ہر شے کے قیام کا انحصار باہمی کشش پر ہے۔ اگر یہ کشش ختم
ہو جائے تو کائنات کا تانابانا بکھر کے رہ جائے گا۔ ہم اپنے گردوپیش میں
نظر دوڑائیں تو خدا کی چھوٹی سی مخلوق چیونٹی اور مکھی میں بھی اتحاد دائمی
اور جذب باہمی نظر آتا ہے۔ چیونٹیاں اکھٹی ہو جائیں تو وہ شیر کی کھال
ادھیڑ سکتی ہیں، مکھیاں مجتمع ہو جائیں تو پھولوں کا رس چوس کر شہد بنا
لیتی ہیں۔
وطن عزیز پاکستان کی مثال ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ ہمارے عمائدین اور
اکابرین نے جذب باہم سے یہ وطن حاصل کیا۔ اس دور کے بزرگان دین نے اتحاد کا
الم بلند کر کے جذب باہم کا درس یا۔ سر سید نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک
پلیٹ فارم پہ جمع کیا۔ قائداعظم نے اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم کا درس دیا۔
اقبال نے قلم و قرطاس سے ہمہ گیر سطح پر امت مسلمہ کو یکجا کیا۔ ان تمام کی
کاوشوں کے بغیر پاکستان کا وجود میں آنا ممکن تھا؟ ہرگز نہیں! آج ہم اس
آزاد سرزمین اور آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں تو یہ ہمارے اکابرین کے جذب
باہمی کے طفیل ہے۔
اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد ،
موچی سے لے کر انجینئر تک، تمام پیشوں کے افراد مل کر معاشرہ تشکیل دیتے
ہیں۔ کوئ بھی شخص تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ
~فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں!
المیہ یہ ہے کہ آج بحیثیت مجموعی ہماری زندگی افراتفری اور انتشار کا شکار
ہے۔ اس افراتفری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں سے ہمدردی اور دلجوئی کا
جذبہ ہمارے معاشرے سے جا چکا ہے۔ ہم اجتماعی مفاد کے بجائے انفرادی مفاد کو
مد نظر رکھتے ہیں۔ جسکی وجہ سے خانگی زندگی بے سلیقہ ہو گئی ہے، سڑکوں پر
انسان ہنگاموں سے دوچار ہے، دفتروں کالجوں میں زندگی کے دیگر میدانوں میں
کہیں بھی نظم وضبط سلیقہ و قرینہ اور جذب باہمی کا نام و نشان نہیں ملتا جو
ملک کے زوال کا سبب ہے۔
وطن عزیر کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے لۓ ہمیں جذب باہم
کا پیکر بننا ہوگا کہ اتحاد و اتفاق سے مل جل کر اپنے ملک کو اندھیروں سی
نکال کر اجالوں تک لا سکتے ہیں۔
اقبال اپنی نظم "بزم انجم" میں باہمی اتحاد کے کیا خوب رقم طراز ہیں:
~ اک عمر میں نہ سمجھے اسکو زمین والے
جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں! |