Abstract: The solution to all the problems of Muslims
is only Quran and Hadith, whatever differences between Muslims today or
any false beliefs that are done today is due to leaving the Qur'an and
Hadith.
The Muslim is divided into many sects. Apart from this, Muslims have
considered non-Islamic things as a part of religion, which has increased
the differences and leads to error. In order to avoid these things, the
Qur'an and Hadith should be followed correctly and should understand the
reality of religion. Therefore, deep study of Islam needs to be done and
knowing the causes of differences and error, we must walk on the right
teaching of God.
Keywords: اختلافات، گمراہی، اتباع، قرآن، حدیث، حل۔
امتِ مسلمہ کی پستی و بربادی کے اسباب و عوامل پر اگر غور کیا جائے تو سر
فہرست اس کا سبب باہم اختلاف نظر آئے گا، جس سے اللہ نے بڑی شدت سے منع کیا
ہے ۔ اور کہا کہ باہم اختلاف سے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم کمزور
ہوجاؤ گے ۔لہذا امتِ مسلمہ میں اختلاف کسی صورت میں بھی محمود نہیں۔
بالخصوص جبکہ اس نے نظر و فکر کی حدود کو پھلانگ کر عملی طور پر باہم
انتشار و تفریق کی صورت اختیار کرلی ہو ۔ بات صرف اختلافات کی نہیں بلکہ
امتِ مسلمہ گمراہی کا شکار بھی ہوئی ہے۔ اور ان تمام باتوں کی خبر رسول
اللہ ﷺ نے (بذریعہء وحی) پہلے ہی دے دی تھی، آپﷺ نے فرمایا: "من یعش من
بعدی منکم فسیری اختلافا کثیرا" "تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ
بہت سارا اختلاف دیکھے گا۔" اور ایک صحیح حدیث میں یہ خبر دی گئی کہ یہ
امت73 فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، سوائے ایک کے سب جہنم میں جائیں گے، جنت
میں جانے والی جماعت ہوگی جو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کے طریقے پر چلے گی ۔(73 فرقوں کی تفصیل کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ
مفید رہے گا؛ تلبیسِ ابلیس امام ابنِ جوزیؒ، اور غنیۃ الطالبین شیخ
عبدلقادر جیلانیؒ معروف بہ پیران پیر دستگیر وغیرہ۔) اور جو خبر سب سے
زیادہ افسوس ناک ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ شرک جیسے موذی مرض
میں بھی مبتلا ہوں گے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "ولاتقوم الساعۃ حتیٰ
یلحق قبائل من امتی بالمشرکین حتیٰ تعبد قبائل من امتی الاوثان۔" "اس وقت
تک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل
جائیں گے، اور میری امت کے کچھ قبائل بتوں کی پوجا کریں گے۔"
یہ ساری باتیں آج مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے اسباب
کیا ہیں؟ جن کی وجہ سے امتِ مسلمہ ابلیسی تلبیس کا شکار ہو گئی ہے۔ وہ
اسباب تو بہت سارے ہیں ان میں سے چند بنیادی محرکات مختصراََ رقمطراز کرتے
ہیں۔
قرآن و صحیح حدیث سے دوری
امتِ مسلمہ میں اختلافات اور گمراہی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب مسلمانوں
کی قرآن اور نبی ﷺ کی ثابت شدہ صحیح احادیث سے دوری ہے۔ امت کا قرآن کو
چھوڑ دینے کی خبر اللہ نے اپنے کتاب میں پہلے ہی دے دی تھی کہ: "وَقَالَ
الرَّسولُ یٰرَبَّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُوا ھَٰذَا القُرآنَ مَھجُورََا۔ "
اور رسول ﷺ کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا
تھا۔" یعنی قیامت کے دن اللہ کے سچے رسول آنحضرت ﷺ اپنی امت کی شکایت جنابِ
باری تعالی میں کریں گے۔ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا:
وہ زمانے میں تھے معزز مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوے تارکِ قرآں ہوکر۔
حالانکہ قرآن اور نبوی تفسیریعنی صحیح حدیث ہی امت کو اختلافات اور گمراہی
سے بچا سکتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: "فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیءِِ فَرُدُّوہُ
اِلَی اللّہِ وَ رَّسولِ۔" "اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوجائے
تو اس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو۔" اور اللہ کے رسولﷺ نے
فرمایا: "ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّہ و سنۃ رسولہ۔"
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم انہیں مضبوطی کے ساتھ پکڑے
رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب (قرآن) اور دوسری اس کے
رسول کی سنت۔"
ضعیف اور موضوع روایات
امتِ مسلمہ میں اختلافات اور گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ضعیف اور
موضوع (غیر صحیح ،من گھڑت) روایات بھی ہے، اسلام دشمن سازشیوں نے مسلمانوں
میں تفریق پیدا کرنے کے لئے حضورﷺ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کردی تاکہ
مسلمان قرآن و صحیح حدیث کی اصل تعلیم سے دور ہوجائیں۔ لیکن محدثین کرام نے
اسماء رجال اور جرح و تعدیل کے اصولوں کے ذریعے اس سازش کو ناکام بنا دیا،
اور صحیح اور غیر صحیح روایات کی نشاندہی کردی۔ اس کے باوجود بھی بہت سے
مسلمان اس سازش کا شکار ہو گئے ہیں۔
اقبالؒ نے کہا:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی۔
ضعیف اور موضوع روایات کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنے میں مسلمان بڑی بے
احتیاطی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل سخت گناہ اورباعثِ جہنم ہے۔ حضورﷺ
نے فرمایا: "من تعمد علی کذبا فلیتبوا مقعدہ من النار۔" "جس نے عمداََ (جان
بوجھ کر) مجھ سے جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" اس
لئے کسی بھی بات کو نبی ﷺ کا فرمان کہنے سے پہلےیہ معلوم کرنا ضروری کہ وہ
بات حضورﷺ سے سنداََ ثابت بھی ہے یا نہیں؟ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں ہے
بھی یا نہیں؟ اور کہیں محدثین نے اس روایت کو ضعیف اور موضوع قرار تو نہیں
دیا کیوں کہ ضعیف اور موضوع روایات کسی بھی صورت میں معتبر نہیں۔ پھر اگر
وہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو آگے بیان کی جائے۔ اور حدیث کی معتبر کتابوں
جیسے ؛صحیح بخاری، صحیح مسلم، (ان دو کتابوں میں عام طور پر تمام مرفوع
احادیث صحیح ہیں اس بات پر امت کا اجماع ہے۔ ) جامع ترمذی، سنن ابو داؤد،
ابن ماجہ، سنن نسائی، مؤطا مالک، مسند احمد (ان کتابوں میں کچھ روایات کو
چھوڑ کر باقی تمام احادیث صحیح ہیں) وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ مسلمان
اگر اس طرزِ عمل کو اپنائے تو بہت سے اختلافات ،بدعات اور خرافات سے جان
چھڑا سکتے ہیں۔
انکارِحدیث
امت میں افراط و تفریط کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو ضعیف اور موضوع روایات
ہی پر اعتماد کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف صحیح احادیث ہی سے انکار کیا
جاتا ہے، انکار ِ حدیث بھی امت میں اختلافات و گمراہی اور بہت بار کفر و
الحاد کا سبب بنا ہے۔ چونکہ حدیثِ نبوی قرآن کی تفسیر ہے، امت کو قرآن کی
تفسیر بیا ن کرنا رسول اللہ ﷺ کا فریضہ ہے، اللہ نے فرمایا: "لِتُبَیَّنَ
لِنَّاسِ مَا نُزَّلَ" "آپ لوگوں کے سامنے اسے بیان کردیں جو نازل کیا گیا
ہے۔" اور حضورﷺ نے اپنے قول اور عمل سے قرآن کی تفسیر بیان فرمادی ، جو کہ
حدیث کی صورت میں امت کے پاس محفوظ و موجود ہے۔ حدیث کا انکار کرنے کے بعد
حدیث کا انکار کرنے والے قرآن کی من مانی تفسیر کرتے ہیں ۔ ہر کوئی اپنی
اپنی سوچ کے مطابق تفسیر کرتا ہے جس کا نتیجہ اختلاف اور گمراہی ہی ہوتا ہے۔
قرآن کی اپنی ذاتی رائے ، اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق تفسیر کرنا
ناجائز اور گناہ ہے۔ یہاں یہ بات انتہائی قابلِ ذکر ہے کہ امت میں فتنہ
انکارِ حدیث کی پیش گوئی نبی کریم ﷺ نے اس فتنے کے وقوع سے پہلے ہی کردی
تھی۔ فتنہ انکارِ حدیث کے متعلق مزید جاننے کے لئے مندجہ ذیل کتابوں مطالعہ
مفید رہے گا؛ انکارِ حدیث سے انکارِ قرآن تک عبدلسلام رستمی (دار
السلام)،آئینہء پرویزیت عبدلرحمان کیلانی ؒ، حدیث پاک خلیل الرحمان چشتی،
اتباع سنت کے مسائل محمد اقبال کیلانی۔
بے علم لوگوں کی شریعت سازی
امت میں اختلافات اور گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب قرآن و صحیح حدیث سے
نا واقف ، شریعت سازی کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ جنہوں نے خود کو بڑے بڑے
القاب سے ملقب کر کے عوام کو بے وقوف بنا رکھا ہے، اور جنہوں نے دین میں
بہت سی ایسی باتیں داخل کردی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ
مسلمانوں میں تفریق پیدا کر کے برٹش گورمنٹ کی طرح Divide and Rule کی
پالیسی چلاتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کو اپنی خودساختہ باتوں میں پھنسا کر قرآن و
صحیح حدیث سے دور رکھتے ہیں کیونکہ اگر عوام قرآن و حدیث سے دور ہوگی تو ان
کے پیچھے ہی ہوگی۔ پھر وہ جس طرح چاہیں عوام کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اور
لوگ بھی قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے علماء کو چھوڑ کر ان ہی کی اندھی
تقلید کرتے ہیں اور ان کو ہی ذریعہء نجات سمجھتے ہیں۔ اس بات کی پیش گوئی
بھی اللہ کے رسول ﷺ نے پہلے ہی کردی تھی، آپﷺ نے فرمایا: "اتخذ الناس روُسا
جھالا فسئلوا، فافتوا بغیر علم فضلوا وضلوا۔" "لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں
گے، ان سے (دین کے متعلق) سوالات کئے جائیں گے اور وہ (قرآن و حدیث کے) علم
کے بغیر فتویٰ دیں گے۔ اس لئے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی
گمراہ کریں گے۔" دوسری روایت میں ہے: "فیفتون برایھم" "وہ اپنی رائے سے
فتویٰ دیں گے۔" اسلامی تعلیم کے مٖطابق علماء کو شریعت سازی کا حق دینا اور
انہیں پیغمبریت کے منصب پر بٹھا دینا جائز نہیں۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے
بارے میں فرمایا: "اِتَّخَذُوا اَحبَارَھُم وَرُھبَانَھُم اَربَاباََ مِن
دُونِ اللَّہِ۔" "انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سواء رب بنا
لیا۔" انہوں نے رب کیسے بنا یا؟ حدیث میں ہے کہ وہ اپنے علماء اور بزرگوں
کی حلال کردہ چیز کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام سمجھتے تھے ، اور یہی
رب بنانا ہے۔ یعنی علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید کرنا اور ان کو شریعت
سازی کا حق دینا شرک ہے۔ عوام کے لئے ضروری ہے کہ جس سے بھی دین کی کوئی
بات پوچھیں اس سے قرآن و صحیح حدیث کی دلیل مانگیں۔ جیسا کہ قرآن میں کہ :
"ھَاتُوا بُرھَانَکُم اِن کُنتُم صٰدِقِینَ۔" "اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش
کرو۔" تاکہ علماء اور جہلاء میںتمیز ہوجائے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا
حکم بھی معلوم ہوجائے۔ اور نامعلوم دلیل والی بات کی پیروی کرنا بھی جائز
نہیں، اللہ نے فرمایا: "وَلاتَقفُ مَالَیسَ لَکَ بِہ عَلمٌ۔" "اور جس بات
کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کر۔" مزید امام ابنِ قیم ؒ کی کتاب اعلام
الموقین کا مطالعہ کریں۔
سنی سنائی باتیں
اسلامی تعلیم کے مطابق ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنا جائز نہیں، بلکہ
ہر بات کی تحقیق کرنا ضروری ہے۔ اللہ نے فرمایا: "یآ یّھَالّذِینَ اٰمَنو
ان جآءَ کُم فاسِق بنبا فتبینوا۔" "اے ایمان والو! اگر کوئی بدکردار تمہارے
پاس کوئی خبر کے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔" اور حضورﷺ نے فرمایا:
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع۔" "انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے اتنا
ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی (بات) کو بیان کردے۔" عوام میں دین کے متعلق
ایسی باتیں، قصے کہانیاں، خواب وغیرہ بہت مشہور ہیں جن سے اختلافات، وہم و
گراہی اور بدعات جنم لیتی ہیں۔ اس لئے ایسی چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔ اس کے
علاہ بھی بہت سی باتیں ہیں جو مسلمانوں میں اختلاف و گمراہی پھیلاتی ہیں،
جیسے دین سے ناواقف شاعر، ادیب، غیر معتبر کتابیں اور میڈیا وغیرہ۔
خلاصہ
اللہ نے انسانوں کو ایک مکمل شریعت دی ہے، جس میں کسی قسم کے اضافے، کمی
بیشی اور ترمیم کی ضرورت نہیں "اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکم۔" اور یہ
شریعت اپنی اصلی حالت میں تا قیامت محفوظ رہے گی "وَاِنّا لَہُ
لَحٰفِظُونَ۔" یہ دین بلکل آسان ہے "ان الدین یسر۔" قرآن و حدیث کو سمجھنا
کوئی مشکل نہیں "وَ لَقَد یَسَّر نَا القُرآنَ لِذَّکرِ۔" اللہ کے رسول ﷺ
نے مسلمانوں کو ایک ایسی شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن
ہے "لقد ترکتکم علی مثل البیضاء لیلھا کا لنھار۔" لہذا یک مسلمان کو قرآن و
صحیح حدیث کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج جو مسلمانوں
میں فتنیں رونما ہیں ان کا حل صرف قرآن و حدیث ہیں، اسی کے ذریعےاختلافات
مٹ سکتے ہیں اور امت گمراہی سے بچ سکتی ہے۔ مسلم عوام کے لئے تجویز ہے کہ
تمام غیر صحیح اور غیر ضروری باتوں کو چھوڑ کر صرف قرآن و صحیح سے جُڑ
جائیں، اور اس طریقے کو اپنائیں جس پر صحابہ کرام تھے، کیوں کہ اسی میں امت
کی بقاء اور نجات ہے۔ یہ ہی قرآن کی تعلیم ہے:
"وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللَّہِ جَمِیعا وَلَا تَفَرَّقُوا۔"
"تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن و حدیث) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ
بندی نہ کرو۔"
منعفت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم ِپاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؎
|