ایک بینکرز کی فریاد .... سٹیٹ بنک کے نام

بینکر کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ سونے کے پنجرے میں بیٹھ کر نوٹوں سے کھیلتے ہیں لیکن بھوک پھر بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ وہ نوٹ اپنے نہیں بیگانے ہوتے ہیں۔ لامحدود اوقات کار کی وجہ سے بے شمار موذی بیماریاں( شوگر ٗ ہائی بلڈپریشر ٗ ہارٹ ٗ گردوں کے امراض اور کینسر) ان کا مقدر بن جاتی ہیں ۔ شاید ہی کوئی بینکر بلڈپریشر اور شوگر کی بیماری سے محفوظ ہو ۔ عام لوگ تو بینکر کے بارے میں اچھی کہانیاں سنتے اور سناتے ہیں لیکن جس ٹیشن زدہ ماحول میں انہیں کام کرنے پر مجبور کیاجاتا ہے اس میں کئی بیماریوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ایک بینکار سے ملاقات ہوئی تو داستان غم سناتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ میں نے حوصلہ دیا کہ آپ بالکل نہ گبھرائیں ہوسکتا ہے ٗ میں آپ کی زبان بن کر سٹیٹ بنک کے باہر لگی ہوئی گھنٹی کو ضرور بجاوں گا ٗ جس سے شاید کچھ افاقہ ہوجائے۔ سٹیٹ بنک کا کام صرف بینکنگ کے شعبے کی نگرانی ہے لیکن جس غنڈہ گردی کا مظاہرہ سٹیٹ بنک ٗماتحت بنکوں کے ساتھ کرتا اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی زیادتیوں کی فہرست بہت طویل ہے اس کا ذکر پھر کسی وقت کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں ۔ بنک ملازم کی داستان غم سنیئے ۔ پاکستان میں پچھلے دس سال سے بینک اوقات کارکے معاملے میں اسٹاف سے انتہائی زیادتی کی جارہی ہے ۔ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک نان اسٹاپ بینکنگ جاری رکھی جاتی ہے جس سے لوگوں کو تو فائدہ ہورہاہے لیکن بنک عملے کے لیے یہ ٹائمنگ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ٹرانزیکشن بہت حساس اور نازک معاملہ ہے ۔ اگر غلطی ہوجائے تو برانچ منیجر سمیت ریجن اور ہیڈ آفس کی انکوائریاں بھگتنی پڑتی ہیں ۔ کیشیئر کی جاب توویسے ہی بہت خطرناک ہے ۔ فی الفرض پانچ ہزار روپے کم پڑ جائیں تو پانچ ہزار کیشیئر اپنی جیب سے ڈال کر ہی گھر جائے گا ۔ برانچوں میں آج کا کام کل پر نہیں چھوڑاجاتا۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ بنک میں آنے کا وقت تو ہے ٗ واپس جانے کا وقت نہیں ۔ رات کے دس بھی بج سکتے ہیں اور ساری رات بھی آنکھوں میں گزر سکتی ہے ۔ جب تک کام ختم نہ ہوجائے۔ منیجر اجازت نہ دے اس وقت تک گھر کاراستہ نظر نہیں آتا ۔ بنک ملازمین ایک جانب عام لوگوں کی جھڑکیاں سنتے ہیں تو دوسری طرح بنک انتظامیہ اور آڈٹ ٹیموں کے دباؤ کا سامنا کرتے ہیں ۔ سٹیٹ بنک کا آڈیٹرز تو خوف کی علامت بن کر نازل ہوتے ہیں ۔اعتراض بعدمیں لگاتے ہیں ٗ لاکھوں روپے جرمانہ پہلے وصول کرتے ہیں۔ ان کے ناز و نخرے برداشت نہ کیے جائیں اور مرغن غذائیں اگر نہ کھلائی جائیں تو کوئی بھی اعتراض لگا سکتے ہیں ۔ بینکنگ کی دنیامیں یہ واحد اتھارٹی ہے جس پر کوئی اپیل بھی نہیں کی جاسکتی ۔ حالانکہ بینکنگ محتسب کو سٹیٹ بنک کے فیصلوں پر نظر ثانی کااختیار ضرور ملنا چاہیئے ۔ ہر چھوٹی بڑی عید سے دس دن پہلے اخبارات میں نئے نوٹوں کی خوشخبری عوام کو پریس ریلیز کے ذریعے سنا دی جاتی ہے لیکن برانچوں کے پاس اتنے نئے نوٹ نہیں پہنچتے کہ وہ اپنے ملازمین کو بھی عید پر نیا کیش فراہم کرسکیں جبکہ اکاؤنٹ ہولڈرز کا پریشر اپنی جگہ شدت اختیار کرجاتا ہے کیونکہ کئی بڑے اکاؤنٹ تو صرف نئے نوٹ نہ ملنے کی بنا پر برانچ سے نکل جاتے ہیں ۔ ایک اور عذاب اوپنگ اکاؤنٹ ہے ۔اب ملازمین بنک کا کام کریں تا سڑک پر جاکر اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے لوگوں کی منتیں کریں ۔ ہیڈ آفس کی جانب سے ریجن کو اور ریجن کی جانب سے برانچوں کو ڈیپازٹ ٹارگٹ دیئے جاتے ہیں ۔یہ ٹارگٹ اس قدر غیر فطر ی ہوتے ہیں کہ انہیں جان پر کھیل کر بھی پورا نہیں کیا جاسکتا ۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے بنک میں آکر رات نو دس بجے تک جو بنک آفیسر بینکنگ کا تھکا دینا والا اور حساس ترین کام کرے گا وہ ٹارگٹ کیسے پورا کرسکتا ہے ۔برانچ منیجر اپنی جگہ مجبور ہوتاہے وہ اپنے ماتحت ملازمین کی گردن پر چھری چلاتا ہے اور ملازمیں برانچ میں تو کچھ کرنہیں سکتے وہ اپنے گھروالوں پر غصہ اتارتے ہیں ۔ یہ وہ تمام مصیبتیں اور پریشانیاں ہیں جو ہر بنک ملازم کو برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ہر وقت ٹینشن اور ڈپریشن میں رہنے کی وجہ سے ہائی بلڈپریشر ٗ شوگر ٗ گردوں میں تکلیف ٗ دل کی بیماری اور کینسر جیسی موذی بیماریوں بینکر کا مقدر بن جاتی ہیں ۔ شاید ہی کوئی بنک ملازم خودکو صحت مند قرار دے سکے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بنک اپنے ملازمین کوہسپتال میں داخل ہوکر علاج کروانے کے اخراجات تو انشورنس کمپنیوں کے توسط سے اداکرتے ہیں لیکن آوٹ ڈور یعنی عام ڈاکٹروں اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں اور لیبارٹریز ٹیسٹ جیب سے کروانے پڑتے ہیں جس سے آدھی تنخواہ ڈاکٹر کی فیسوں اور لیبارٹریز ٹیسٹوں پر ہی خرچ ہوجاتی ہے ۔ جب ریوارڈ یعنی بونس اور محکمانہ ترقی کی باری آتی ہے تو ہیڈ آفس اور ریجن کے بڑے بڑے افسرگوشت اپنے لیے رکھ لیتے ہیں اور چھوٹے ملازمین کو ہڈیا ں چوسنے کے لیے دے دی جاتی ہیں ۔تمام بنک اربوں روپے کے قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف کردیتے ہیں اور سٹیٹ بنک ان کو پوچھتا تک نہیں لیکن بنک ملازم کو دوچارلاکھ معاف کرنابھی گناہ تصور کیاجاتاہے ۔ریٹائرمنٹ کے باوجود تمام قرضے حسب سابق واپس کرنے پڑتے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہاہے کہ دور کے ڈھول سیانے ہوتے ہیں نزدیک جائیں تو شور سے کان پھٹ جاتے ہیں۔کاش سٹیٹ بنک کے اعلی افسران بھی میری یہ فریاد سن لیں ۔یہ تو ایک بنک ملازم کی فریاد تھی جس کو سٹیٹ بنک تک پہنچانے کی ذمہ داری میں پوری کررہا ہوں ۔ کاش گورنر سٹیٹ بنک اس کالم پڑھیں اور ملازمین کی دادرسی فرمائیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.