25 نومبر سے 10 دسمبر تک کے سولہ دنوں کو عورتوں پر تشدد
کے خلاف عالمی طور پر منایا جاتا ہے۔10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن ہے ۔
سولہ دنوں کا یہ تسلسل اور ربط اس لئے ہے چونکہ عورت کے حقوق بھی انسانی
حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔اس تحریک کا آغاز 1981 میں کولیمبیا کے شہر
بوگاٹا میں ہوا جس میں عورتوں پر جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ زبانی تشدد،
گالی گلوچ تہمت وغیرہ کو بھی تشدد کے زمرے میں شامل کرلیا گیا۔ یہ دن دراصل
تین میرابل بہنوں پر آمرانہ تشدد کے خلاف آوازہے جنہیں بے پناہ غیر انسانی
تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔اسی تناظر میں دنیا بھر میں ان 16
دنوں میں عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں گروہ اور جماعتیں عورتوں کے مسائل کے
حل کے حوالے سے اپنا کردار ،عمل اور جدوجہد کاسلسلہ مرتب کرتی ہیں۔پاکستان
جیسے اسلامی روایات کے حامل ملک میں صنفی تشدد کار کرائم کا گراف بہت حد تک
بڑھا ہواہے ۔تیزاب گردی کیس، عورت تحفظ بل تشدد بل وغیرہ کے پاس ہونے کے
باوجودحوا کی بیٹیاں اس بے لگام معاشرے میں کسی بھی لحاظ محفوظ و مامون
نہیں ہیں۔اگر ہم صرف جنوبی پنجاب کو ہی فوکس کرلیں تو ہمیں معلوم ہوگاکہ
قتل، غیرت کے نام پر قتل، اغوا، جنسی زیادتی ، تیزاب گردی، آگ میں جلانا ،خودکشی،ونی
جیسے قبیح کرائم سے گذشتہ سال دو ہزار کے لگ بھگ خواتین متاثر ہوئیں اور ان
میں سے اکثریت کو انصاف نہ مل سکا۔
خواتین کے ساتھ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات دنیا بھر یں ایک بڑے
المیے کا روپ دھار چکے ہیں اور پاکستان جیسے اسلامی ملک میں امریکہ جیسے
سیکولر اور بھارت جیسے مشرقی ملک میں خواتین بالخصوص ملازمت کرنے والی
خواتین کو جنسی طور پرہراساں کرنے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔پاکستان میں ہر
روز خواتین کے ساتھ زیادتی کے بہت سے واقعات میڈیا کے ذریعے سے عوام الناس
تک پہنچ پاتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ بہت سی وجوہات کی بناپر
رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے جس کی وجہ سے بھی عورتوں کا استحصال بڑھتا جارہا ہے
domestic voilation ،فزیکل ٹارچر، مینٹل ٹارچر، جنسی زیادتی ، جنسی ہراسمنٹ
وغیرہ جیسے واقعات عام ہیں۔عورتوں پر تشدد درحقیقت مردوں اور عورتوں کے
درمیان طاقت کے عدم توازن کا واضح اظہار ہے۔جو کہ زندگی کے تمام شعبہ ہائے
جات حتی کہ گھرکی چار دیواری میں نمایاں طور پر موجود ہے۔جس میں مرد اپنے
آپ کو برتر اعلی اور طاقتور تصور کرتا ہے۔ چونکہ تالی دوہاتھوں سے بجتی ہے
تودوسری طرف انہی خیالات تصورات اور نظریات کی لت عورتوں پر بھی انتہائی حد
تک اپنا تاثر چھوڑ چکی ہے۔اور وہ اپنے آپ کو مردوں کے مقابلے میں کم تر اور
کمزور تصور کرتی ہیں اور تمام شعبوں میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔جنوبی ایشیا میں
ہر دو منٹ میں ایک عورت تشدد کا شکار بنتی ہے جو کہ الارمنگ صورت حال ہے۔
اس میں سدھار اور کمی کیلئے اپنی کمیونٹی کی اقدار اور نظریات کو تبدیل
کرنا ہوگایہ ایک صبر آزما،طویل اور مشکل کام ہے اور اسے کسی ایک عمل واقعے
یا سرگرمی سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے طویل مدتی منصوبوں کو عملی
جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے واقعات اس قدر عام کیوں ہوتے جارہے ہیں
ملزموں کی اس قسم کے جرائم کرنے کی ہمت کیونکر ہوتی ہے پاکستان میں اس قسم
کے واقعات کو روکنے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی
کے واقعات کو روکا جاسکے۔ مندرجہ ذیل عوامل بھی ان واقعات کے رونما ہونے کے
ذمہ دار ہیں
٭پاکستا ن میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد نہایت کم ہے جس کی وجہ سے
خواتین کے معاملات کو تھانہ تک لے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولیس اہلکاروں کی نفری نہ ہونے کی بنا پر خواتین کے مقدمہ جات کے اندراج
نہیں ہو پاتے جو کہ ملزمان کو آشیرباد دینے کے زمرے میں آتا ہے
٭عوامی و تفریحی مقامات پر پبلک سیفٹی کی کمی بھی ایک اہم ایشو ہے جس کی
وجہ سے گھر سے باہر عورت کو تحفظ حاصل نہیں
٭ہمارا سست عدالتی نظام بھی ان جرائم کے اضافے کا ایک اہم حصہ ہے جو کہ
ججوں کی کمی اور عدالتوں میں کیسز کی بھرمار کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوکر
اپنی موت آپ مرجاتے ہیں اور متاثرہ فریق اس سست روی کا شکار ہوکر اپنی جان
چھڑاناہی غنیمت جانتا ہے
٭خواتین کے ساتھ روزمرہ کے واقعات میں چھیڑچھاڑ شامل ہیں جن کے بارے میں
کوئی پراپر قانون یا لائحہ عمل موجود نہ ہے ۔ جس کی وجہ سے ملزمان کا حوصلہ
بڑھتا ہے اور ریپ کے واقعات کا رجحان بھی بڑھتا ہے
٭ہمارے معاشرے میں خواتین کے سٹیٹس کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات جنم لیتے
ہیں جن میں ایک اہم مسئلہ عورت کو کم تر سمجھنا ہے لڑکوں کے مقابلے میں
لڑکیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور عورت کی اہمیت میں کمی بھی خواتین
کی بے عزتی و رسوائی کا سبب ہیں۔حالانکہ عورت ہر شعبے میں مردوں میں آگے
نکلتی جارہی ہے۔
٭جنسی زیادتی کا شکار خواتین کو مجرم سمجھنے کا وطیرہ بھی شروع سے ہی
کارفرما ہونے کی بنا پر عورت کوہی مورد الزام ٹھہرادیا جاتا ہے اس بدنامی
سے بچنے کیلئے عورت ایسے معاملے کو پوشیدہ رکھنے پر ہی اکتفا کرتی ہے
کیونکہ معاشرے میں اسے بھی برابر کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے اور ملزمان کو
شک کی بناپررعایت ملنے پر جرم کرنے کی ہمت دو چند ہوجاتی ہے
٭زیادتی کے بعد صلح کرنا یا کروانا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جارہاہے ملزم
کو معلوم ہوتا ہے کہ ہوس مٹانے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ معافی، تلافی
اور صلح نامے سے کام چل جائے گا اور اکثر واقعات کی تاریخ بھی اسی بات پر
دلالت کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ شادی کردینا اس معاملے کا مناسب اور بہتر
حل مانا جاتا ہے
٭لباس کی نامناسبت اور بے دھنگاپن بھی جنسی زیادتی کی وجوہات کی ایک بڑی
وجہ ہے فیشن اور ماڈرن ازم کے ماری خواتین ایسے بھڑکیلے اور جذبات کو
ابھارنے والے لباس استعمال کرتی ہیں جس سے دیکھنے والے کو ترغیب ملتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں پینٹ شرٹ اور سکرٹ وغیرہ پہننے کی وجہ سے بھی ریپ کے
واقعات عام ہوتے جارہے ہیں
یہ تمام وجوہات اپنی جگہ اور زیادتی کے واقعات اپنی جگہ ۔اگر یہ قبیح عمل
ایک عام فرد کرتا ہے تو اس سے ایک عورت یا ایک خاندان متاثرہونے کے ساتھ
ساتھ و پورا معاشرہ اس بھیانک اور لرزہ خیز عمل کا شکار ہوتا ہے ۔اس لئے
حکومتی مشینری کے ساتھ ساتھ غیر حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اپنا
فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ فرسودہ عقائد اور رسومات جیسا کہ ونی ،سوارہ ،
بدل ،قرآن سے شادی وغیرہ کو پس پشت ڈال کر جنس مخالف کیلئے دوستانہ ماحول
مہیا کرنا ہوگا۔ عورتوں کی ضروریات ،حقوق اور ترجیحات کو سمجھنا ہوگاتعلیم،
شعور و آگہی کے متعلق سیمینارز اور تقریبات کے ذریعے سے عورتوں کے ساتھ
ساتھ مردوں کو بھی انکے فرائض بارے آگاہی دینا ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
عورت عورت کا استحصال کرتی ہے لیکن ان تمام خرابیوں میں مرد کا کردار
نمایاں ہوتا ہے۔ اس لئے مرد کو اس سلسلے میں شعور و آگہی روشناس کرانا
نہایت ضروری ہے۔ |