تحریر۔اریبہ فاطمہ ، سیالکوٹ
رات میں بابا جان کے قدموں میں بیٹھی ان کے پاؤں دبا رہی تھی اور ایک عجیب
سی سکونیت میری روح کو محسوس ہورہی تھی ……بابا جان کو اس بات کا بخوبی علم
تھا کہ مجھے علم سیکھنے کا بہت شوق ہے ...وہ جب بھی کوئی چیز سیکھ کے آتے
تو مجھے آواز دے کر پاس بلاتے اور سب کا سب بتا دیتے ...یہ چیز میرے لیے
باعث مسرت ہوتی اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ان کی گفتگو کا اکثر موضوع
روحانیت اور رب العالمین سے سر گوشیوں میں مگن اشخاص کے اوصاف پر مبنی ہوتا
……کل رات مجھے سمجھانے لگے بیٹا رب العالمین صرف تہجد گزاری یا نوافل سے
نہیں ملتا …….رب العالمین کو پانے کی سب سے اہم راہ اس کے لیے قربانیاں
دینے میں کوتاہی نہ کرنا ہے...ہمارا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے .ہم جانتے ہی
نہیں کہ قربانی کیا ہے ؟اس کو سمجھ ہی نہیں سکے……انہوں نے کچھ لمحے کے لیے
سکوت اختیار کی اور ایک آہ بھری پھر خاموشی کو توڑتے ہوئے فرمانے لگے ……ایسی
حالت جہاں ہمارے پاس بدلہ لینے ,حق جتلانے اور کسی کو نیچا دیکھانیکی پوری
طاقت ہو ……لیکن ہم اسے معاف کر دیں ...اس وقت ہم اپنے نفس کو مات دے کر نفس
کی قربانی کر رہے ہوتے ہیں …….اس راہ میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا کہ
تمہارے دل میں یہ تمنا بھی نہ ہو کہ یہ شخص مجھ سے معافی مانگ لیں یا میرے
چپ رہنے سے یہ جھک جائے ...اور قلب کو ایسی عادت ڈالنا کہ ہمیں ہزار تکالیف
اور طعنوں جیسی زندگی گزارنی پڑ ے پھر بھی پرسکون رہے ……کبھی بھی دل میں یہ
خیال ہی نہ لانا کہ مجھے بہت تکالیف دی جارہی ہیں تو میں کیوں اس سے رویہ
بہتر رکھوں؟۔بلکہ اس کیساتھ میل جول پہلے سے زیادہ بہتر بنانا ہے۔مجھے ایک
مثال کے ذریعے سمجھانے لگے کہ اگر آپ ایک شخص کے ساتھ ہمدردی کرتے ہو ...اس
کے کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہو……تو یہ آپ کی قربانی نہیں یہ ہمدردی ہے...
ایک دن وہ شخص آپ کی بیٹی پہ الزام لگاتا ہے ...تہمت کے لیے انگلی بلند
کرتا ہے ……آپ کا سلوک اس سے ویسا ہی رہتا ہے...آپ اس کو معاف بھی کر دیتے
ہو اور تعلق بھی ختم نہیں کرتے پہلے جیسا ہی رویہ اختیار کرتے ہو……تو یہ ہے
اصل قربانی. لیکن اگرآپ کا رویہ بدلنا شروع ہوجاتا ہے آپ اسکی مدد کرنا ترک
کردیتے ہو……رب العالمین کہتا ہے کہ اے میرے بندے!!!کیا تم نے مدد اس کے عزت
کرنے کے لیے کی تھی یا میری رضا کے لیے …….آپ کی انتھک محبت کے باوجود
ہمدردی کے باوجود اگر آپ کو کو ئی زیادتیوں سے دوچار کرتا رہے.اپ پھر بھی
ہمدردی کرتے رہے تو اسکو کہے گے قربانی۔دراصل اپ کی ہمدردی کی انتہا ہی
قربانی ہے۔۔جہاں آپ بدلہ لینے کا حق رکھتے ہوں آپ کا پلہ بھاری ہو کوئی آپ
کو روکنے والا نہ ہو آسانی سے اپنے اوپر کیے گئے ستم کا بدلہ لے سکتے ہوں
اس جگہ معافی دینا ہی قربانی ہے۔ یاد رکھیے گا قربانیاں اپنے سے کم مقام
والے کم عمر والے کم مال والے کم علم والے پر ہی کی جاتی ہیں۔اپنے سے بڑے
لوگوں سے رعایت برتنا تو صرف اپنی عزت کا حصول یا بڑے لوگوں کا ڈر ہوتا
ہے۔اس لیے کم تر طبقہ والوں کے لیے قربانیاں دینا شروع کریں..کیونکہ رب ا
لعالمین قربانیوں سے ملتا ہے۔ پھر جب آپ اس کے دربار میں جاتے ہو تو آپ کے
ہاتھ میں اسے کے لیے کی گئی قربانیوں کا شاپر ہوتا ہے ……جیسیآپ کسی کے گھر
پھلوں کے لادے ہوئے شاپر لیے جاتے ہو۔ . |