بے روزگاری ہمارے معاشرے کا ایسا روگ ہے جو بے شمار
برائیوں اور طرح طرح کے جرائم پھیلنے کا سبب بن رہا ہے اگر نوجوانوں کو
اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر روزگار بھی فراہم کیا جائے تو جرائم
کی شرح میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے مگر افسوس کہ بے روزگاری کی شرح میں
مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔آج کل جس طرف دیکھئے بے روزگاری کا رونا رویا جا رہا
ہے حا لا ت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کئی نوجوان تو ناموَر تعلیمی اداروں سے
پڑھ کر بھی چہرے پر بے یقینی اور ناکامی کا لیبل سجائے باہر آتے ہیں۔
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی نا ؤ لئے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بے کاری ہے
بے روزگاری اور تنگئی معیشت کا اولین اور بنیادی سبب اﷲ پاک کی ذات پر توکل
نہ کرنا،قناعت بھری زندگی اختیار نہ کرنا اور اسی رب کی نافرمانیوں میں
مشغول رہنا ہے جو بندوں کو رزق دیتا ہے ،تو سب سے پہلے ان اسباب کا ازالہ
کیجئے اور پھر دنیوی اسباب کی طرف توجہ کیجئے۔بے روزگاری کے دنیوی اسباب
بھی بہت ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ کئی لوگ بغیر محنت کے سب کچھ پا لینے
کے خواہاں ہوتے ہیں ،وہ کمائی کا ایسا ذریعہ چاہتے ہیں جس میں انہیں ہاتھ
پاؤں ہلانے نہ پڑیں اور ایک لمحے میں ترقی کے اعلٰی درجے پر پہنچ جائیں
نوکرہاتھ باندھے ان کا حکم سننے کے منتظر کھڑے ہوں اور حکم ملتے ہی جی جان
سے اس پر عمل درآمدشر وع کر دیں ،ایسے افراد پر بلی کو خواب میں چھیچھڑے کی
مثال صادق آتی ہے ۔ یقیناًایسا ہونا بہت مشکل ہے اس لئے خوابوں کی دنیا سے
باہر آئیے اور محنت و لگن کو ہر کامیابی کی بنیاد سمجھئے۔کچھ نوجوانوں کے
بے روزگار ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اعلٰی سے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی
دوڑ میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ پھر کسی چھوٹے موٹے کاروبار یا درمیانے
درجے کی ملازمت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور خوامخواہ اپنے معیار کو اونچا
کر کے کئی ایسے موقعے بھی ضائع کر دیتے ہیں جو ان کی زندگی بدل سکتے تھے ۔بہت
ــــ اچھے کی تلاش میں اچھے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور پھر زندگی بھر
کفِ افسوس (یعنی شرمندگی اور ندامت سے ہاتھ) ملتے ہیں۔
بے روزگاری کی ایک وجہ بہت جلد مایوس ہو جانا بھی ہے یاد رہے کہ سب کو
تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد ایک اچھی ملازمت مل جائے قطعاً ضروری نہیں
مثلاً جب کسی ادارے میں ۱۰۰ افراد مطلوب ہوں تو وہاں دس ہزار(۱۰۰۰۰) بے
روزگار افراد کی درخواستیں جمع ہو جاتی ہیں اور نوکری ملنے والے ۱۰۰ خوش
نصیب افراد کے علاوہ سبھی ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں اور حالات کو کوستے رہ
جاتے ہیں ۔صبروتوکل کا سبق تو انہیں نصاب میں پڑھایا ہی نہیں گیا تھا کہ وہ
اس پر عمل کرتے ،جب کئی مرتبہ کوشش کے باوجود بھی کامیابی نہیں ملتی تو وہ
مایوس ہو جاتے ہیں ۔پھر کئی عاقبت نا اندیش (انجام کی فکر نہ کرنے والے)
خودکشی کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہوئے اس کارِحرام کے مرتکب ہو کر موت کے
منہ میں چلے جاتے ہیں اور کچھ اپنی تمام تر محرومیوں کا قصوروار معاشرے کو
سمجھ کر خونخوار درندے کی طرح بے قصور عوام پر چڑھ دوڑتے ہیں اور معاشرے
میں جرائم کا بازار گرم کرتے ہیں ۔بے روزگاری کا ایک سبب یہ ہے کہ نوجوانوں
کی بہت بڑی تعداد نے سرکاری یا پرائیویٹ نوکری کو ہی بہترین ذریعۂ معاش
سمجھا ہوا ہے ،وہ اس کے علاوہ دوسرے راستے کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ۔مشہور
ہے کے ہنرمند آدمی کبھی بھوکا نہیں مرتاکیونکہ ملازمت تو کسی بھی وقت
ہاتھوں سے نکل سکتی اور آدمی کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیل سکتی ہے لیکن
ہنر ہمیشہ آدمی کے ساتھ رہتا ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت آج
کئی نئے علوم و فنون اور پیشے ہمارے سامنے ہیں ،اچھی نیتوں کے ساتھ انہیں
سیکھنا یقیناً مفید اور بے روزگاری کے سیلاب کو کم کرنے میں بھی مددگار
ثابت ہو گا ۔ |