دورِ جدید میں بھی لوگوں کی بلند و بالا تر معیار کے
باوجود لوگوں کی سوچ انفرادی اور اجتماعی تور پر ایک دوسرے سے خاصی مختلف
ھے-
جس میں انسان ایک طرف خود کو دیکھتا ہے اور ایک طرف معاشرے کو۔ یہی معاشرتی
پہلو ایک عام انسان کو اپنے بارے میں سوچنے سے روکتا ہے اور یی وجہ ہے
ھمارا معاشرا ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے. جن کی سوچ سے ان کا عمل ان کی سوچ
کو رد کر دیتا ھے.
ھمارے معاشرے میں عموماً ہر پانچواں فرد ایسا ہے جو اپنے اندر کے کلاکار کو
پہچاننے سے کاسر ہے. اس کی ابتداء انسان کے اس کدم سے ہوجاتی ہے جب اس کا
پہلا قدم اپنی زندگی کے جانب بڑہتا ہے اور یہاں پر وہ اپنے اوپر ایسے
دروازے ہی بند کردیتا ھے جو اس کی زندگی کی راہ کسی ایسی جانب لے جاسکتی ہے
جس میں اسکا عمل اور اسکی خوائش ایک دوسرے کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔
اور وہ لاشعوری سے شعوری کی طرف اَتا ہے اور پھر زندگی کا مطلب صرف
ڈاکٹر،انجينئر یا پھر اکاونٹنت بننا ره جاتا ہے۰ جب کے ہر انسان جس طرح شکل
اور دماعُُْ سے ایک دوسرے سے مختلف ہے۰اس طرح اس کی صلاحتیں بھی ایک دوسرے
سے الگ ہیں۰ مگرجيسے جيسے انسان زندگی کی دور ميں آگے بڑہتا ہے اسے اس بات
کی فکر زیادہ لگ جا تی ہے کہ اب کس طرح انفراديت کے اس دوڑ ميں ايک دوسرے
کو پيچھے چھوڑا جاے چاہے وہ دل سے ایسا چاہتا ہو یا معاشرے نے اس پر يہ
مسلت کیا ہوں اور پھر يہ سب کر نے کے بعد بھی اس کے دل کو وہ سکون ميئسر
نهيں آتا جس کے لئےساری زندگی محنت کی حوتۍ ہے۔
اگر ہم بچپن سے اپنے بچوں کو اِس بات کی طرف مائل کريں کہ انھيں جو بننا ہے
جو کرنا ہے وہ اپنی حدود ميں رہ کرکر سکتے ہيں۰ بجاےٓ اس کے اِن کے اندر کے
حنٌر کو مار کر ہم انهيں بھيڑ چال ميں چلنے پر مجبور کرديتے ہیں اور لوگوں
کے سنے سنائيے تانے انھيں سنا سنا کر ڈراتے ہيں کہ اگر تم مصنف، پينٹر،
گلوکار بن گئے تو کھاؤ گے کيا، گھر کییسے چلے گا اور لوگ کيا کہيں گے يہ
کيسا شوق ہے اور پھر انھيں ان کی مرزی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتے ہيں۔
سديوں سے یئ چلا آرہا ہے اور سدیوں تک شائد يوں ہی چلتا رہے گا۰اگر ہم
انفرادی اور اجتمائ طور پر اپنی سوچ ميں تبديلی نہيں لاٸيں اور اپنے
نوجوانوں کو آگے بھڑھنے کا حوصلہ ديں انھيں ان کے خواب پورے کرنے کی ايک
کوشش تو کرنے ديں تاکہ وہ اپنے پيروں پرکھڑيں ہوسکيں اور ہر وہ کام جو وہ
کرنا چاہتے ہیں وہ خشی خشی کریں۔
|