والدین کے لیے امید کی کرن

کسی معاشرے کی اخلاقی قدریں دیکھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آیا اس کے آسودہ حال لوگ اپنے معاشرے کے کم خوش نصیب۔ کمزور۔بیمار۔ نادار۔ غریب۔ یتیم۔ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں۔ ایک مہذب معاشرہ یقینا ایسے افراد کے لیے سہارا بنتا ہے جبکہ غیر مہذب معاشرہ ایسے افراد کی مدد کے بجائے انکا استحصال کرتا ہے۔ ہم سب اگر اپنے انفرادی و اجتماعی رویوں پر غور کریں تو ہمیں باآسانی معلوم ہو جائے گا کہ آیا ہم کتنے مہذب ہیں۔ چار سال قبل میرا پانچ سالہ اکلوتا بیٹا برہان ایک حادثے میں فوت ہوا تو میں نے اپنے آبائی شہر کھوئیرٹہ میں سپیشل بچوں کے لیے ایک سکول قائم کیا جس میں سماعت و گو یائی سے محروم بچوں کے لیے پہلے ہم نے اسلام آباد انسٹٹیوٹ آف سپیشل ایجوکیشن سے معلمات کو خصوصی کورس کروائے۔ آغاز میں سپیشل بچوں کے والدین نے بہت خوشی اور دلچسپی کا اظہار کیا مگر آہستہ آہستہ مطالبہ کرنے لگے کہ انکے بچوں کے لیے ہم پک اینڈ ڈراپ کا بھی سکول کے اخراجات پر انتظام کریں جو ہمارے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ بچوں کا تعلق گاؤں سے تھا اور ہر گاؤں کے ایک ایک دو دو بچوں کے لیے الگ گاڑیاں مہیا کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ سپیشل بچوں کی چونکہ تعداد کم تھی اس لیے ہم نے پہلے سے قائم ایک سکول کی عمارت کے اندر سپیشل بچوں کی الگ کلاسیں شروع کیں جہاں ان کے لیے ہر چہز انکی ضرورت کے مطابق الگ رکھی گئی۔ کچھ عرصہ بعد بعض لوگوں نے پروپگنڈہ شروع کر دیا کہ گونگے اور بہرے بچوں کی موجودگی انکے نارمل بچوں کی شخصیت کو متاثر کرے گی جو انکی محض منفی سوچ یا کم علمی کا نتیجہ تھی۔ اسی دوران ایک حاضر سروس ارمی میجر نے بھی میرے ساتھ فون پر سکول کے حوالے سے گفتگو کی اور اس مشن میں دلچسپی کا اظہار کیا لیکن کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا ْ۔ حیرت انگیز طور پر یہ سکول تعاون کے بجائے منفی پروپگنڈے کا شکار ہو کر بند ہو گیا۔ اب گزشتہ دنوں میں مظفرآباد گیا جہاں راحت فاروق ایڈووکیٹ نے ایک رمیڈیل سکول کا وزٹ کروایا۔ یہ بھی مظفرآباد میں اپنی نوعیت کا پہلا سکول ہے جسکا پورا نام HIDDEN PEARLS REMEDIAL ACADEMY ہے۔ یہ سکول سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے لیے نہیں بلکہ ان بچوں کے لیے ہے جنکو سیکھنے اور سکھانے کے لیے عام بچوں کے نسبت استاد کی طرف سے زیادہ توجہ اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایجوکیشنل سائیکالوجی میں اس حوالے سے دو اصطلاع استعمال کی جاتی ہیں : ایک اکانومک اور دوسری ڈڈایکٹک۔ پہلی اصطلاع ان بچوں کے لیے ہے جن کی پوری کلاس کے لیے ایک ہی ٹیچر کافی ہوتا ہے اور دوسری اصطلا ع ان بچوں کے لیے ہے جنکو کلاس سے الگ کر کے انفرادی طور پر یا دو تین بچوں کی مخصوص کلاس بنا کر انکو زیادہ وقت اور توجہ دی جاتی ہے۔ راحت فاروق نے جس سکول کا مجھے وزٹ کروایا وہ دوسری کیٹیگری میں آتا ہے۔ اس سکول کی پرنسپل راولپنڈی کی ایک خاتون ہیں جو اس شعبہ میں بہت اچھا تجربہ رکھتی ہیں۔ انکا سٹاف بھی تربیت یافتہ ہے۔ یہ سکول میرے سکول سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ اس کی عمارت الگ ہے جہاں صرف سلو لرنرز یعنی آہستہ آہستہ اور خصوصی توجہ سے سیکھنے والے بچے ہی ہیں۔ سیکورٹی کا بہت اچھا انتظام ہے اور مطفرآباد شہر کے اندر واقع ہے جہاں آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی مسلہ نہیں۔ یہ یقنینا ان والدین کے لیے امید کی کرن ہے جن کے بچے معمولی توجہ اور کوشش سے عام بچوں کی طرح بھر پور زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ ہمارے معاشرے میں مخیر حضرات کی کمی نہیں جو اس طرح کے سکولوں سے تعاون کر سکیں لیکن بات صرف ترجیحات کی ہے۔ حکومت کی عدم توجہ ناقص منصوبہ بندی اور سرکاری تعلیمی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی وجہ سے عام ادارے بھی بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی ہم حکومت پر زور دیں گے کہ وہ سرکاری سطع پر اگر ایسے ادارے قائم نہیں کر سکتی تو کم از کم جو لوگ اس طرح کے نجی ادارے قائم کرتے ہیں انکے لیے ممکنہ طور پر آسانیاں پیدا کرے تاکہ اس معاشرے میں کوئی بچہ عدم توجہ اور عدم تعاون کی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم نہ رہ سکے۔ پروفیسر مقبول اسد نے میرے بیٹے برہان کے نام سکول کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ انکا ایک بیٹا قوت گویائی سے محروم تھا۔ وہ کوٹلی ایک سپیشل سکول میں داخل تھا جہاں ایک دن وہ شہر میں کھو گیا۔ وہ بول تو نہیں سکتا تھا لیکن لکھ سکتا تھا ۔ اس نے کسی ادمی کو اپنے والد کا نام اور فون نمبر لکھ دیا جس نے پروفیسر صاحب سے رابطہ کیا اس طرح انکا بیتا انہیں مل گیا۔ تعلیمی اہمیت کی یہ ایک زندہ مثال ہے۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.