پانی خدا تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کے بغیر زندگی
کا تصور بھی محال ہے۔ کرہ ارض پر مشرق و مغرب اور شمال و جنوب تک رنگ
بکھیرتی زندگی، زراعت، صنعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ اسی ایندھن
یعنی '' پانی '' کی مرہون منت رواں دواں ہے۔ پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر
شاندار قدرتی خزانوں کے ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔
اگر انہیں بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی
یافتہ ملک بن سکتا تھا۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر
ڈبلیو) کی رپورٹ کے مطابق ملک کی چوراسی فی صد آبادی پینے کے صاف پانی سے
محروم ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بیماریوں کے باعث ہونے والی اموات
میں چالیس فی صد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں، جس کی بنیادی وجہ
آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے قریب 39 ہزار بچے
ہیضے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کرہ ارض پر زندگی کا دارومدار
پانی پر ہے مگر بدقسمتی سے ملک میں پانی کی مقدار روز بروز کم ہوتی جا رہی
ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کرہ ارض پر چھہتر کروڑ اسی لاکھ افراد کو پینے کے
صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ ڈھائی ارب افراد کو نکاسی آب کی بہتر سہولتیں
بھی میسر نہیں۔ پانچ عظیم دریاؤں اور ایک وسیع سمندری ساحل کے حامل پاکستان
میں پانی کا بحران روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں
بارشوں کی کمی کے باعث پانی کی قلت چھتیس فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ ڈیموں سے
پانی کا مجموعی اخراج 43.2 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ زیر زمین کم ہوتی پانی کی
سطح نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیئے دریاؤں پر
ڈیمز بنانے کے لیئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح
پندرہ سو تیس فٹ پر آ گئی ہے۔ جہاں سے بلوچستان کو گیارہ فی صد اضافی پانی
بھی دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا پاکستان وافر آبی وسائل سے
محروم ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ پاکستان بہترین جغرافیائی محل
وقوع کی وجہ سے شاندار آبی وسائل رکھتا ہے۔ وافر مقدار میں پانی موجود ہونے
کے باوجود قیام پاکستان سے اب تک پانی کے شعبہ میں اصلاحات اور آبی ذخائر
میں اضافے کو ترجیح بنایا ہی نہیں گیا۔ ڈیم، نہریں، تالاب اور کنویں وہ
ذرائع ہیں جن میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نظام آبپاشی کا شمار
دنیا کے بڑے نیٹ ورکس میں ہوتا ہے جو کہ پنتالیس ملین ایکڑ رقبے پر محیط
زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو) نے متنبہ کیا ہے
کہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی۔ اس صورتحال سے بچنے
کے لیئے فوری طور پر اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ملکی دریاؤں میں آنے والے پانی سے 28 ملین ہیکٹر فٹ پانی ضائع ہو کر سمندر
میں چلا جاتا ہے۔ عالمی معیار کے مطابق کم از کم 120 دن کا پانی ذخیرہ کرنے
کی صلاحیت ہونی چاہیئے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کے لیئے پانی
ذخیرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان صرف تیس دن کے استعمال کا پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔
جبکہ مصر میں 1000 اور بھارت میں 220 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں دریاؤں کا صرف دس فی صد پانی ہی ذخیرہ ہو پاتا ہے۔ پاکستان میں
سالانہ 500 ملی میٹر جبکہ بھارت میں 1000 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پاکستان
میں شہریوں کو فی کس 1017 کیوبک میٹر جبکہ بھارت میں 1600 کیوبک میٹر پانی
دستیاب ہے۔ بھارت کے آبی منصوبے پاکستان کے لیئے خطرناک ہیں۔ بھارت سندھ
طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب و جہلم پر متنازع آبی
منصوبے تعمیر کر رہا ہے، بھارت کو اتنی جرات ہوئی کہ اس نے پہلے پاکستان کا
پانی روکنے کے لیئے دھڑا دھڑ 200 سے زائد چھوٹے بڑے ڈیمز بنائیاور اب
پاکستان کے زرعی استعمال کے پانی کو بھی روک کر بین الاقوامی قوانین کی
پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عالمی برادری کا بھی فرض ہے کہ پاکستان کو قحط
کی صورتحال سے بچانے کے لیئے بھارت کو سندھ طاس معاہدہ کا پابند کرے۔ اسٹیٹ
بینک کی رپورٹ کی مطابق 2030 تک پاکستان پانی کی شدید قلت والے 33 ممالک کی
فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ سنگا پور پاکستان کے مقابلے میں زیادہ واٹر
اسٹریس یعنی دباؤ کا شکار ہے۔ وہاں تازہ پانی کی جھیلیں یا ذخائر موجود
نہیں، اور پانی کی طلب فراہمی سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود عمدہ مینجمنٹ،
عالمی معاہدوں اور ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے سنگاپور کا
شمار بہترین واٹر مینجرز میں ہوتا ہے۔ اس قحط سالی سے بچنے کیلیئے پاکستان
کو نئے ڈیمز بنانا ہوں گے۔ دنیا بھر کے ممالک زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے
استعمال کے ذریعے نہ صرف پانی کی بچت کر رہے ہیں بلکہ اپنے آبی ذخائر میں
اضافے کے لیئے تالاب، جھیلوں اور ڈیموں کی تعمیر پر بھی خصوصی توجہ دے رہے
ہیں۔ پانی کے مسائل کے بارے میں عوامی شعور پیدا کرنا ہو گا۔ طلب اور
فراہمی کے سلسلے میں حکومت اور انفرادی سطح پر ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہو
گا۔ پانی کے بہتر اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کے لیئے اسکولوں اور
میڈیا پر مہم چلائی جائے۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر حکومت کو
ذخیرہ آب کی طرف توجہ دیتے ہوئے مناسب اقدامات کرنے چاہیئں تاکہ مستقبل میں
کسی بھی سنگین صورتحال سے بچا جا سکے۔ |