طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ یا فروغ

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 برس ہوچکے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہم یکساں نظام ِ تعلیم رائج نہ کرسکے۔تمام سیاسی قائدین تعلیم کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہیں اور شد ومد کے ساتھ اس بات کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ تعلیمی شعبے کو فروغ دیئے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا ، یہ دعوی بھی سامنے آتا ہے کہ جب ان کی جماعت برسرِاقتدار آئے گی تو تعلیم اُن کی اولین ترجیح ہوگی اور یکساں نظام ِ تعلیم کے لئے فارمولہ یا پالیسی بنائی جائے گی جس سے امیر و غریب تمام یکساں بہرہ ور ہوں گے۔ مگر حکومتوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے یا وہ اپنی مدت پوری کر لیتی ہیں اور یکساں نظام ِ تعلیم کا خواب دھرے کا دھرا ہی رہ جاتا ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو برطانوی حکمرانوں نے اس خطہ میں طبقاتی نظام تعلیم کا قانون قائم کیا تھا جس کے آتشیں چنگل سے آج تک ہم آزاد نہیں ہوسکے اور وہی نظام جاری و ساری ہے۔ شاید ہمارے حکمرانوں کی نیت اور سوچ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ غریب کا بچہ بھی اُسی ادارہ میں تعلیم حاصل کرے جہاں اُن کے اپنے اور ایلیٹ کلاس کے بچے پڑھتے ہیں۔ یہی نیت اور سوچ ستر برس سے طبقاتی نظام ِ تعلیم کو ختم کرنے کے بجائے پروان چڑھا رہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تین طرح کے نظام تعلیم رائج ہیں۔ ایک وہ نظام تعلیم ہے جو ہمیں برطانوی حکمرانوں سے وراثت میں ملا، جہاں صرف انگریزوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے اور جس میں محکوم قوم کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آج بھی ہمارے حکمرانوں اور سرمایہ داروں نے اسی سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے ، جس میں ایلیٹ کلاس کے بچے پڑھتے ہیں۔ دوسرا نظام وہ ہے جو اسی ایلیٹ کلاس کی ملکیت ہے۔جن میں مڈل کلاس کے لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں۔اور جہاں وہ اپنی اجارہ داری کے بل بوتے پراُن سیبھاری بھرکم فیسیں وصول کرتے ہیں ۔جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کی جڑیں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں کے محلات تک جا پہنچتی ہیں۔ ان جڑوں کو کاٹنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مصداق ہے۔ لہٰذا یہ دوسرا نظام ِ تعلیم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دور ِ حکومت میں اے این پی اور پی پی پی نے نجی تعلیمی اداروں کی بہتات پر قابو پانے کے لئے قانون سازی کی مگر اُسے سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ وطن ِ عزیز میں تیسرا نظام ’’سرکاری سکولوں ‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سرکاری ملازمین کے بچے ان سکولوں میں نہیں پڑھتے۔ اس نظام کی ناقص کارکردگی اورگرے ہوئے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختون خوا کے سرکاری سکولوں کے چپڑاسیوں ، اساتذہ ، ہیڈماسٹروں ، پرنسپلوں ،ڈائریکٹر تعلیم، سیکرٹری تعلیم اور وزیر تعلیم تک کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انہی سکولوں میں لاکھوں کی تعداد میں عملہ تعینات ہے اور یہیں سے ماہانہ اربوں روپے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں لے رہا ہے لیکن ان سکولوں پر عوام کا اعتماد بحال کرانے میں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے۔

گزشتہ دنوں خیبر پختون خوا اسمبلی نے نجی تعلیمی اداروں کو نکیل ڈالنے کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی بل 2017 ء نجی تعلیمی اداروں کے خدشات و تحفظات کے باوجودپاس کر لیا۔ بِل کے مطابق ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین صوبائی وزیر تعلیم ہوں گے اور اس کے ساتھ سیکرٹری تعلیم ، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ، سیکرٹری خزانہ ، ڈائریکٹر محکمہ تعلیم ، نجی سکولوں سے چار نمائندے، والدین کے تین نمائندے اور دو ماہر تعلیم کے علاوہ ایم ڈی ممبران ہوں گے۔اتھارٹی نجی سکولوں کی رجسٹریشن ، نصاب اور پالیسیوں کی نگرانی کرے گی۔ اس کے علاوہ فیسوں کا تعین ‘ سکولوں کی درجہ بندی ( طبقاتی در طبقاتی نظام) ، اساتذہ کی تربیت اور فیسوں میں رعایت اتھارٹی کی ذمہ داری ہوگی۔ کوئی بھی سکول سالانہ دس فیصد سے زیادہ اضافہ کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ اس سارے عمل کی نگرانی کے لئے ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اگر بل کے مندرجات کو تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ طبقاتی نظام کے خاتمے کے بجائے مزید فروغ کا سبب بنے گا۔یعنی سکولوں کی درجہ بندی تھری ، فور اور فائیو سٹار ہوٹلوں کی مانندکی جائے گی۔ جو تعلیم کے ساتھ ایک گھناؤنا کھیل ہے۔اگر حکومت واقعی طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ چاہتی ہے تو پھر نجی و سرکاری تمام سکولوں میں یکساں نصاب کو رائج کرے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق نصاب اساتذہ اور منتظمین مدرسہ کو میسر اُن جملہ حالات و مواقع کا نام ہے جن کے ذریعے مدرسہ میں آنے والے بچوں اور نوجوانوں کے کردار میں تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں ۔
 
Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.