ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا
میرے بچوں سنبھال کے ۔
یہ نظم ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ اس نظم کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے۔ جو
ہر پاکستانی کو یاد ہے اور یاد ر ہنی بھی چاہیے۔ وہ ہے علامہ اقبالؒ کا
خواب،وہ ہے علامہ اقبالؒ کا تصور پاکستان۔ ۔ ۔ ویسے بھی قائد اعظم کہا
تھاکہ یہ داستان اس وقت سے شروع ہو گئی تھی جب برصغیر کے اندر پہلا شخص
مسلمان ہوا تھا۔وقت گزرتا گیا برصغیر پرسازش سے انگریز قابض ہو گئے تھے۔
انگریزوں سے نجات کے لئے۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں نے شروع کی تھی۔ اس
کو دبانے میں انگریزوں کے خود کاشتہ پودے قادیانیت نے بھی مدد کی تھی۔ جس
کا ذکر خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے ایک خط بنام ملکہ ہندوستان و
انگلستان میں رقم طراز ہے کہ’’ میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ
آزادی میں انگریز حکومت کی مدد پچاس گھوڑوں بمع سواروں سے کی تھی اور ساتھ
ساتھ یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ جنگ کا اگر کچھ اور طول ہو تو میرے والد
سومزید گھوڑوں بمع سواروں کی بھی مدد کے لیے تیار تھے‘‘ حوالہ کتاب خالد
متین( قادیانیت برطانیہ کا خود کاشت کردہ پودا)انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں
سے چھیناتھا۔ جس وجہ سے انہیں ہر طرح سے کمزور کرنا ان کی پالیسی تھی۔ اس
سازش میں ہندو ان کے ساتھ تھے ۔جنگ آزادی کے بعد تو انگریزوں نے جو
مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا وہ ویسا ہے جو تاریخ انسانی میں ظالم آقا مظلوم
غلاموں پر کرتے آئے ہیں۔ سزائیں،قید و بند ، توپوں کے سامنے کھڑا کر کے
زندہ اُڑا دینا، درختوں پر لٹکا کرپھانسیاں،کالا پانی کی سزائیں، جائیدادوں
سے بے دخلی اور برصغیر میں مسلم تہذیب کا خاتمہ وغیرہ ۔۔۔اسی ظلم و ستم کی
چکی کو چلتے محسوس کرتے ہوئے، سرسید احمد خان نے’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ کتاب
تحریر کی تھی تاکہ مسلمانوں پر انگریز کے ظلم و ستم کچھ کم کیے جا سکیں۔ایک
وقت مسلمانوں اور ہنددؤں نے مل کر آزادی کی جد و جہد شروع کی جو کافی سالوں
تک جاری رہی۔ اس سے انگریز وں پرآزادی کے لیے دباؤ پڑتا رہا۔ اس دوران
ہنددؤں کے دماغ میں عددی اکثریت کا بھوت سوار ہو گیا جو مختلف موقعوں پر
ظاہر ہوتا رہا۔ برصغیر کے عوام کے درمیان رابطے کی زبان اردو تھی جس میں
تحریک آزادی ہندوستان پڑے زور شور سے جاری تھی مگر مکار ہندو نے اس زمانے
میں اردو کے ساتھ دشمنی کی اور مردہ زبان سنسکرت کو ہندی کی شکل میں زندہ
کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس سازش کو سر سید احمد خان نے بھانپ لیا اور
اردو کو بچانے کی کوششیں شروع کیں۔اس طرح سر سید احمد خان نے اپنے آپ کو
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کشتی کو پار لگانے کی انگنت کوششیں کیں جو تاریخِ
پاکستان کا ایک درخشندہ باب ہے۔ قائد اعظمؒ بھی پہلے آزادی کی مشترکہ جد
جہد کے قائل تھے اور کانگریس کے شانے بشانے جنگ آزادی کی کوششوں میں بڑھ
چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔ قائد ؒ کو اﷲ نے عظیم صلاحیتوں سے نوازہ تھا جس کی
تعریف خود انگریز بھی گائے بگائے کرتے تھے۔ کچھ انصاف پسند ہندو بھی قائد
اعظم کی سچائی اور جرأت کا برملا اظہار کرتے تھے۔ اسی سلسلے کی کڑی کچھ
دنوں قبل ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ نے اپنے کتاب میں قائد اعظم ؒ کی
سچائی اور جرأت اور جنگ آزادی میں اختیار کردہ نکتہ نظر کو بہادری سے پیش
کیا۔ کانگریس کی پالیسی پر تنقید کی اس حقیقت کو بیان کرنے پر ہندوستان کے
معاشرے میں تنقید اور ناپسندیدہ شخص کے کے طعنے برداشت کرنے پڑے اور اس کی
پارٹی نے اسے اسی پادا ش میں پارٹی سے نکال دیا ۔ کانگریس کے مقابلے
میں۱۹۰۶ء میں بنگال میں ایک سیاسی پارٹی مسلم لیگ جو پاکستان کی بانی پارٹی
ہے کی بنیاد رکھی گئی ۔مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے علیحدہ
وطن کی کوششوں پر ہنددؤں نے مخالفت کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ مسلمان دوحصوں میں
بٹ گئے ایک حصہ کانگریس کے ساتھ تھا جو کانگریسی کہلائے اور ایک بہت بڑا
حصہ قائدؒ کے ساتھ تھا۔ قائد اعظم ؒ کے ہمنوا علماء جن میں مولانا شبیر
احمد عثمانیؒ کی کمانڈ میں تحریک آزادی پاکستان میں اپنا تاریخی کردار ادا
کیا اور پاکستان کی کشتی کو منجدار سے نکالنے میں قائد اعظم ؒ کی مدد کی۔
تحریک آزادی کے دوران اپنی عددی برتری کو قائم رکھنے کے لیے ہنددؤں نے
برصغیر میں قومیت کی بحث چھیڑ دی کہ ہندوستانی ایک قوم ہیں اور قومیں اوطان
یعنی وطن سے بنتی ہیں۔ اس نعرے میں حقیقتاً کشش بھی تھی کیونکہ دنیا میں
یہی چلن چل رہا تھا اور ا ب بھی چل رہا ہے کہ جس ملک میں جو بھی رہتا ہے وہ
اس ملک کی قوم ہے۔ اس لیے ہندوستان کے سارے لوگ ایک قوم ہیں۔ مسلم لیگ اس
کا توڑ صحیح طریقے نہیں کر پا رہی تھی کہ اس قصے میں اﷲ نے مولانا مودودیؒ
کو کھڑا کر دیا۔مولاناؒ نے اپنی تحریروں میں اس مسئلہ قومیت کو مسلم اور
غیر مسلم قومیت کاموازانہ کر کے خوب اُچھالا جو کتابی شکل میں اب بھی موجود
ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغر ب سے نہ کر۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول عاشمیؐ ۔
اس شعر کی مولانا ؒ نے اپنی تحریروں میں خوب تشریع کی اور قومِ رسول ہاشمیؐ
کو ثابت کیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں اس تشریع کو قبول عام ہوا۔مسلم لیگ
نے ان تحریروں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سارے برصغیر میں پھیلایا جس سے
تحریک پاکستان کو جلا ملی۔ اس طرح اس کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں تاریخ
مولانا مودودی ؒکو بھی یاد رکھے گی۔ قائد اعظم ؒنے اس کاصلہ مولانا کو یہ
دیا کہ پاکستان بنتے ہی ریڈیو پاکستان سے مولانا ؒ کو اسلامی نظام کیسے
قائم ہوتا ہے بیان کرنے کا موقعہ فراہم کیا ۔ یہ تقریریں ریڈیو پاکستان کے
ریکارڈ میں موجود ہیں۔ کتابی شکل میں بھی ہیں۔ جو لو گ مولانا موددیؒ کو
پاکستان کا مخالف کہتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ یہ تحریریں پڑھ لیں۔ قائد اعظم
ؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور تدبیر کے سامنے پاکستان دشمنوں کی ایک بھی نہ
چلی اور دنیا کے نقشے پراسلامی جمہوریہ پاکستان وجود پذیر ہو گیا۔۔ ۔ اس
میں علامہ اقبالؒ نے قائد اعظمؒ کی بھرپور مدد کی ۔ علامہ اقبال ؒبھی شروع
میں برصغیر کی آزادی کے لیے ہندو مسلم مشترکہ جد و جہد کے قائل تھے اور
اپنی نظموں میں ا س کا اظہار بھی کیاکرتے تھے ۔ مثلاً اقبالؒ کا یہ شہر کہ:۔
سارے جہاں سے اچھا ہنددستان ہمارا۔
ہم بلبلیں ہیں اس کی و ہ گلستان ہمارا۔
مگر قائد ؒ کی طرح علامہ اقبالؒ نے بھی ہنددؤں کی سازش کو بھاپ لیا تھا۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی سوچ اور شاعری سے تحریک آزادی پاکستان کو وہ جلا بخشی
کہ جس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ واقعی پاکستان کی کشتی کو
پار لگانے میں علامہ اقبال ؒ کی جد و جہد رنگ لائی۔ اور پاکستان دنیا کے
نقشے پر اس وقت کی مسلم دنیا کی سب سے بڑی ریاست قائم ہو گئی۔ آج علامہ
اقبالؒ ہم میں موجود نہیں مگر پاکستان ، مسلم دنیابلکہ تمام اقوام اُس کو
یاد کرتیں ہیں۔ کیونکہ علامہؒ ایک ہی وقت میں شاعرِ اسلام،شاعر مشرق،آفاقی
شاعر اور فلسفی شاعر ہیں۔اسلام کی شان میں تو علامہ اقبال ؒکی ساری شعری ہے۔
ایک محفل میں کچھ حضرات نے کہا کہ اقبالؒ نے شمال مغربی حصہ کے لیے خواب تو
دیکھا تھا۔ مگر بنگال کے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ تو ان کی حضرات کی
تشفی کے لیے، میں اقبالؒ کی یہ تحریر پیش کرتا ہوں۔’’مسلم صوبوں کے ایک
جداگانہ وفاق میں، اسلامی اصلاحات کا نفاذ ہے۔ شمال مغربی ہندوستان اور
بنگال کے مسلمانوں کو ہند اور بیرون ہند کی دوسری اقوام کی طر ح حق خو
اختیاری سے کیوں کر محروم کیا جا سکتا ہے‘‘’حوالہ خط ۲۱ جون ۹۳۷ا ء ۔ خط
بنام قائد اعظمؒ)صفحہ ۳۶۱ کتاب اقبال نامہ ثیخ عطا اﷲ مسلم یونیورسٹی علی
گڑھ۔ اسلام کی خدمت میں اقبالؒ کا ایک عظیم شعر آپ کی نظر کرتا ہوں:۔
کی محمڈؐ سے وفا تو تو ہم تیرے ہیں۔۔ ۔
یہ جہان چیز ہے کہ لوح و قلم تیرے ہیں۔
شاعر ِ مشرق جیسے، مغرب کے زوال اور مشرق کے عروج کی بات کرتے ہوئے کہتے
ہیں:۔
کھول آنکھ،زمیں دیکھ،فلک دیکھ فضا دیکھ۔۔
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔
آفاقی شاعر جیسے۔ جیسے دنیا کے عروج و زوال کی تشریع اس طرح کرتے ہیں:۔
میں تجھ کوبتاتا ہوں تقدیر امم کیا۔ ۔ ۔ ۔
شمشیر سناں اول طاؤس و رباب آخر۔
فلسفی شاعر، جیسے فلسفہ بیان کرتے ہو کہتے ہیں:۔
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔ ۔ ۔
آج کل پاکستان کے کچھ روشن خیا ل، نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ کے مخالف
اور سیکولرر نظریات کا بیک گرونڈ رکھنے والے کالم نگار اپنی ریٹینگ بڑھانے
اوراپنی خباست نکالنے کے لیے ان کی اسلامی اور آفاقی شاعری پر حملہ آور
ہونے کے لیے کالم لکھ رہے ہیں۔ مگر سورج کو انگلی دکھا کر خود ہی شرمندہ
ہوں گے ۔مسلمانوں کے دلوں کو گرمانے والے، شاعر اسلام ،شاعر مشرق، فلسفی
شاعر،اور آفاقی شاعر کو دنیا ہمشہ یاد رکھے گی۔آج وہ ہم میں نہیں ہیں ان کی
خابوں کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم دائم ہے وہ جس کشتی کو بھنور
سے نکال کر لائے تھے اب وہ اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتوں ایٹمی
قوت ہے۔ جو دشمنوں کی مقامی اور بین الاقوامی سازشوں کی باوجود اپنے بنانے
والوں خواہش کے مطابق قرارداد پاکستان کی روشنی میں اپنے مسلم تشخص پرقائم
و دائم ہے۔ مسلمانان ِپاکستان اس کو سنبھالنے کے ذمہ دار ہیں۔ انشاء اﷲ مثل
مدینہ ،اسلامیہ جمہوریہ پاکستان قائم و دائم رہے گا۔ اور محب وطن لوگ اپنی
نئی نسل کی تربیت کے لیے یہ شعر ہمیشہ گنگناتے رہیں گے:۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے۔
اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے
|