باتوں سے خوشبو اور کردار سوالیہ نشان؟
(Mahmood Azmi, Islamabad)
کوئی کسی کی بات نہیں سنتا ہاں اگر کوئی کسی کی بات سنتا ہے تو اس لیے کہ اس نے اگلے آدمی کو جواب دینا ہے بلکہ زیادہ باتیں سنانی ہیں اگر ہم ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے سن لیں تو آدھے سے زیادہ تو ویسے ہی معاملات ختم ہو سکتے ہیں |
|
باتوں سے خوشبو اور کردار سوالیہ نشان؟
تعجب ہے کردار جیسا بھی ہو بعض لوگ باتوں کی خوشبو سے محفل جگمگانے میں
مہارت رکھتے ہیں‘بحث و مباحثہ آجکل ایک مشغلہ بن چکا ھے گلی محلہ گاوں شہر
دوکان گھر بیٹھک ڈیرہ ھر جگہ ھر وقت خوب بحث و مباحثہ چلتا ھے موضوع سیاست
ھو مذہبی ھو ذاتی ھو قومی ھو یا بین الاقوامی ہوہر کوئی بحث مباحثہ میں بھر
پور انداز میں شمولیت اختیار کرکے اپنے آپ کو ماہر سنئیر تجزیہ کار ثابت
کرنے کی کوشش میں مگن نظر آتا ھے کوئی کسی کی بات نہیں سنتا ہاں اگر کوئی
کسی کی بات سنتا ہے تو اس لیے کہ اس نے اگلے آدمی کو جواب دینا ہے بلکہ
زیادہ باتیں سنانی ہیں اگر ہم ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے سن لیں تو
آدھے سے زیادہ تو ویسے ہی معاملات ختم ہو سکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہمارے
ہاں بہت اچھے مقررین تو موجود ہیں اچھے سامع موجود نہیں ہیں اور جہاں بھی
بحث و مباحثہ چل رہا ھوتا ھے صرف اور صرف دوسروں پر تنقید کے نشتر برسائے
جا رہے ھوتے ھیں صرف یہ نعرہ لگایا جا رہا ھوتا ھے فلاں خراب ہے تو فلاں
خراب ہے رشوت خوری چور بازاری جھوٹ فریب بد اخلاقی عدم برداشت جیسی چیزوں
کو زیر بحث لاتے ھوئے معاشرہ برا ھونے کا نعرہ لگایا جا رہا ھوتا ہے یعنی
مسجد کے امام سے لے کر موذن مقتدی سے ھوتے ہوئے گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولز
کے اساتذہ طلبہ و طالبات سمیت کوئی اچھا نظر نہیں آتا معاشرے میں موجود ہر
فرد ہمیں برا اور خراب نظر آرہا ھوتا ھے لیکن کہیں بھی ہمیں اپنا آپ نظر
نہیں آتا اور نعرہ بلند کرتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہے زمانہ خراب ہے معاشرہ
بگڑ چکا ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ معاشرہ کس چیز کا نام ہے اورمعاشرے
کو کون بناتا ہے-
اگر ذرا سی توجہ فرمائی جائے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ معاشرے تو افراد سے
بنتے ہیں اور افراد ہم ہیں اگر ہم برے ہیں تو معاشرہ بھی برا ہے ہم اچھے
ہیں تو معاشرہ بھی اچھا ہے ہم لوگ اپنے فرائض تو پورے نہیں کرتے لیکن اپنے
حقوق مانگنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں ہم لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے تو ایک
پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں لیکن قومی مسائل یا قومی مفادات کا صرف نعرہ
لگاتے ہیں اور اپنے ہی مفادات کو قومی مفادات کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی
ہے کوئی بھی شخص قومی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں اجتماعی مسائل یا
اجتماعی مفادات کی صرف بات ہوتی ہے ایک دوسرے کو الزامات کے ذریعے نیچا
دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں برائے مہربانی
اس معاملے کو دیکھتے ھوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کیجئے جسکا آسان حل
ہے کہ ہر فرد اپنا فرض ادا کرنے کی جنگ لڑے دوسروں کے حقوق خود ادا ہوں گے
اور اس طرح معاشرہ ایک مضبوط اور مثبت معاشرہ کے طور پر سامنے آئے گا-
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنا احتساب کرنے کے بجائے دوسروں میں نقائص تلاش
کرتے ہیں اور باتوں سے چراغ روشن کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہرفرد اپنے نفع
اورنقصان کا خود ذمہ دار ہے ہم باتوں سے نہ صرف دوسروں کو خوش اور مطمئن
کرتے ہیں بلکہ یہی خوش گپیاں رفتہ رفتہ ہمارے مزاج کا حصہ بن کر ہمیں درست
سوچنے سے دور کردیتی ہیں اور ایسے میں ہم سوال کا جواب سوال سے دیتے ہیں
اپنی برائی پر بات ہونے پر دوسرے کی بڑی برائی بتاتے ہیں اپنی چیز کو سب سے
اچھی اوردوسرے کی چیز کو بلاتحقیق سب سے گھٹیا قرار دیتے ہیں خودہرمعاملے
میں مظلوم اور دوسرے کو ظالم قرار دیتے ہیں بات کا بتنگڑ بنانے میں تو دنیا
میں ہم یدطولی رکھتے ہیں یعنی کوئی ہمارا ثانی نہیں بات یہاں تک نہیں
ٹھہرتی تو تو سے تکرار تک جاتے ہوئے لمحوں کی دیر نہیں لگتی اور وہ لوگ جن
کو دست وبازو بن کرکام کرنا چاہیے وہ آپس میں دست وگریباں ہوجاتے ہیں‘ اللہ
ہمارے حال پر رحم کرے اقبال نے کیا خوب کہا تھا تجھے آباءسے اپنے ذرا سی
بھی نہیں نسبت کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ- |
|