رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كى مدينہ ميں تشريف آورى حصہ اول

قباء كے مقام پر پندرہ (1) دن قيام كے بعد نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم مدينہ كى طرف روانہ ہوئے ، مكہ سے آپ (ص) كى روانگى اور قبانيز مدينہ پہنچنے كى تواريخ كے بارے ميں مؤرخين كے درميان شديد اختلاف پايا جاتاہے، البتہ اس بات پر سب متفق ہيں كہ ربيع الاول كے ابتدائي ايام ميں آپ (ص) مدينہ ميں داخل ہوئے(2)_

علامہ مجلسى كى تحقيق كے مطابق آپ(ص) يكم ربيع الاول بروز پيرہجرت كے لئے مكہ سے روانہ ہوئے اور بارہ ربيع الاول بروز جمعہ مدينہ پہنچے_ شيخ مفيد كا بھى يہى نظريہ ہے اور بعض نے اس پر اجماع كا دعوى بھى كيا ہے_(3)

ايك روايت ميں ہے كہ آپ (ص) سورج نكلنے سے پہلے مدينہ پہنچے، اس وقت حضرت ابوبكر اور آنحضرت (ص) ايك جيسے سفيد لباس ميں ملبوس تھے جس كى وجہ سے لوگ غلطى سے رسول اكرم (ص) كا گمان كرتے ہوئے حضرت ابوبكر كو سلام كرتے رہے ، جب سورج نكل آيا اور آنحضرت (ص) پر دھوپ پڑنے لگى تو حضرت ابوبكر نے آپ (ص) پر سايہ بنايا تو اس وقت لوگوں نے آپ (ص) كو پہچانا_(
البتہ مذكورہ بالا روايت قطعاً صحيح نہيں ، اس لئے كہ نبى اكرم (ص) بہت سے مؤرخين كى تصريح كے مطابق تپتى دوپہر ميں مدينہ پہنچے تھے _(1)

اگر كہا جائے كہ ان روايات سے مراد شايد يہ ہو كہ مكہ سے آتے ہوئے جب آپ (ص) سيدھے مدينہ پہنچے تو اس وقت دوپہر كا وقت تھا جس كے (فوراً) بعد آپ (ص) قبا كى طرف روانہ ہوئے تو اس كا جواب پہلے گزر چكا ہے كہ اہل مدينہ ہر روز گروہ در گروہ قبا آتے تھے اور آنحضرت (ص) كى خدمت ميں سلام عرض كرتے تھے جس كا مطلب يہ ہے كہ آپ(ص) مدينہ والوں كے نزديك ايك جانى پہچانى شخصيت تھے _ پس يہ دعوى كيسے كيا جاسكتا ہے كہ انہوں نے ابوبكر كو نبى كريم (ص) سمجھ ليا ؟ يہانتك كہ ابوبكر نے آپ(ص) پر سايہ كيا تب انہيں پتہ چلا_

اس سے صرف نظر ، خود نبى اكرم (ص) كى شخصيت ہى آپ(ص) كى پہچان كيلئے كافى تھى ، آپ (ص) كى شخصيت حضرت ابوبكر سے بہت زيادہ مختلف تھي_ چنانچہ جب ام معبد نے اپنے شوہر كے سامنے آنحضرت (ص) كى صفات ذكر كيں تو اس نے فوراً آپ (ص) كو پہچان ليا (2) جبكہ حضرت ابوبكر كى صفات ان كى بيٹى حضرت عائشہ كى زبانى پہلے گزر چكى ہيں، علاوہ ازايں گزشتہ روايات ميں گزرچكاہے كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ جاتے ہوئے راستے ميں نماز جمعہ ادا كى تھى (3) اس سے معلوم ہوتاہے كہ آپ (ص) ظہر كے كچھ دير بعد مدينہ ميں داخل ہوئے كيونكہ مدينہ اور قبا كے درميان كچھ زيادہ فاصلہ نہيں ہے _ اس پر مزيد يہ كہ آپ(ص) ، ابوبكر سے دو سال بڑے بھى تھے _ پس ابوبكر سے ان لوگوں كا يہ پوچھنا كہ يہ لڑكا آپ كے ساتھ كون ہے ؟ (4) يہ كيا معنى ركھتاہے اور كيا ترپن سالہ بزرگ كو بچہ كہا جاتاہے؟ مگر يہ كہا جائے كہ ''غلام'' كا لفظ لڑكے اور بزرگ دونوں كے لئے يكساں طور پر استعمال ہوتاہے_ ليكن يہ سوال پھر بھى اپنى جگہ پر باقى رہتاہے كہ جب انہيں آپ (ص) كى ہجرت كا علم تھا تو ابوبكر سے آپ(ص) كے متعلق پوچھنے كى كيا تك بنتى ہے ؟ جبكہ سينكڑوں لوگ آپ(ص) كے استقبال كے لئے شہر سے باہر بھي '' انت منى بمنزلة ہارون من موسى الا انہ لا نبى بعدي'' جس پر معاويہ خاموش ہوگيا اور اس كا جواب نہ دے سكا (1)_

دوسرا اہم نكتہ :
يہاں ايك قابل توجہ بات يہ ہے كہ جس شخص سے مذكورہ آيت كو منسوب كيا جارہاہے اور امير المؤمنين على (ع) كے فضائل كو جھوٹے دعوؤں كے ذريعہ زبردستى اس كى طرف نسبت دى جارہى ہے وہ ہميشہ على (ع) كے دشمنوں كى مدد كيا كرتا تھا اور جب خلافت كے سلسلے ميں لوگ آپ (ع) كى بيعت كررہے تھے تو اس نے آپ (ع) كى بيعت سے اجتناب كيا تھا(2)_

يہ جو ابن سلام كو اتنى اہميت دى گئي ہے، اس كى شخصيت كيلئے مقام و منزلت كوثابت كياگيا ہے نيز رسول اكرم (ص) اور وحى الہى كى تصديق ميں اس كى پہل كو ذكر كيا گياہے اس سب اہتمام ميںشايد يہى راز پوشيدہ ہے ( كہ وہ دشمن على (ع) تھا)_

شيخ ابوريہ كہتے ہيں كہ يہ ابن سلام( اپنے يہودى مذہب كي) اسرائيلى روايات، اسلامى احاديث ميں داخل كيا كرتا تھا (3) اور يہودى حضرت جبرائيل (ع) كے سخت دشمن تھے_ اور شايد يہى سبب تھا كہ ''و اذ را او تجارة او لہوا انفضوا اليہا'' والى آيت ميں ''لہو'' كى تشريح عبد اللہ بن سلام يوں كرتاہے كہ ''لہو'' سے مراد لوگوں كا دحيہ كلبى كے حسن كى وجہ سے اس كے چہرے كى طرف ديكھنا ہے _ جبكہ روايتوں ميں آياہے كہ حضرت جبرائيل (ع) اسى دحيہ كى شكل ميں آپ(ص) پر نازل ہوتے تھے (4) اور واضح رہے كہ بعض خلفاء بالخصوص حضرت عثمان ، اہم امور ميں اس سے مشورہ كيا كرتے تھے اور وہ انہيں اپنے نظريات كے مطابق مشورہ ديا كرتا تھا_ اسى عبداللہ بن سلام نے حضرت عثمان كے محاصرے كے وقت اس كى زبانى كلامى حمايت پر اكتفا كيا اور اس كى كوئي عملى مدد نہيں كى (1) حالانكہ اس نے جناب عثمان كى عملى مدد كا وعدہ بھى كيا تھا_ اور جب جناب عثمان كا گھيراؤ كرنے والے لوگوں نے عبداللہ بن سلام كے متعلق اسے كہا كہ يہ ابھى تك بھى اپنى يہوديت پر ڈٹا ہوا ہے تو وہ اپنى يہوديت كى نفى كرنے لگا (1) نہ صرف يہ بلكہ ابن سلام ، كعب الاحبار اور يہود و نصارى كے دوسرے زعماء و بزرگان جنہوں نے اسلام كا اظہار كيا تھا وہ اسلامى حكومت كے بہت سے اہم اور كليدى عہدوں پر فائز تھے ، يہ دونوں اشخاص بہت سے اہم امور ميں ا س وقت كے حكمرانوں كے مشير اور معاون ہوتے تھے_ ہم بارگاہ خداوندى ميں دعاگو ہيں كہ وہ ہميں اہل كتاب كى سياہ كاريوں اور مسلمانوں كى سياست ،عقائد، تفسير، حديث ، فقہ اور تاريخ ميں ان كى ريشہ دوانيوں اور اثر گذاريوں كے متعلق ايك مستقل كتاب لكھنے كى توفيق عطا فرمائے 1) البحارج 19 ص 106 از اعلام الورى ، السيرة الحلبية ج2ص55 ، صحيح مسلم كى روايت كے مطابق آپ (ص) نے قبا ء ميں چودہ دن قيام فرمايا ، ان كے علاوہ اور بھى كچھ اقوال موجود ھيں_
2 )ملاحظہ ہو: بحار الانوار ج 58 ص 366 ، المواہب اللدنيہ ج 1 ص 67 اور تاريخ الخميس ج1 ص 337_
3)اس دعوى كے دلائل ملاحظہ ہوں : بحار الانوار ج8 ص 366 و 367_
4)تاريخ الخميس ج1 ص 337 _ نيز مندرجہ ذيل منابع ميں بھى اس واقعہ كا اشارہ ملتاہے; سيرہ حلبيہ ج2 ص 52 ، دلائل النبوة بيہقى ج2 ص 498 و 499 ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 186 نيز ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ابن ہشام ج2 ص 137
1) تاريخ الخميس ج1/ص337 ، 336 و السيرة النبويہ ابن ہشام ج2 ص 137 ، صحيح بخارى مطبوعہ سنہ 1309 ج2 ص 213 و سيرہ حلبيہ ج2 ص 52_
2)تاريخ الخميس ج1 ص 334 و ص 335 ، سيرہ ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 94 و 50 ، دلائل النبوة ج1 ص 279_
3) المواہب اللدنيہ ج 1 ص 67 ، سيرہ ابن ہشام ج2 ص 139 ، تاريخ الخميس ج1 ص 339 ، بحارالانوار ج8 ص 367 نيز دلائل النبوة ج2 ص 500_
4)الغدير ج7 ص 258 كثير منابع سے ، نيز سيرہ حلبيہ ج2 ص 41 و مسند احمد ج3 ص 287

1) البحار ج19ص 121 ، مناقب ابن شھر آشوب ج1ص 185 _
2) روضة الكافى ص 340 _ 339 ، البحارج 19ص 116 _
3) البدء و التاريخ ج4 ص 178 ، وفاء الوفاء ج 1ص 265 ، السيرة الحلبية ج2ص 64_
4) السيرة الحلبية ج2ص64

1) الاصابةج2ص320، الاستيعاب ج2 ص 382 ، مستدرك الحاكم ج3ص13 ، تلخيص مستدرك ذہبى ج 3ص 13_
2) البخارى حاشيہ فتح البارى ج7ص213،212( خود ابن سلام سے روايت) الاصابہ ج2 ص321 ، الاستيعاب (حاشيہ الاصابة )ج 2 ص 382 _
3) اسد الغابة فى معرفة الصحابة ص3 ج 176، صحيح بخارى حاشيہ فتح البارى ج7 ص 97، الاستيعاب حاشيہ الاصابہ ج 2ص383 ، الدرالمنثورج 4ص69 ، روايت ابويعلي،ابن جرير، حاكم، مسلم ، نسائي ، ابن المنذر ، ابن مردوية ، ترمذى ، ابى حاتم ، ابن عساكر وعبد بن حميد_
1) الاصابة ج2ص321 ، الاستيعاب ج2 ص383 ، الدرالمنثور ج4 ص 69 ، روايت از ابن مردويہ ، ابن جرير ، ابن ابى شيبہ ، ابن سعد ابن منذر_
2) الاصابة ج2 ص 320_
3) الاصابة ج2 ص 320 ، فتح البارى ج7ص97
1) تہذيب التھذيب ج 8ص395 ، 392 _
2) تہذيب التھذيب ج2ص394_
3) تھذيب التھذيب ، ترجمة قيس ج 8_
4)الكنى و الالقاب ج1 ص 314 تا 315 ، نيز ملاحظہ ہو: وفيات الاعيان ج6 ص 395 ، 396 ، 400 و 401 و تاريخ الخلفاء ص 348_
5)الكامل ابن اثير ج7 ص 55

1)الكامل ابن اثير ج7 ص 55_
2)مناقب امام احمد بن حنبل ابن جوزى ص 385 و 364 ، احمد بن حنبل والمحنہ ص 190 و حلية الاولياء ج9 ص209 _
3)البداية والنہايہ ج10 ص 316 _
4) الاستيعاب حاشيہ الاصابةج2ص383 ، فتح البارى ج7ص98،درالمنثورج6ص39 ،ابن جرير، عبد بن حميد، ابن ابى حاتم، ابن المنذر روايا ت سے منقول ہيں _
1) الدرالمنثورج 6ص40 ، (عبد بن حميد مكى ) ، فتح البارى ج 7ص98 نيز الاصابہ ج3 ص 471_
2) الدرالمنثور ج 4ص69 ، مشكل الآثارج1ص 137_
3) مشكل الآثار ج1ص137 اس روايت كے مطابق ابن سلام كى شان ميں كوئي آيت نازل نہ ہونے كے بارے ميں سعيد بن جبير نے بھى شعبى كى تائيد كى ہے، الدرالمنثورج 4ص69 ، و ج6ص39 ، 40 ، ابن منذر سے روايت ، دلائل الصدق ج2ص135 ، الميزان ج11ص389_
4) مشكل الآثار ج1ص 139
1) مشكل الآثارج 1ص 137 ، 138، الاستيعاب ( حاشيہ الاصابة) ج2ص 383 ، الدرالمنثورج 4ص69 ، روايات از نحاس، سعيد بن منصور ، ابن جرير ، ا بن المنذروا بن ابى حاتم، دلائل الصدق ج2ص 135 ، غرائب القرآن نيشاپورى ج13 ص 100 (جامع البيان كے حاشيہ پر مطبوع) الاتقان ج1 ص12، احقاق الحق ج3 ص 280 تا 284 ، الجامع الاحكام القرآن ج9 ص 336 نيز ينابيع المودة ص 104 و 103_
2) الدرالمنثور ج4ص69 ، عبدالرزاق اور ابن المنذر نے زھرى سے روايت كى ہے_
3) شواھد التنزيل حسكانى ج1ص307 ، 308 ، 310 ،مناقب ابن المغاز لى حديث نمبر 361 ، الخصائص ص 26 ، غاية المرام ص 357 ،360، ازتفسير ثعلبى والحبرى ( خطى نسخہ) عمدة ابن بطريق ص 124 ، دلائل الصدق ج 2ص135 ، (ينابيع المودة اور ابى نعيم سے منقول )_ ينابيع المودة ص 102و 105 نيز ملاحظہ ہو ملحقات احقاق الحق ج4 ص 362 و 365 و ج3 ص 451 و ص 452 و ج3 ص 280 تا ص 285 حاشيہ اور متن دونوں ج20 ص 75 تا 77 كثير منابع سے ، اور الجامع لاحكام القرآن ج9 ص 336_
4) شواھد التنزيل ج 1ص310 نيز ملحقات احقاق الحق ج14 ص 364_

1) حياة الامام الرضا السياسية از مؤلف و مجموعة الرسائل الخوارزى ا ہل نيشابور كے ليے

1)ينابيع المودة ص 104 نيز كتاب سليم بن قيس_
2)حضرت على (ع) كى بيعت نہ كرنے كے سلسلے ميں ملاحظہ ہو: شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 4 ص 9_
3)ملاحظہ ہو: ابوريہ كى كتب شيخ المضيرہ و اضواء على السنة المحمديہ_
4)ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج1 ص 190
1)مندرجہ ذيل كتب ميں اس كے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانى ج11 ص 444، ص 445و 446 نيز اسى كے حاشيہ ميں از طبقات ابن سعد ج 3 ص 83 ، حياة الصحابہ ج 3 ص 540 ، مجمع الزوائد ج 9 ص 92 و 93 و الاصابہ ج 2 ص 321 _
2)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 223
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284866 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.