"Candles in the dark"پاکستان کا مثبت چہرہ

پاکستان کا ادارتی نظام بہت ہی کمزور سمجھا جاتا ہے۔اکثر یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ ادارے ڈوب رہے ہیں۔کرپشن نے اداروں میں گھر کرلیا ہے۔لیکن اس کمزور اور ڈوبتے ہوئے نظام میں ہی کئی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ دنیا میں نام کمایا ہے۔ایسے ہی چند اداروں کا جائزہ محمود علی ایوب اور سید تراب علی نے"Candles in the dark"جیسی خوبصورت اور پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانے والی کتاب میں دیا ہے۔ہماری 70سالہ تاریخ صرف ناکامیوں کی نہیں بلکہ اپنے دامن میں بہت کامیابیاں بھی سمیٹے ہوئے ہے۔جن9کامیاب اداروں کا اس خوبصورت کتاب میں جائزہ لیاگیا ہے۔یہ ادارے اب پاکستان کے باقی ماندہ اداروں کے لئے مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ پاکستان میں حالات اداروں کے ترقی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔آخر ان اداروں نے بھی اسی ملک کے ماحول میں انہیں اندھیروں میں چراغ بن کر دکھایا ہے۔ان میں ایسے ادارے بھی ہیں جو پبلک سیکٹر میں کام کررہے ہیں اور ایسے بھی جو پرائیویٹ سیکٹر میں سالہاسال سے اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔اپنی کارکردگی اور انتظام و انصرام کی وجہ سے ملک کے اندر اورباہر ایسے ادارے پاکستان کا نام بلند کررہے ہیں۔کتاب میں جن اداروں کی کارکردگی کا جائزہ اور نتائج پیش کئے گئے ہیں۔ان میں تعلیمی ادارے بھی ہیں اور عوامی فلاحی ادارے بھی ہیں۔ایسے بھی ہیں جو صرف پاکستانی حکومتی اخراجات سے چل رہے ہیں۔اور ایسے بھی جنہیں بیرونی ممالک سے امداد ملتی ہے۔تعلیمی اداروں میں IBAکراچی اورLUMSلاہور کا جائزہ لیاگیا ہے۔IBAکراچی تو پاکستان کے قدیم ترین اداروں میں شمار ہوتا ہے۔1955ء میں ہی یہ امریکی مددسے قائم ہوگیاتھا۔کراچی یونیورسٹی کے تحت شروع ہونے والاادارہ اب ایک مکمل یونیورسٹی ہے۔ایشیائی بزنس سکولوں میں اپنا ایک مقام بنا چکا ہے۔80ء کی دہائی سے پہلے یہاں کافی غیر ملکی طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے رہے ہیں۔پاکستان میں قیام امن کے بعد غیر ملکی طلباء کے دوبارہ آنے کا امکان اب بڑھ چکا ہے۔سید بابر علی کی کوششوں سے کئی دہائیاں پہلے شروع ہونے والا LUMSبھی معروف ہوچکا ہے۔LUMS کو 1985ء میں چارٹر ملا۔جاوید حمید پہلے ڈائریکٹر نے یہاں ہاورڈ بزنس سکول کا نصاب متعارف کرایا۔1993ء سے یہ یونیورسٹی اپنے خوبصورت کیمپس میں کام کررہی ہے۔اب چارشعبوں،بزنس،سائنس اینڈ انجیئرنگ ،آرٹ اور قانون کی اونچے درجے کی تعلیم جاری ہے۔LUMS کانام بھی ایشیاء کے معروف تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔موٹروے پولیس نے پاکستان اور باہر کے ممالک میں اپنا نام اور مقام بہت تیزی سے بنا لیا ہے۔پاکستان کی پہلے سے موجود پولیس سروسز بہت بدنام ہوچکی ہیں۔موٹروے پولیس کو1997ء میں نئی بننے والی لاہور۔اسلام آباد موٹروے کے لئے قائم کیاگیاتھا۔پھر اس کا دائرہ موٹروے اور ایکسپریس ویز تک بڑھا دیاگیا۔اس کی کارکردگی پاکستانی خود ہی دیکھتے رہتے ہیں۔اس کے بہت سے مقاصد میں سے ٹریفک قوانین کو توڑنے والوں کی سخت نگرانی اور سفر کرنے والے مسافروں کی امداد ہے۔اب اس پولیس کے پاس دنیا کی جدید ترین سہولیات ہیں۔دوسری پولیس سروسز کے بالمقابل موٹروے پولیس نے پورے ملک میں ایک نام کمایا ہے۔موٹروے پولیس میں اب تک کرپشن کا کوئی واقعہ نہیں سنا گیا۔نوجوانوں کی بھرتی صرف اور صرف میرٹ کی بنا پر ہوتی ہے۔ٹریننگ بہت اونچے درجے کی ہے۔عوام موٹروے پر بہت سے وزراء کے چالان ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔قانون سب کے لئے برابر کی مثال موٹروے پولیس عملاً قائم کرکے دکھا رہی ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بھی کتاب میں جائزہ شامل ہے۔شروع میں اس کے طریق کار میں خامیوں کی وجہ سے کرپشن کی شکایت بھی آئیں۔2008ء سے شروع ہونے والے اس پروگرام پر ملکی اور غیر ملکی اداروں نے اب اس پر اعتبار کرنا شروع کردیا ہے۔اس کے2۔میجر مقاصد بتائے گئے تھے۔پہلا شدید غربت میں کمی اور پاکستانی خواتین کے وقار میں اضافہ۔جب یہ پروگرام شروع کیاگیا تھا۔ملک میں مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔آہستہ آہستہ جونہی تقسیم رقوم کو تکنیکی طریقے سے چلایاگیا۔تو غرباء کو واقعی فائدہ ہونا شروع ہوا۔یہ بھی ایک اچھی خبر تھی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد بھی اس کا نام تبدیل نہیں کیاگیا۔حق دار عورتوں تک1500روپے ماہانہ کیش پہنچانے کے لئے نادرا نے عالمی بنک کے ساتھ ملکر اب فل پروف Scorecardترتیب دے لیاہے۔ابتدائی سالوں کی شکایات اب باقی نہیں رہیں۔امدادی کارڈز کی تیاری میں عوامی نمائندوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔اس کے تحت وسیلہ تعلیم اور وسیلہ روزگار کے پروگرام بھی کامیابی سے چل رہے ہیں۔پروگرام کو کامیاب کرنے میں نادرا کے ساتھ پاکستان پوسٹ،آبادی کی گنتی کا ادارہ،موبائل فون سروسز اورکمرشل بنک بھی تعاون کررہے ہیں۔پاکستان جیسے کرپٹ معاشرے میں،غریب خواتین کو اگر مالی مدد مل رہی ہے۔تو اس ادارے کی بڑی کامیابی ہے۔مسلم لیگ کی حکومت نے ہرمالی سال میں اس سکیم کے تحت امدادی رقوم میں اضافہ کیا ہے۔حکومت پاکستان کی امدادی رقم اب100۔ارب سالانہ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ماروی میمن اب پروگرام کی نگران اعلیٰ ہیں۔نادرا نے بھی پاکستانی ماحول میں کام کرکے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔آبادی کی رجسٹریشن کا سادہ سا کام ابتدائی طورپر ذولفقار علی بھٹو کے زمانے میں1973ء میں شروع ہواتھا۔موجودہ نادرا کا ادارہ2پرانے اداروں کے انضمام کے بعد 2000ء میں قائم ہوا۔اب یہ پاکستان کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ہے۔اور18000تربیت یافتہ اور ماہر لوگ اس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔شناختی کارڈ جاری کرنے کے ساتھ پاکستانیوں کی ہر طرح کی معلومات اب اس ادارے کے پاس جمع ہیں۔اب ادارے کی طرف سے حکومت کو ماثر حکومت قائم کرنے کے لئےE-sahulatقائم کردی گئی ہے۔یوٹیلیٹی سروسز کیOnlineسہولت فراہم کرنے سے پاکستانی شہریوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔نادرا اور بھی آئی۔ٹی سے متعلقہ خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ادارے کی کارکردگی کو دیکھ کر کئی دوسرے ممالک نے بھی اس ادارے کی خدمات سے فائدہ اٹھایا ہے۔کتاب میں پنجاب ایجوکیشن فونڈیشن کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیاگیا ہے۔اس کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے۔یہ ادارہ1991ء سے کام کررہا ہے۔اسے مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت دونوں کی طرف سے تعلیم کے پھیلاؤ اور ترقی کے لئے امداد ملتی ہے۔عالمی بنک بھی امداد دہندگان میں شامل ہے۔طلباء کو تعلیم کے دوران مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔پنجاب میں طلباء کی تعداد میں اضافہ کرنا فونڈیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔اس کی کارکردگی بھی اب تک مثالی رہی ہے۔ایدھی فونڈیشن کو آپ تمام لوگ ہی جانتے ہیں۔یہ ادارہ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تعارف کراتا ہے۔عبدالستار ایدھی نامی انسان کی ذاتی کوششوں سے یہ پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے کے طورپر کام کررہا ہے۔اس کی سرگرمیاں کئی اطراف میں پھیلی ہوئی ہیں۔Rescue1122کوبھی ایسے اداروں میں شامل کیاگیا ہے جو اب تک بڑی کامیابی سے کام کررہے ہیں۔اس کی سروس اطلاع ملنے کے چند منٹوں بعد مہیا ہوجاتی ہے۔پرویز الہٰی کے زمانے میں شروع ہونے والے ادارے کی کارکردگی کو بھی ملکی سطح پر سراہا جاتا ہے۔دوسرے صوبوں نے بھی اس طرح کی صوبائی سروسز شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔آخری ادارہ جس کا اس کتاب میں بہت ہی اچھے الفاظ میں ذکر ہے۔وہ شوکت خانم ہسپتال ہے۔ہم میں سے ہرکوئی اسکی کارکردگی سے واقف ہے۔نہ صرف کینسر بلکہ دوسرے امراض کا علاج بھی انتہائی معیاری درجے کا ہے۔شوکت خانم کی ٹیسٹ لیبارٹریز اب عالمی معیار پر آگئی ہیں۔ان تمام اداروں کی تفصیل آپ 288صفحات کی آکسفورڈ پریس کی طرف سے شائع کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔مسائل میں گھرے پاکستان میں ایسے کامیاب اداروں کی کارکردگی اندھیروں میں چراغ کی حیثیت رکھتی ہے۔پاکستان میں بہت کچھ مثبت ہورہا ہے جاننے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.