کنڈکٹر بار بار بچے کو کہہ رہا تھا کہ سیٹ پر بیٹھ جائے
لیکن بچہ بس کے اندر کھڑا ہی رہا ، جیسا کہ اُس کوکچھ سُنائی نہ دے رہا ہو۔
بس میں مسافر کم تھے ، سیٹیں زیادہ ترخالی ہی پڑی تھیں۔بچے کا دوسرا ساتھی
سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ دونوں کی عمریں سات سے نو سال کے درمیان ہوں گی اور
شکل و صورت سے بھائی لگ رہے تھے۔ دونوں بچے سکول اسٹاپ سے بس پر سوار ہوئے
تھے۔ جب وہ سوار ہونے لگے تھے تو میں نے ڈرائیور کی گونج دار اور گھن گرجتی
آواز میں یہ الفاظ سنے تھے کہ دس ، دس روپے کرایہ ہے۔ یقینابچوں کے کانوں
کے اندر Ear canal سے یہ الفاظ گزر کر پَردوں سے ٹکرائے ہوں گے۔اور یہی وہ
حقیقت تھی کہ ایک بچہ کنڈکٹر کے بار بار اصرار پر بھی خالی سیٹ پر نہیں
بیٹھ رہا تھا۔ بچوں کے چہروں پر پریشانی نمایاں تھی۔ کبھی وہ اپنی جیبوں کو
ٹٹولتے تو کبھی خوف و ڈر کے سائے میں کن کنی انکھوں سے کندکٹر کو دیکھتے جو
کسی وقت بھی کرایے کا مطالبہ کرسکتا تھا۔ میں یہ سارا منظر پچھلی سیٹ سے
دیکھ رہا تھا۔ بچوں کی کیفیت ایسی تھی کہ میرا دل پسیج جاتا اور ذہن مفلوج
ہوجاتا۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوئی کہ اُن کے
پاس مطلوبہ کرایہ نہیں تھا جس کی وجہ سے پریشانی اُن کے چہروں سے ٹپک رہی
تھی۔ بس نے کوئی چار، پانچ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ ایک بچے نے بس
کو روکنے کا اشارہ کیا۔ اُن کی منزل آپہنچی تھی۔ بس رُکی اور بچوں نے اترتے
ہوئے دس روپے کندکٹر کو تھما دیئے۔ جس نے ناگوار لہجے میں کہا کہ بیس روپے
کرایہ بنتا ہے۔ بچے سر جھکا ئے ‘ کنڈکٹر کی جلی کٹی سنتے آگے بڑھ گئے۔میرے
دل کو اس خیال نے دبوچ لیا تھا کہ ان معصوم بچوں کو دن میں دو مرتبہ اور
مہینے اور سال میں بالترتیب تقریباًپچاس اور سات سو مرتبہ اس ذہنی اذیت اور
کوفت سے گزرنا پڑتا ہوگا۔ اُن کے والدین جو کہ سکول آنے جانے کا
کرایہبرداشت نہیں کرسکتے ہوں گے وہ دیگر تعلیمی اخراجات کیسے پورا کرتے ہوں
گے۔ مزید برآں کہ ایسے گھروں میں چولہے کیسے جلتے ہوں گے۔اور خاص طور پر
دھرنوں ، ہڑتالوں کے دنوں میں(گزشتہ پانچ برس میں جن میں حد سے زیادہ اضافہ
ہوگیا ہے ) ڈیلی ویجز ملازمین اور دیہاڑی پر کام کرنے والوں کے گھروں کی
کیا حالت ہوتی ہوگی۔ یہ کہانی صرف ان دو بچوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک
بھر میں لاکھوں بچے ایسے ہوں گے جن کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات کا
سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔اور یہی مشکلات والدین کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں
کہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں یا اُن کو سکول نہیں بھیجواتے۔
ایک تعلیمیرپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد
22.6 ملین ہے جن میں پانچ سے سولہ سال تک بچوں کی تعداد 44 فیصد نبتی ہے
اور صوبہ بلوچستان میں یہ شرح باقی صوبوں اور فاٹا کے مقابلے میں سب سے
زیادہ ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت نے مصدقہ اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے
227 ملین روپے سے حالیہ ایک سروے کیا۔ابتدائی و ثانوی تعلیمی ادارے کی اس
تیار کردہ سروے رپورٹ کے مطابق صوبہ بھر میں 1.5 ملین بچے سکول نہیں جاتے ۔جن
میں 0.6 ملین بچوں کی عمریں پانچ سے دس سال جب کہ 0.9 ملین بچوں کی عمریں
گیارہ سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کی ترقی کے خواہاں ہیں
اور وطن عزیز کو واقعی عزیز سمجھتے ہیں تو ہماری حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل
25-A کے مطابق تعلیم کی سہولت ہر بچے کو مفت فراہم کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ
تعلیم سے وابستہ ہر سہولت خواہ سکول کے اندر ہو یا باہر مہیا کرنا ہوگی |