ہوئے دریا کے مانند
ہے۔ تم ایک ہی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے ، کیوں کہ تازہ پانی کی
موجیں ہمیشہ تمہارے اوپر گزر رہی ہیں۔‘‘
’’معاصر رجحان ما بعد جدید ادب اور تنقید پر ساہتیہ اکیڈمی دہلی درجن بھر
سیمینار کرا چکی ہے۔ اسی قدر اہم اور معنی خیز کتابیں بھی شائع کر چکی ہے۔
تمام کتابوں میں میرے مقالات شامل ہیں۔معاصر اردو شاعری کے موضوع پر 2011
میں منعقدہ ساہتیہ اکیڈمی کے سہ روزہ 20،21 او ر22کے قومی سیمینار میں
اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تنا ظر میں فوری معاصر میلان میں اپنا معنی خیز
بصیرت افروز کلیدی خطبہ ’’نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسری کائنات پڑھ چکا
ہوں۔ اس کا صرف پہلا پیراگراف خاطر نشیں ہو۔ ’’اکیسویں صدی کے عالمی، قومی
اور مقامی سیاق و سباق میں ہر سطح پر نئے عہد کی تخلیقیت کا جشن عالیہ قائم
ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت کا متوازن تیسرا راخ ہے۔ جو ما بعد جدیدیت کے پہلے رخ
کی فکریاتی، علمیاتی،ثقافتی اور غیر جمالیاتی انتہا پسند رخ کی ہر نوعیت کی
مردہ روایت سے یکسر گریزاں ہے اور ما بعد جدیدیت کے نسبتاً دوسرے محتاط،
مثبت، معقول،زندگی افروز اور فن پرور رخ کی زندہ، نامیاتی اور متحرک روایت
کی جستگاہ سے بے محابا زقند بھر کر نئے عہد کے نا قابل تسخیر تحرک سے ہم
آہنگ ہو گئی ہے۔ یہ نئے عہد میں پیدا ہونے والے نئے چیلنجوں، چنوتیوں،
للکاروں اور آزمائشوں کے آشوب آگیں مسائل اور کوائف کو مکمل طور پر یکسر
نئے تخلیقیت افروز اور نئی معنویت کشا زاوئیہ نگاہ سے قبول کر رہی ہے۔ یہ
غیر معمولی معاصر داخلی تنقیدی بصیرت سے منور ہے۔ ان ہمہ رخی مسائل اور
کوائف کی نئی تخلیقی آگہی اور نئے تخلیقی اظہاریہ کی بیباکی کے لیے نئی
جمالیاتی ترجیحات، نئی اقداری ترجیحات، نئی علمیاتی ترجیحات اور نئی
وجودیاتی او عرفانیاتی ترجیحات کے نئے موقفوں،حربوں اور وسیلوں کی تخلیق
میں حتی الامکان کوشاں ہے۔ جو اردو ادب میں بھی یقیناً نئے عہد کی نت نئی
نظمیہ تخلیقیت، غزلیہ تخلیقیت، نئی جمالیاتی ہیتی تخلیقیت اور مختلف نئی
اصنافی تخلیقیت کے بطون سے ہی آہستہ آہستہ نمو پذیر ہو رہے ہیں۔‘‘
(ماہنامہ ’’تمثیل نو‘‘ دربھنگا شمارہ 11 12-ص 28تا 29)
محولا بالا ضخیم تر نو معیار ساز مقالہ ’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی
تخلیقیت تک‘‘ کا آخری مقالہ ہے جو قابلِ مطالعہ اور قابلِ قدر ہے۔ پروفیسر
گوپی چند نارنگ اپنے ادبی مکالمات کے گرانقدر مجموعہ ’’دیکھنا تقریر کی لذت
میں ‘‘ شامل ’’فنی دسترس کے بغیر نروان نہیں‘‘ میں ابرار رحمانی ،مدیر،آجکل
،دھلی کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’بیشک نئی فکریات پر میں پچھلے دس پندرہ برسوں سے مسلسل لکھ رہا ہوں لیکن
ایسے اہل نظر کی بھی کمی نہیں جو نئے مسائل کو خوب سمجھتے ہیں اور انھوں نے
اچھا لکھا ہے۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ پاکستان میں اکیلے وزیر آغا، فہیم
اعظمی، قمر جمیل، ضمیر علی بدایونی اور ہندوستان میں اکیلے نظام صدیقی اور
وہاب اشرفی نے اتنا لکھ دیا ہے کہ نئے مسائل کی طرفیں کھل گئی ہیں۔‘‘
(صفحہ 378)
نظام صدیقی کو تنقید کے نئے منظر نامہ میں غیر معمولی اعتبار، وقار اور
استناد کا درجہ حاصل ہے۔ محولا بالا اعزاز یافتہ کتاب ان کے نئے تازہ اور
نادر پندرہ تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ کتاب مسبوط اور معنی خیز فکریاتی
نوادرات اور 408 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ پروفیسر شافع قدوائی نے تحریر
فرمایا ہے۔ جامع اور فکر آلود بھاری بھرکم مقالات کی فہرست درج ذیل ہے:
1۔ ما بعد جدید تنقید و ادب کا جمالیاتی اور اقداری نظام
2۔ معاصر اردو غزل ـ: نئے تنقیدی تناظر
3۔ نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینہ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ
سازی
4۔ نئے عہد کی تخلیقیت کے آگہی خانہ میں ایڈ ورڈ سعید کی تنقیدی نظریہ سازی
5۔ تخلیقی ترسیل کا بحران اور امکان
6۔ اردو نظم کی تہذیبی تخلیقیت کی نیوکلیائی فوق متنی تنقید
7۔ ما بعد جدید تنقید کا فکریاتی اور جمالیاتی مطالعہ
8۔ اردو افسانہ میں تخلیقیت کا میلان
9۔ اردو ناول میں تخلیقیت کارجحان
10۔ اکیسویں صدی میں خدائے سخن میر انیسؔ کا فکر و فن
11۔ فراقؔ : نئی غزل کا پورڑ اوتار
12۔ اکیسویں صدی میں قرۃ العین حیدر کی نئی افسانویاتی اورناولاتی معنویت
13۔ ندا فاضلی کا نیا اور انوکھا غزلیہ فوق متن
14۔ ایک الف لیلہ ولیلہ نیا ناولاتی اسطور ساز
15۔ نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسری کائنات
یہ پر مغز کتاب صرف ضخامت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ نت نئے موضوع کی
گہرائیوں، پنہائیوں اور بلندیوں، ٹھوس مواد، ترا شیدہ ہیت، نئی تکنیک اور
ترقی یافتہ زبان و بیان کی اسلوبیاتی جدتوں اور ندرتوں کے اعتبار سے ایک
جامع و مانع کتاب ہے۔ جس میں ’’نئے عہد کی تخلیقیت میں‘‘ خصوصی طور پر ما
بعد جدیدیت کے ما تحت رو نما ہونے والے مختلف رجحانات و میلانات بخوبی نظر
آتے ہیں۔ ہر مقالہ نئے اردو شعر و ادب میں پنہاں نئے نئے جمالیاتی،
قدریاتی، علمیاتی، وجودیاتی اور عرفانیاتی ترجیحات کے رموز و افکار کو سورج
آسا عیاں کرتا ہے بلکہ یوں سمجھ لیجیے نئے عہد کی تخلیقیت کے نگار خانۂ
رقصاں میں متعلقہ سخنور نقاد اور ادیب کے ادبی، تنقیدی اور شعری صفات، جہات
اور مضمرات و ممکنات کو اپنے مخصوص تخلیقیت افروز زاوئیہ نگاہ سے غیر
معمولی تنقیدی اکسرے کاری کی فصیح و بلیغ کاوش ہے۔
معاصر اردو تنقید میں نظام صدیقی ایک نئے میلان’’La Novau Age
Creativite‘‘( نئے عہد کی تخلیقیت)
کے نقیب ہیں ۔ جو عالمی ادب کا سب سے زیادہ تازہ کار، نادرہ کار اور توانا
ترین سالم رجحان ہے۔ مختلف مکاتیب کی انتہا پسندیوں کے درمیان نو فکریاتی
اور جمالیاتی توازن کی نشاندہی کرتے ہوئے تخلیقیت پسندی (CREATIONISM) کی
نئی معنویت و اہمیت کو سب سے زیادہ انھوں نے اجاگر کیا ہے:
’’نئے سیاق میں تو پرانا توازن بھی بے معنی، بے مصرف اور بد ترین نوعیت کی
انتہا پسندی کے مترادف ہوتا ہے۔ فکریات اور جمالیات کی مردہ روایت، زندہ
روایت اور حقیقی نئی فکریاتی اور جمالیاتی تخلیقیت نئے عہد 2015 کے اس
بصیرت افروز ــ’’نو مرکزی نقطہ‘‘ کی تلاش نا گزیر ہے۔ جو ’’نیا توزان
پرور‘‘ ہو اور بیک وقت حقیقی آتش رفتہ اور خورشید فردا کا امین ہو۔ زندہ
روایت زمین پر نہایت مضبوطی سے جمائے ہوئے قدم کے مانند ہے اور نئے عہد کی
2015 کی نئی معاصر اضافی تخلیقیت آگے کی طرف اٹھا ہوا قدم ہے۔ دونوں ایک
دوسرے کے لیے لا’بدی ہیں۔ جو نئے تناظر میں جمالیات اور بصیرت+ یات میں
یکسر ’’نئے نواازن‘‘کے متقاضی ہوتے ہیں۔
(ما بعد جدید تنقید و ادب کا جمالیاتی اور اقداری نظام، ص 18)
’’ ما بعد جدید تر تنقید کے نئے جمالیاتی اور اقداری معیار (موٹے طور
پر)(1) باغیانہ ریڈیکل کردار (2) وفور تخلیقیت (3) کثیر معنویات (4) متن کا
لا شعور (5) ادب میں سیاسی اور سماجی معنویت (6) ّ آئیڈو لوجی کی ہمہ گیر
کارفرمائی(7) قاری اور قرأت کا خلّاقانہ تفاعل(8) حسن پارہ کی تمام طرفوں
کی واشگافی ہے۔ نئے تناظر کے اصول حقیقت(REALITY PRINCIPLE) اور اصول
خواب(DREAM PRINCIPLE) کے زائیدہ ان ما بعد جدید ادبی اور فکری معیاروں
قدروں کی نسبت جدیدیت گزیدہ فرسودہ اور منجمد جمالیاتی فکر سے نہیں ہے۔ یہ
یکسر تازہ کار اور متحرک نو جمالیاتی اور نو اقداری فکر ہے۔ مورخ جدیدیت کی
غیر حرکی فکر اور غیر جمالیاتی جبریت کے باعث اردو ادب میں نئی جمالیات اور
نئی اخلاقیات کی نئی تخلیقیت گزار جستجو کا شعوری طور پر فقدان ہے جو
عالمی، قومی اور مقامی نفرت سے بھری نیوکلیائی جنگ کی آتش فشاں پر کھڑی
پرانی دنیا کے متبادل نئی دنیا کی تخلیق کا پیغام دے سکے۔
ما بعد جدید تر تناظر میں بھی انسان برقی سرعت سے نیا آدمی(NEW MAN) یا
’’نا آدمی‘‘(NO MAN) کے خوفناک انسان کش اور کائنات کش موڑ پر آ پہنچا
ہے۔معاصرسیاق میں نئی قدریں، نیا حسن ، نیا آدمی، نئی دنیا اور نیا انصاف
ہی یکسر غیر مرئی ہے۔ اس لیے آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ نئی فکر، معیار
اور قدر کی بابت سمجھوتہ پرست اور مصلحت گزیدہ روئیے اور برتاؤ کو ختم کیا
جائے اور ہر نوعیت کے تنظیم پرور اور فرقہ پرست فکری اور فنی جمود سے بے
محابا نبردآزما ہوا جائے جو اکثر روایت(ادبی فرقہ واریت یا مردہ روایت) کے
مترادف ہے۔ ان کے بر خلاف اپنے مقامی ،قومی اور عالمی منظر نامہ سے جڑ کر
اپنی عظیم تر زندہ اور متحرک روایت کی روشنی میں ما بعد جدید تر معاشرہ کی
(نو زائیدہ اور پروردہ) نئی عہد کی تخلیقیت کی پرورش کی جا سکے۔‘‘
(نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینۂ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ سازی،
ص: (88
میں نے مذکورہ بالا اقتباس کتابی سلسلہ ’’پہچان‘‘ (6) شمارہ الہ ا ٓباد سے
لیا ہے۔ یہ 2003 میں شائع ہوا ہے۔ میں ایک اور طویل تر اقتباس اس جامع اور
مانع لافانی مسبوط مقالہ سے لینے پر اپنے کو مجبور پا رہا ہوں، یہ نئے عہد
کی تخلیقیت کے منائع نور پر بھرپور روشنی مرکوز کر رہا ہے۔ نظام صدیقی کی
بصیرتوں کی دنیا بے حد وسیع اور رفیع تر ہے۔ انھیں نئی فکریات اور تخلیقیات
کے نت نئے وسیلوں سے اپنی بصیرت+ یات کو تخلیقی ترسیل کا جامہ پہنانے میں
ید طولیٰ حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے اس فاضلانہ آرٹیکل میں عمیق اور رفیع ترین
غیر معمولی تنقیدی شعور و آگہی اور بیباکی کی جو مشعل فروزاں کی ہے۔ وہ
ابدی قدر و قیمت کی حامل ہے۔ ان کی غیر معمولی رفیع تر تنقیدی افکار عالیہ
کی تازہ کاری معتبر، مستند اور موقر ہے۔مندرجہ ذیل تنقیدی اور تحقیقی شہہ
پارہ میں نوعلمیاتی،وجودیاتی اور عرفانیاتی پس منظر میں جین مفکر اعظم
مہابیرؔ کی یگانۂ روزگار طبعزاد منطق کی سات سیڑھیوں کی موشگافیاں قابل
مطالعہ ہیں اور ژین کے جوہر اصل ’’شونیہ‘‘ کے سیاق میں نئے عہد کی تخلیقیت
کے بیکراں تجلئی اعظم کا مکاشفہ متحیر کن اور روشنی بخش ہے۔ خاطر نشان ہو:
’’نئے عہد کی تخلیقیت سب سے زیادہ نو متوازن، جامع اور مانع ایک تنقیدی
مستقبل نما اور غیر معمولی دانشورانہ تنقیدی بصیرت کا معنی خیز اعلامیہ ہے
جو اول و آخر تخلیقیات(CREATRICS) کا نقیب و امین ہے اور صحیح معنوں میں
تدریسی تنقید کے منشیانہ اور محررانہ رجحان کے بر خلاف زندہ، نامیاتی اور
متحرک تخلیقی تنقید کے حکیمانہ اور عارفانہ آفاق کی نشاندہی کر ہا ہے اور
نئے تناظر میں نئے
علم الحسن(KALOLOGY)، نئے علم القدر (AXIOLOGY)، نئی
علمیات(EPISTEMOLOGY)اور نئی وجودیات اور عرفانیات(ONTOLOGY)کی نت نئی
متنوع اور بو قلموں جہات کو روشن کر رہا ہے۔ یہ مقامی، قومی اور عالمی
زلزلوں اور دہشت انگیزیوں میں بھی بیک وقت نئی انسانیات(HUMANITIES) نئی
ثقافت+یات اور قدریات کی بحالی اور نئی جمالیات، تخیلات اور ادبیات کی
بحالی کا علمبردار ہے۔ یہ بیک وقت زندگی کی اکبری ساخت اور فن کی اصغری
ساخت میں نہایت محبت اور بصیرت کے ساتھ تخلیقی مداخلت بھی کرتا ہے اور
مستقبل آ فریں مزاحمت اور مقاومت بھی اور ممکنہ سالم و ثابت دنیاؤں کی
تخلیقیت افروز نشان دہی بھی کرتا ہے اور بے محابا کار ٹیزین ورلڈ ویو
(نظریۂ عالم) کو ردّ کر (HOLISTIC WORLD VISION) ’’سالم نظر ئیہ عالم‘‘ کی
تخلیق، تشکیل اور تعمیر کرتا ہے اور بیک وقت ریزہ کار خارجیت(OBJECTIVITY)
اور پارہ پارہ داخلیت(SUBJECTIVITY) کا ارتفاع کر(OMNIJECTIVITY) ہمہ رنگی،
ہمہ جوئی اور ہمہ کشفی تجربہ کے نت نئے مکاشفاتی اور تخلیقیاتی
عمل(CREATRICAL PROCESSES) سے گزر رہا ہے۔ یہ نو تخلیقیت کا نیا زندگی پرور
اور نیا فن پرور عہد ہے جو ہمہ لذت کوش اور ہمہ معنویت کوش نو امکاناتی
پیراڈائم (ماڈل) ہے۔ یہ زندگی، فکر و فن کے پرانے یک رنگ اور یک جہت فطعیت،
کُلیت، ادّعائیت اور مطلقیت پسند ماڈلوں کی ردّ تشکیل کرتا ہے جو (1) پرانی
برف پوش ارسطوئی منطق (2)پانی آسا سیّال آئنسٹینی اضافیائی منطق(3)نئی بھاپ
آسا یا دھند آسا لطیف ترین غیر ادّ عائیت پسند منطق (FUZZY LOGIC) پر قائم
و دائم ہے جو ’’جہانِ دیگر‘‘ کو نشان زدکرتی ہے۔اس کی جڑیں بیک وقت مہابیرؔ
کے (ـــL;krokn)․’شاید و بایرپن‘‘ کے ابعاد (PROBABLISTIC DIMENSION)ژین
(بدھ دھرم کے جوہر اصل کے اندر پوشیدہ ہے) یہ روز مرہ، محاورہ یا عام سوجھ
بوجھ(COMMON SENSE) پرمبنی ’’سیاہ اور سفید‘‘ اور ’’مطلق صحیح اور غلط‘‘ کے
بجائے درمیانی رنگ کے خاکستری کردار کے علاوہ انسانی تکلم کے درمیانی دعوں
اور اظہاریوں’’کچھ حد تک صحیح‘‘ اور ’’کچھ حد تک غلط‘‘ کے سات لطیف تر
سطحوں اور ساختیوں کے متبادلات تک پھیلی ہوئی ہیں جو بالآخر ’’شونیہ‘‘
(فنانفی اﷲ ) میں تحلیل ہوتی ہیں۔ یہ باطن عینی ہی حقیقی تخیلات کا منبع
نور ہے۔ (باقی باﷲ) اس کے آگے رفیع تر باطن عینی سِرّ الاسرار (سِرّ اخفیٰ)
ہے۔ یہ نئے عہد کی تخلیقیت کا بیکراں ’’تجلیّ اعظم‘‘ ہے جو الفس و آفاق میں
محیط ہے۔ کنزالحسن و قدر ہے۔ نت نئے حسن و قدر کا پوشیدہ خزانہ ہے۔مظہریت
کا علمبردار ہوسرل اس خورشید نیم روزی حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ ’’کامن
سینس‘‘نے نئے انسان کو اندھا کر دیا ہے، حقیقت ہر گز وہ نہیں ہے جو نظر آتی
ہے۔‘‘
ہیں کو اِکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
(غالبؔ)
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں فلسفۂ معنی ہو یا فلسفۂ حقیقت، فلسفۂ حسن
ہو یا فلسفۂ قدر ان کا سارا ارتقاء و ارتفاع اس رمز میں ہے کہ حقائق وہ
نہیں ہیں جو نظر آتے ہیں۔‘‘
’’فکر وفن کے مسائل آخری تجزئے (ULTIMATE ANALYSIS) میں انسانی اور اخلاقی
مسائل ہوتے ہیں۔ جمالیات،اخلا قیات کا دائرہ(PERIPHERY) ہے اور
اخلاقیات،جمالیات کا مرکز ہے(CENTRE)ہے ۔ ہر نئے عہد میں ان کی اساس پر نئے
اقداری اور جمالیاتی رویے اور نئے فکریاتی اور حسنیاتی طریق کار کا رونما
ہوتے ہیں۔ نئے عہد کی تخلیقیت کا قالب، ما بعد جدید تر جمالیات، قلب وسیع
تر اخلاقیات اور روح غیر مشروط وسیع تر بصیرت یات یا نوری روحانیات ہے۔‘‘
نئے عہد کی تخلیقیت کی بوطیقا ’’نئی تخلیقیت پسند شعریات‘‘ نظام صدیقی کی
معرکتہ الآرا ایک موضوعی کتاب ہے۔ جو اردو ادب میں ایک نیا معیار قائم کر
گئی ہے۔ یہ متحیر کن اور نو شعور و آگہی ساز تصنیف سہ ماہی توازن مالے
گاؤں،ناسک، سلسلہ نمبر 11-12 مکمل طور پر 300صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے دیدہ
زیب ٹائٹل کور کی پیشانی پر نظام صدیقی کی تصویر کے نیچے بہ طور خاص مصور
سلطان سبحانی نے نیلگوں آسمان کی شعریات اور زعفرانی زمین کی شعریات کے
درمیان چشم وجدان اور بصیرت کی پتلی کے تل کو سبز دائرۂ نور میں منقوش کیا
ہے۔ اس کے زیریں ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ گراں قدر رائے مرقوم ہے۔
’’ نظام صدیقی کا تحیر انگیز مطالعہ بہت وسیع اور یکسر غیر جانبدار نظر بہت
گہری اور نئی ہے جو کسی چیز کو مِس نہیں کرتی ہے جو قابلِ قدر ہے۔ یہ دور
بیں اور تہہ شناس زاویہ نگاہ اور ذوق سلیم ایک بڑی عمودی تنقیدی جست ہے جو
جدید تر اردو تنقید کو ایک نئے اور کشادہ ترین مدار میں داخل کر گئی ہے۔‘‘
سہ ماہی ’’توازن‘‘ کے مدیر اعلیٰ مرحوم عتیق احمد عتیق نے اپنے پر مغز
اداریہ ’’سخن در سخن‘‘ میں لکھا ہے:۔
’’جناب نظام صدیقی اردو کے ایک معتبر ادیب اور اوریجنل نقاد ہیں جن کا ایک
ایک لفظ ادب کے ہمہ جہتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ایسا اعماقی تخلیقی
ساختیہ ہوتا ہے جو جدیدیت، ما بعد جدیدیت(مع ساختیات، ما بعد ساختیات، ردّ
تشکیل اور قاری اساس تنقید) سے آگے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ کی تازہ،
مبسوط و مدلل تنقیدی کتاب ’’نئی تخلیقیت پسند شعریات‘‘ کے بغور مطالعہ سے
ان کے وسیع تر ذہنی افق اور فکر رِسا تک بآسانی جست لگائی جا سکتی ہے یوں
تو تخلیقیت سیریز کے سلسلہ کا ان کا ہر مقالہ بر صغیر ہند و پاک میں جس نے
بھی پڑھا۔ وہ متاثر ہو کر رہا اور مسخر بھی۔ لیکن متذکرہ تنقیدی صحیفہ کی
بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ نقد و نظر کے لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہی
نہیں،قرار واقعی ایک نئی راہ نما کتاب ہے۔ جس کے مکاشفاتی نکات کا حوالہ
ادب میں ہمیشہ دیا جاتا رہے گا۔‘‘
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی اس تنقیدی کتاب کی بابت اپنے تنقیدی تعارف نامہ
کچھ اس نقد عالیہ کے بارے میں رقمطراز ہیں جو سات صفحہ پر مشتمل ہے۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سہ ماہی توازن کے مدیران میں شامل تھے۔
’’نظام صدیقی نے دنیا سے جو کچھ بھی لیا ہے۔ ان سب کو مع سود اس ہمہ جہت
کوش اور مرکز شناس نقد عالیہ میں احسن طور پر واپس کر دیا ہے اور اردو ادب
میں باقاعدہ نئے عہد کی تخلیقیت کے میلان کی واضح طور پر تن تنہا تخلیق،
تشکیل اور تعمیر کر دی ہے۔ یہ اردو ادب میں اکیسویں صدی کے ربع اول کا سب
سے اہم، دور رَس، معنویت آگیں اور حسن پرور واقعہ ہے جس کے درخشاں نتائج
پوری اکیسویں صدی پر بھی محیط ہوں گے جس طرح حالیؔ کے ’’مقدمہ شعر و
شاعری‘‘ کے غالبؔ خفی اور جلی اثرات کسی نہ کسی شکل میں بیسویں صدی پر محیط
رہے ہیں۔ صاحب کُن ’’اﷲ‘‘ کے سوا کون ہے؟ یہ صدف بھی ابر نیساں کا زیر بار
ہے بقول علیم و حلیم نظام صدیقی کے،وہ تو محض وسیلۂ الٰہی رہے ہیں۔ خدا ان
سے اس کتاب کی شکل میں بہا اور برسا ہے۔ ’’وہ ہیں ہی نہیں!‘‘ علاوہ ازیں
انھوں نے خصوصی طور پر اطلاقی تنقید(APPLIED CRITICISM) کے رفیع ترین نمونے
’’اردو افسانے میں تخلیقیت کے میلان‘‘ اور ’’اردو ناول میں تخلیقیت کے
رُجحان‘‘ میں نہایت عالمانہ حلیمی سے پیش کیے ، جن کی بات دانائے روزگار
ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر ظ
انصاری، جوگندر پال، مظہر امام اور فضا ابن فیضی کے علاوہ ہند و پاک کے بہت
سارے اکابرین ادب ایک ساتھ رطب السان ہوئے ہیں۔‘‘
نظام صدیقی کا رفیع تر اطلاقی نقد پارہ ’’اکیسویں صدی میں خدائے سخن میر
انیسؔ کا فن (نئی تھیوری کی روشنی میں)‘‘ انیسیات کے ضمن میں غیر معمولی
طور پر قابل ذکر و فکر ہے۔ اس کی اطلاقی اوریجنیلٹی (طبعزادگی‘‘ خاطر نشیں
ہو، جو آنکھوں کو خیر گی ہی نہیں نئی شعری معرفت بھی عطا کرتی ہے:
’’میر انیسؔ کی عظیم الشان رثائی تخلیقیت در حقیقت (1) صوتی تخلیقیت (2)
صرفی تخلیقیت (3)مخوی تخلیقیت (4) معنویاتی تخلیقیت (5) بد لیعیاتی
تخلیقیت(6) کیفیاتی تخلیقیت (7) عروضیاتی تخلیقیت کے سات آسمانوں سے منور
ہے۔ تاہم ان سب کا اولین عرشی نصب العین میر انیسؔ کے رثائی حسن پارہ میں
روح گداز درد، غم و الم اور کیمیا تاثیر ہی ہے جو حاصل مرثیہ ہے۔پھر ’’درد
کی باتوں‘‘ کے موزوں اور مترنم اظہاریہ کے لیے اَطناب کی شاعری کے توازن پر
قدرت ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں حسن کار انیسؔ اور مرثیہ نگار انیسؔ دونوں ایک
دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے پوری زندگی ہمدم اور ہمسفر رہتے ہیں اور با
لآخر ہم روح اور ہم جان ہو جاتے ہیں اور ’’انیسیات‘‘ وجود پذیر ہوتی ہے۔
ادب میں ایک انچ کا اضافہ صدیوں میں ہوتا ہے۔‘‘
نظام صدیقی کی اطلاقی تجزیہ نگاری کا ایک فقید المثل تنقیدی شہہ پارہ
’’فراق : نئی غزل کا پورڑ اوتار‘‘(نئی تھیوری کی روشنی میں) نہایت درّاک
اور بصیرت افروز ہے۔ اس کی غیر معمولی فلسفیانہ سنجیدگی اور نو فکریاتی
گہرائی اور گیرائی قابلِ مطالعہ ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
فراقؔ کی ذات میں بحر وجود میں ہاتھ پیر ڈھیلا کرکے اپنے آپ کو چھوڑ دینے
کی وہ فطری دھیان (MEDITATION) صلاحیت تھی جس کے استغراق کے باعث بیک وقت
حسن آفریں اور معنی آفریں اشعار آپ ہی آپ ڈھلتے چلے آتے تھے یا فراقؔ کا
وجود کیمیا تاثیر اشعار کی بالائی ساخت اور زیریں ساخت مین ڈھلتا جاتا تھا۔
معمولی سے معمولی واردات کی اکائی میں صفروں کی قطاریں لگ جاتی تھیں۔
افلاطون نے کہا ہے’’لکیر ایک بہتا ہوا نقطہ ہے۔‘‘ فراقؔ نے ’’الہام نما‘‘
کی اپنی ایک مفکرانہ رباعی میں تخلیقیت کے رمز کو بڑی فصاحت اور بلاغت سے
منکشف کیا ہے:
ہر بات کا ہو چلا ہے ساقی بستار
سنسار اپنی حدوں کو کرتا چلا یار
فراقؔ کی انوکھی فنکارانہ شخصیت، فکر و فن اردو ادب کا سب سے بڑا انصمام
ضدّین(THE UNITY OF OPPOSITES)ہے ۔ یہی ان کا بنیادی تخلیقی شعری مزاج
(OXYMORONISH POETIC TEMPARAMENT) بھی ہے۔ وہ ایک طرف کلاسیکی غزل کے آخری
بڑے شاعر ہیں۔ دوسری طرف وہ جدید غزل کے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ وہ بیک وقت
اپنی زندہ روایت اور درخشندہ و پائندہ تخلیقیت کا گوری شنکر ہیں۔
نظام صدیقی سب سے پہلے قرۃ العین حیدر کو نہایت تنقیدی دیانت داری سے ما
بعد جدید فوق افسانوی اور ناولاتی حقیقت نگاری (META FICTION) اور ما بعد
ساختیاتی تانثیت(POST STRUCTAL FEMENISM) کی بھی حقیقی بڑی پیشرو تسلیم
کرتے ہیں۔ ترقی پسند سر براہ ناقد محمد حسن کو ہمیشہ یہ اعتراض رہا کہ وہ
آخر کب تک تقسیم کے مسئلہ کو لے کر افسانے اور ناول لکھتی رہیں گی۔جدیدیت
پسند ناقد فاروقی ہمیشہ معترض رہے۔ قرۃالعین حیدر کی بابت میری رائے ذرا
مختلف ہے اور یہ جو آپنے فرمایا اس عہد کی تخلیقی کشاکش کا اظہار ان کے
یہاں ملتا ہے۔ وہ فراوانی سے نہیں ملتا اور ملتا بھی تو ہے۔ NARROW VISION
کا شکار ! زبان کے معاملہ میں LOOSE WRITINGبہت ملتی ہے۔ ان دونوں کے
برخلاف اپنے مبسوط تر بھاری بھرکم مقالہ ’’اکیسویں صدی میں قرۃ العین حیدر
کی افسانوی اور ناولاتی معنویت‘‘ میں نظام صدیقی نہایت بصیرت آفریں اسلوب
میں رقمطراز ہیں:
’’قرۃالعین حیدر کا ایک اور نیا فکریاتی اور جمالیاتی بعد قابل توجہ اور
قابل مطالعہ ہے۔ ان ناولٹوں، طویل افسانوں اور بیشتر مختصر افسانوں کے
علاوہ ان کے ناولوں تک مین پدرانہ اور مردانہ معاشرہ میں عورت کی تقدیر
عورت کی صنف (SEX) نہیں بلکہ بطور جنس(GENDER عورت کی ثانوی حیثیت، عورت کے
وجود کے داخلی اضطراب، ذہنی آشوب ، احساس تنہائی۔ جذباتی جلا وطنی، روحانی
بیگانگی، دنیا کی نصف نسوانی آبادی کو قائم بالذّات تسلیم نہ کیے جانے کے
بے پایاں کرب، نسائی مجبوری،استحصال، بے بسی، مردوں کے بنائے ہوئے خایہ
اساس آئینی اصول و ضوابط لی رحم اساس غلامی ،لا متناہی انتظار کی کیفیت، پس
پائی، نسوانی طرز احساس اور تانیثی صورت حال کو نئے نسوانی نقطۂ نظر سے
نہایت فنکارانہ دل آویزی، جمالیاتی لطافت، نزاکت اور بلا کی تاثر انگیزی کے
ساتھ انھوں نے منعکس کیا ہے۔ ان افسانوی اور ناولاتی تخلیقات میں
تانیثیت(FEMINISM) کے مختلف نئے زاوئے کار فرما نظر آتے ہیں۔ جو محض روشن
خیال مشرقی تانیثیت(LIBERAL FEMENISM) تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ کامل
باغیانہ تانثیت(RADICAL FEMENISM) کے حامل کردار دیپالی سرکار،یاسمین مجید،
ناصرہ، نجم الّسحر اور اوُما رائے بھی ’’آخری شب کے ہم سفر‘‘ مین ملتے ہیں۔
جو ان کے دوسرے اہم ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ،’’گردش رنگ چمن‘‘،’’چاندنی بیگم‘‘
اور ’’میرے بھی صنم کانے‘‘ وغیرہ میں معدوم ہیں۔ یہ تمام اہم نسوانی کردار
اپنے انقلابی تیور،مزاحمت اور مقاومت پرور ’’ مثبت روئے‘‘ اور پیش قدمی کے
باعث جاذب توجہ اور قابلِ احترام معلوم ہوتے ہیں۔ ما بعد ساختیاتی تانثیت
اور اسلوبیاتی ردّ تشکیل کا ایک قابلِ تجزیہ افسانوی پیشکش ’’سیتا ہرن‘‘ کی
سیتا میر چندانی کی کردار نگاری میں دستیاب ہوتا ہے جو غالب مردانہ ساخت
شکنی کا اعلامیہ ہے۔ ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ کا یہ لازوال افسانہ اردو
افسانویات یا ناولیات میں عورت کو مکمل خودمُکتفی آزاد، بالادست یا مساوی
حیثیت سے پیش کرنے کی انقلابی جرأت عارفانہ ہے جو مرد کرداروں کے سہارے کے
بغیر زندہ رہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور مردانہ بالادستی کو اپنے پیروں کی
زنجیر سمجھتی ہے۔ یہ سفاک حقیقت ہے کہ مستحکم مردانہ تسلط بیشتر عورت کو
اپنی ذات کی تلاش، دید و یافت، ہمہ پہلو ارتقا اور ہمہ جہت ارتفاع میں مانع
ہوتا ہے جو اس کو علاحدہ سے امتیازی شناخت عطا کرتا ہے۔‘‘
’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘‘ کے پیش لفظ میں خود نظام صدیقی
روشنی ڈالتے ہیں:
’’میری تنقیدی پیش کش ’’ما بعد جدید ادب‘‘ میں سب سے پہلے مغربی رخ،پھر
اردوئی ما بعد جدیدیت کے دوسرے رخ اس کے بعد آخیر میں ’’نئے عہد کی
تخلیقیت‘‘ کے تیسرے رخ کی نشاندہی کی گئی ہے جو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
کے ما بعد جدید تناظر میں نیا اصول حقیقت اور نیا اصول خواب ہے۔ ان مقالات
میں حسب توفیق اور حسب ضرورت قومی سیاق و سباق میں نئی تھیوری (فلسفۂ ادب)
کی بیشتر جہات روشن اور منوّر ہوئی ہیں۔‘‘
(ص ::7)
نظام صدیقی کی اس مائیہ ناز کتاب میں نو بہ نو تنقیدی بصیرت کا انتہائی اور
منتہائی نقطہ ملتا ہے۔ نئی ثقافتی بازیافت، نئی لبرل ازم اور ہمہ رخی
تکثیریت کی اضافی دید و یافت کا نیا اقداری مخاطبہ ملتا ہے۔ اس ضمن میں
’’نئے عہد کی تخلیقیت کے آگہی خانہ میں ایڈورڈسعید کی تنقیدی نظریہ سازی‘‘
معرکتہ الآرا مقالہ ہے جو قابلِ ذکر و فکر ہے۔عالمی ما بعد نو آبادیاتی عہد
میں ’’مخالف استعماریت پسند ادب‘‘(ANTI IMPERIAL LITERATURE)کے حوالے سے
ایڈورڈ سعید، ہومی بھابا اور گائتری چکرورتی اسپیواک نے ایک مشرقیت پسند
تحریک چلائی۔ اس میں مشرقی ادب کی قدر و قیمت کو بحال کرنے کی باقاعدہ ایک
منظم کوشش ہوئی۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’مشرقیت
پسندی‘‘(ORIENTALISM) میں اس سفاک حقیقت کو برافگندۂ حجاب کیا تھا کہ مغرب
مشرقی ادب کو قطعاً تسلیم نہیں کرتا ہے اور اپنی ثقافتی بالادستی کو قائم
رکھنے کے لیے سیاسی مقتدرہ کا ناجائز استعمال کرتا رہا ہے۔ گائتری اسپیواک
کا عالمی سطح پر مقبول ترین مقالہ ’’کیا حاشیائی آدمی بول سکتا ہے؟(CAN THE
SUBALTERN SPEAK)اس مقالہ میں اسپیواک نے عالمی تناظر میں مغربی ادبیات کا
محاسبہ کرتے ہوئے سیاسی دلائل سے اس سفاک ترین حقیقت کو بھرپور طور پر
منکشف کر دیا ہے کہ دنیا کے ہر ادب میں ذہنی تعصبات اور منفی تاثرات کے
عناصر غالب رہتے ہیں۔ اسپیواک نے اس بے رحم حقیقت پر زور دیا ہے کہ قبل نو
آبادیاتی نظام میں ہمیشہ اس امر پر غالب توجہ مرکوز رہی ہے کہ آیاہم (ہم سے
مراد مغربی ناقدین) اس بات پر آمادہ ہیں کہ طبقاتی کشمکش ادب کا ناگزیر حصہ
ہو۔
’’نئے عہد کی تیسری کائنات کی شعری تخلیقیت‘‘ میں نظام صدیقی نے مشرق کے
قبلہ کو صحیح معنوں میں ’’قبلہ نما‘‘ بنا دیا ہے جس سے ہم بیک وقت اپنے
مشترکہ مشرقی ہندوستانی، قومی اور ثقافتی وجود کی رمزوں کی طرف متوجہ ہونے
کی زبردست ذہنی تحریک پاتے ہیں اور نئی انسانیات، نئی ہندوستانیات، نئی
پاکستانیات ہی نہیں نئی مشرقیات کے عظیم تر رُویا (وِیژن) کی نو دید و یافت
میں کامران ہوتے ہیں۔
’’ندا فاضلی کا نیا اور انوکھا غزلیہ فوق متن ‘‘ نئی اطلاقی تنقید کا
جمالیاتی مینا خانہ ہے۔ ’’معاصر اردو غزل: نئے تنقیدی تناظر‘‘ میں بیک وقت
نئی فکریاتی اور نئی اطلاقیاتی نقد پارہ کے امتیازات کو ما بعد جدید
تخلیقیت پسند شعرا کے کلام کے استشنادی شہادتوں کی روشنی میں منوّر ترین کر
دیا گیا ہے۔ انھوں نے بھر پور طور پر نشاندہی کی ہے کہ معاصر غزلیہ شاعری
نئی اضافی تخلیقیت، نت نئی معنویت،نت نئی عصریت اور نت نئی فنیت سے لبریز
ہے۔مافیہ اور مواد کی سطح پر بھی اس کے قلب میں عا لمیت، قومیت اور مقامیت
کار فرما ہے جس کے باعث نئے معانی و مفاہیم کا چراغاں ہو رہا ہے۔ ’’تخلیقی
ترسیل کا بحران اور امکان‘‘ متنازع فیہہ موضوع پر بے مثل اولین مقالہ ہے۔
جس میں پہلی بار ترسیل کی ناکامی کا رونا نہیں رویا گیا ہے۔ جو جدیدیوں کا
وطیرہ رہا ہے بلکہ لفظ کی تخلیقی وحدت اور اس کو پاش پاش کرنے کی استبدادی
کاوشوں کا نئی تخلیقیت افروز اطلاقی تنقید کی ایکسرے کاری میں بھرپور طور
پر محاسبہ کیا گیا ہے۔ اردو افسانہ میں تخلیقیت کے میلان‘‘،’’اردو ناول میں
تخلیقیت کے رجحان‘‘ میں پہلی باربیانیات (NARRATOLOGY) اور متنیات
(TEXTOGRAPHY) کی حرکیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ خصوصی طور پر اردو ناول
میں1932- 1947 اور 1950-1983سے تاحال تک کے ناول نگاروں مشرف عالم ذوقی،
پیغام آفاقی،غضنفر سے نواب صادقہ سحر،خالد جاوید اور رحمٰن عباس تک کوما
بعد جدیدیت کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’ما بعدجدید تنقید کا فکریاتی اور جمالیاتی مطالعہ‘‘ عالمی تھیوری کی جنگ
اور تھیوری سازوں کی جنگ کا اطلاقیاتی رزم نامہ ہے۔ ’’اردو نظم کی تہذیبی
تخلیقیت کی نیوکلیائی فوق متنی تنقید‘‘ اور ’’ما بعد جدید تنقید و ادب کا
جمالیاتی اور اقداری نظام‘‘ عالمی اور قومی تناظر میں (1) ترقی پسند فکریات
(2) جدیدیت پسند فکریات(3) ما بعد جدیدیت پسند فکریات کے منظر نامہ کے قلب
میں ’’نئے عہد کی تخلیقیت‘‘ کے ہمہ رخی مینارۂ نور کومحفوظ و مامون کیے
ہوئے ہے۔ ان کی نئی کتاب ’’نئے عہد کی تخلیقیت کا تیسرا انقلاب‘‘ عنقریب ہی
میں شائع ہونے والی ہے۔ نظام صدیقی کی فقیدالمثال عطا کی معرفت اس وقت تک
نصیب نہیں ہو سکتی ہے جب تک ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتابیں:
(1) URDU POETRY: THE CREATIVE LITERATURE
(2) THE NEW ROLE OF THOUGHTS, IDEOLOGIES OF TWENTIETH CENTURY
(3) THE CLARION CALL OF NEW AGE CREATIVITYآپکے مطالعہ کا زندہ اور دھڑکتا
ہوا حصہ نہ بن جائیں۔ ان کی فرانسیسی زبان میں تحریر کردہ کتابیں LE SEL DE
LA TERRE (1) دھرتی کا نمک اور (2) UNMOT (ایک لفظ) قابل ذکر و فکر ہیں۔ ان
کے افسانوں کے مجموعہ ’’شکستہ آئینے‘‘(اس افسانے پر قرۃالعین حیدر نے چار
لاکھ کی نوٹس دی تھی کہ اس میں عینی کو رول ماڈل بنایا گیا ہے)۔ ’’آگ اور
گلاب‘‘ اور ’’ندیا میں لاگی آگ‘‘ ناولٹ خاصے تذکرہ میں رہے ہیں۔ منوہر شیام
جوشی کے ناول ’’کیاپ‘‘ کے اردو ترجمہ اور فرانسیسی ترجمہ پر ان کو بیک وقت
ساہتیہ اکیڈمی ٹرانسلیشن ایوارڈ اور فرانس کا لاموں ٹرانسلیشن ایوارڈ پہلے
ہی مل چکا ہے۔ ان کے مایۂ ناز تنقیدی کارنامے ’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد
کی تخلیقیت تک‘‘ کو کل ہند
بھا رتی سمالوچنا میں اہم ترین یوگ دان مُتفقّہ طور پر مانا گیا ہے۔ اس طرح
یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظام صدیقی کی یہ تمام گراں قدر تخلیقات اردو ادب میں
ایک بے بہا اضافہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭ |