نا اہل قیادت اور کفرِ جمہوریت
Disabled leadership and infidelity of democracy
عدم الإيمان والاضطراب في الديمقراطية
ہمارے معاشرہ کی بے حرمتی، ذلت ورسوائی میں نااہل قیادت کا ایک پہلو نمایاں
نظر آتا ہے۔ جس ملک ، جس محکمے ، جس ادارے، انجمن یا تنظیم میں چلے جائیں
قیادت نااہل لوگوں کے ہاتھ نظر آئے گی ۔ نا اہل سے مراد صرف ناخواندہ نہیں
بلکہ وہ لوگ بھی نااہل ہیں جن کے دلوں میں قوم کا احترام اور اخلاص نہیں
اور دینی اصولوں سے محبت و شناخت نہیں رکھتا اور ان کا ملک میں راج و نفاذ
کرنے میں مسلسل کمر بستہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایسے لوگ ان پڑھوں سے بھی زیادہ
نااہل ہیں ۔ نااہل قیادت کی تباہ کاری کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگا یا
جا سکتا ہے کہ
اذا وسد الامر الیٰ غیر اہلہ فانتظر الساعۃ o
’’جب قیادت نااہل لوگوں کو سونپ دی جائے تو پھر قیامت کا انتظارکرو۔‘‘
حقیقی عالمی اسلامی فلاحی انقلاب لانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت ،
ملوکیت اور آمریت کے کفر پر مبنی فاسد نظام کو نیست و نابود کرکے اس کی جگہ
قرآن وسنت کو جلوہ گر کیا جائے۔ ہم خلافت راشدہ کے عظیم دور سے دوبارہ اسی
صورت اپنا ناطہ جوڑ سکتے ہیں جب ہم سب مل کرانتہائی خلوص و اخلاص کے ساتھ
اپنے اپنے مفادات کو پس پست پھینک کر ملک میں صرف ایک حقیقی عالمی اسلامی
فلاحی انقلاب لانے کیلئے کمربستہ ہو جائیں اور اس فرسودہ شیطانی نظام کی
جگہ حقیقی عالمی اسلامی فلاحی نظام حیات کا نفاذ کریں ۔ یہ اسی صورت ممکن
ہے جب ہم اس موجودہ فاسد نظام کا حصہ نہ بنیں بلکہ اس سے تصادم مول لیں ،
تدہی انقلاب کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں ۔ اس نظام باطل کا حصہ بن کر ہم
کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ انقلاب لانے کیلئے ہمیں ہر حال میں اس سے تصادم
مول لینا ہوگا کیونکہ اس باطل شیطانی نظام کے تحت ہمیشہ وہی لوگ سامنے آتے
ہیں جو علاقے کے منے تنے بدمعاش ، ڈکیٹ، جاگیردار ، نااہل اور انتہائی کرپٹ
قسم کے ہوں ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی شخص کتنا ہی شریف النفس ، صاحب
اخلاق ، بلند کردار ، متقی و پرہیزگار اور خدا ترس و فیاض ہے بلکہ یہ دیکھا
جاتا ہے کہ اس کے پاس دھن دولت اور جائیداد ہے، کتنا رعب اور دبدبہ رکھتا
ہے، علاقہ کے کتنے باشندے اس کے زیر اثر ہیں۔
حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بالکل بجافرمایا
تھا کہ
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
جمہوریت کے معنی ہیں جمہور کی حاکمیت، یعنی معاشرہ کے لوگ اپنے اچھے برے کا
خود فیصلہ کریں، لوگوں کی اجتماعی سوچ جس خواہش کا اظہار کرے اس کے مطابق
قانون خود ترتیب دئیے جائیں، کسی دین ، مذہب کی طرف نہ دیکھا جائے کہ وہ
کیا کہتا ہے۔ لوگوں کی مجموعی خواہش اپنے علاقے میں مختارِ مطلق ہو اور ان
کی مجموعی خواہش کے مطابق قانون بنے اور حکومت کی غرض صرف یہ ہوکہ اس کا
نظم وضبط رکھے اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے
کام آئے۔ جمہوریت کے بنیادی مقاصد میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ حکو مت اور
مذہب کا باہمی تعلق ختم کر دیا جائے یعنی مذہب کو ریاست اور اس کے قوانین و
معاملات میں کسی قسم کے عمل دخل کی اجازت نہ ہو۔ کیا کبھی کسی نے یہ دیکھا
کہ ہمارے ارکان اسمبلی نے قانون بناتے ہوئے قرآن و حدیث کی کتابیں اپنے
سامنے رکھی ہوں؟ یا قرآن و حدیث کا کوئی حکم ، شریعت و فقہ کے کوئی مسائل
زیر بحث آئے ہوں؟ یا کوئی قانون تجویز کرتے ہوئے قرآن و حدیث سے راہنمائی
لی گئی ہو؟
جمہوریت نہ صرف انتہائی فرسودہ بلکہ بیکارو عبث ہے کیونکہ اس میں ووٹنگ کے
ذریعہ افراد کو گناجاتاہے ان کو دین و ایمان اور اخلاقیات کی کسوٹی پر رکھ
کر تولا اور پرکھا نہیں جاتا کہ وہ بار امانت کو اٹھانے کے قابل بھی ہیں یا
نہیں۔ بندوں کو گننے والی جمہوریت میں اکثریت کی رائے بھی اپنی نہیں ہوتی
بلکہ چند خود غرض اور بددیانت دولت مندوں، جاگیرداروں، مفاد پرست بااثر
طبقے کی رائے ہوتی ہے جس کو وہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پرعام
لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔عام طور پر دیکھا گیا کہ شرح ووٹنگ کا تناسب 40فیصد
سے بھی کم رہتا ہے ۔ اور باقی 60فیصد لوگ کیا چاہتے ہیں انہوں نے ووٹ کیوں
نہیں دیا ؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی کسی نے سوچنا بھی گوارا نہیں
کیا۔حتیٰ کہ 10فیصد شرح کاسٹنگ پر بھی سیٹ کا فیصلہ ہو جاتا ہے جو چند مفاد
پرستوں کی کاوش سے عمل میں آتا ہے اور باقی 90 فیصد جائیں باڑ میں انہیں ان
سے کیا غرض ان کا مفاد تو نکل گیا، انہیں سیٹ چاہیے تھی وہ انہیں مل گئی۔
پھر اس جمہوریت میں عام آدمی کو آزادی رائے کا حق بھی حاصل نہیں ہے وہ اپنے
علاقہ کے بڑے زمیندار،بااثر و بااختیار افراد کی رائے کے نیچے دبے ہوتے
ہیں۔ اگر کوئی عام آدمی ان کی رائے سے ہٹ کے اپنے ضمیر پر فیصلہ کرنا چاہے
تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ ہماری رائے کے خلاف چل کے تونے جینا کہاں
ہے، ہماری زمینوں کی طرف قدم تو رکھنا ہم تمہیں بتائیں گے یا ہم سے کوئی
واسطہ پڑا تو تمہیں سبق سیکھائیں گے۔ بااثر طبقہ کی رائے پر ووٹنگ نہ کرنے
پر کمزور اقوام کو ہر ممکن طریقہ سے کسی نہ کسی جال میں پھنسا کر انتقام
لیا جاتا ہے۔کبھی کوئی کاموں کا لالچ دے کر ووٹ کا پابند کیا جاتاہے ، تو
کبھی تھانہ کچہری میں معاونت کا چکر دے کر ، تو کبھی دولت کے بل بوتے پر ان
کے ضمیر کو خریدا جاتا۔کیا اس کا نام جمہوریت ہے؟ کیا یہی آزادی رائے
ہے؟اگر جمہوریت آزادی رائے کا نام ہے تو لوگوں کے گھر گھر بااثر افراد لے
جا کر کمپین کر کے محبور کرنا کیسا؟ آزادی رائے تو یہ کہ لوگوں کو ہر طرح
کے رعب، دبدبہ سے بالاتر فری ہینڈ حاصل ہو کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ
کریں۔
ہمارے ہاں یہ جمہوریت ہے کہ ممبران طرح طرح کے ڈھونگ، ہیلے بہانوں سے عوام
کے ضمیر کو خرید کر لاتے ہیں اور پھر آگے اپنے مفاد کا غلام بن چلتے ہیں کہ
کہاں سے کچھ زیادہ حاصل ہو سکتا۔سودے بازی سے وزارتیں بنتیں، عوام کے خریدے
ہوئے ضمیر کو آگے بیچا جاتااپنی من پسند شخصیت کو منہ مانگے مطالبے پر۔میرا
ایک سوال ہے کہ زرداری کو کس نے صدر بنایا پاکستان کے عوام نے یا ضمیر
فروش، مفاد پرست ممبران نے؟کیااگر براہ راست عوام سے رائے لی جاتی،
ریفرنڈیم کروایا جاتا توکیا اس کا صدر بننا ممکن تھا ؟ ہمارے ہاں یہ
جمہوریت چل پڑی کہ پارٹیاں عوام کے ضمیر کو خریدتی ہیں اور پھر لیڈر ، وزیر
،مشیر پارٹی ممبران، مفاد پرستوں کی رائے اور مرضی کے عوام پر مسلط کیے
جاتے ہیں۔ یہ جمہوری نظام تو آمریت اور اشتراکی نظام سے بھی بدتر ہے کیونکہ
اس نظام حکومت نے ملوکیت کی روح کو قائم کر رکھاہوا ہے، یہ شاہی اور آمرانہ
طرز حکومت کا ہی تبدیل شدہ نام ہے۔اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ اس طرز حکومت
کا ثمر ہمیشہ ڈویروں، سرمایہ داروں اور امراء کو ہی پہنچا ہے، یہی طبقہ اس
کے فیوض و برکات سے مستفید ہوا ہے۔ آپ جمہوریت کو پچھلی دو سو سالہ تاریخ
سے مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ اس سے عوام الناس کو کیا ملا، اس کے ثمرات عوام کو
کہاں تک پہنچے؟ معاشرے کے ان دبے کچلے محروم اور پسماندہ طبقات کو اس نے
کیا دیا ؟ دوسو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ محروم اور پسماندہ طبقات
اس کے ثمرات اور فیوض و برکات سے آج بھی محروم ہیں۔
پھر اس جمہوری نظام کی ایک اور خصوصیت بڑی منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ جو اس
نظام کے تحت ممبر اسمبلی منتخب ہو گیا وہ کسی مقدس کتاب سے بھی زیادہ
معتبر،پاک صاف، ارفع و اعلیٰ بن گیا۔ہر قسم کے ہیچ، اونچ نیچ سے
مستثناء،قانون اس کے ہاتھوں میں ، ادارے اس کے ہاتھوں میں ، عوام کے حقوق ،
عوام کا اچھا برا مقدر ان کے ہاتھوں میں۔ عوام پر جیسے غیض و غضب ڈھائیں،
ماریں پیٹیں، ان کے حقوق کو کھائیں اور پامال کریں۔اپنے مفادات کی حفاظت کی
آڑ میں پورے کے پورے انسانی وجود کو مٹوا دیں ان پر کوئی گرفت نہیں۔کوئی ان
کے خلاف شکایت، مقدمہ، محاسبہ، پوچھ گچھ کی جرات نہیں کر سکتا۔اگر کوئی
ناسمجھ بھولے بھٹکے سے ان کا کیس لیکر قانون کے محافظوں کے ہاں چلا بھی
جائے تو کہتے او ہو ! یہ کس خدا کی توہین ہو گی پہلے تو تو آ نا، اور وہ
توہین و گستاخی کے کیس میں آہنی سلاخوں میں بند کر دیا جاتاہے۔
جمہوریت کے برعکس اسلامی طرز حکومت پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ
ہو تا ہے
کہ آج سے 1437 سال قبل نبی کریم ﷺنے مدینہ میں جس چھوٹی سی اسلامی ریاست کی
بنا رکھی جو بڑھ کر آدھی دنیا تک پھیل گئی، وہ ایک مثالی حکومت تھی۔جس کی
سب سے نمایاں خوبیوں یہ تھیں کہ خلیفہ وقت عوام کی دولت کا مالک نہیں بلکہ
اس کا امین ہوا کرتا تھا۔کوئی بھی شخص کسی بھی وقت خلیفہ سے مل سکتا تھا۔اس
وقت کے گورنر، امیر، قاضی یا جج کو اپنے گھر کے باہر دربان تک کھڑا کرنے کی
اجازت نہ تھی کہ وہ لوگوں کے آزادانہ آمد و رفت میں رکاوٹ کا باعث نہ
بنیں۔آج کی جدید مغربی جمہوریت کی طرح اسے صرف بولنے کی ہی آزادی نہ تھی
بلکہ خلیفہ وقت کیخلاف شکایت یا مقدمہ کیلئے اسے کسی پارلیمنٹ ، اسمبلی یا
سپریم کورٹ سے اجازت کی ضرورت نہ تھی۔خلیفہ وقت عام آدمی کی طرح عدالت میں
حاضر ہوتے اور مقدمہ کا فیصلہ سنتے اور خندہ پیشانی سے اسے قبول کرتے۔ایک
عام آدمی اپنے شہر یا ریاست کے گورنر یا اس کے رشتہ دار کیخلاف اس کے
معمولی ظلم کے خلاف شکایت براہ راست دربار خلافت میں کرتا تو خلیفہ وقت اسی
وقت فیصلہ صادر فرماتے اور گورنر اور اس کے بیٹیوںیا عزیز وں کو اسی وقت
سزا دی جاتی۔ آج کسی عام آدمی کی شکایت پر گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر ، مشیر،
سیکرٹری کویا ان کے کسی قریبی رفقاء کو سزا؟۔۔۔۔۔ معاذ اللہ ! کسی خدا کی
توہین ہو جائے اور وہ سب کچھ درہم برہم کر دے۔
خلافت راشدہ کے بعد شخصی بادشاہت کا دور شروع ہوا اگر چہ اس میں عام
انسانوں کو اظہار رائے کی آزادی اور دیگر آزادی ویسی نہ تھی لیکن بہر صورت
آج کے نظام حکومت سے تو ہزار درجہ بہتر تھا کیوں کہ وہاں بھی کوئی بھی کسی
کے خلاف مقدمہ قاضی کی عدالت میں کر سکتا تھا اور اسے انصاف جلد سے جلد مل
جایا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گرچہ خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی تھی
لیکن بہر حال ان کے سامنے آخرت میں محاسبہ کا تصور اتنا ہی مضبوط تھا جتنا
ان سے پہلے کے خلفاء میں ،یعنی خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کے تصور سے
انہیں حاکم ہوتے ہوئے بھی مملوک کے حقوق کا احساس تھا۔ آج کے حکمران و
سیاستدان آخرت کے اس محاسبہ و فکر، خوف خدا اور جواب دہی کے تصور سے بالکل
خالی و بے نیاز ہیں۔کوئی فکر نہیں، کوئی خوف نہیں کہ آخرت میں خدا کے حضور
جواب دہی کیلئے حاضر ہونا ہے وہاں ایک ایک پائی اورایک ایک عمل کا حساب
دینا ہے۔
متاع معنی بیگانہ از دون فطرتان جوئی
ز موران شوخی طبع سلیمانی نمی آید
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
دانائے راز حضرت اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ اے بے فکر! تم فکر کہاں سے لینا
چاہتا ہے، ان پست ، جاہل اور کمینہ صفت لوگوں سے؟تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ
چیونٹیوں میں فطرت سلیمان علیہ السلام نہیں مل سکتی۔کہاں چیونٹی اور کہاں
حضرت سلیمان علیہ السلام ، ہم ایک چیونٹی سے سیدناسلیمان علیہ السلام کی سی
ذہانت طبع کی توقع نہیں کرسکتے۔ جمہوریت میں پہلے عوام کو گدھا بنایا جاتا
ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ووٹ دے کر اپنا سوار چن لو۔ جمہوریت کوترک کردو
کیونکہ اگردوسوگدھے بھی جمع ہوجائیں تو ان سے ایک انسان کے فکر کی توقع
نہیں کی جاسکتی۔ اے مسلم! تو گدھا بننا چھوڑ اور کسی پختہ تر، صاحب بصیرت
کسی امام کے پیچھے چل ، کسی عظیم رہبر کا پیرو بن۔
ایک انگریز مورخ ’’ نپولین(Napoleon)‘‘ نے کہا تھا کہ’’ اگرسو کتے اکٹھے کر
لیے جائیں اور ان کی قیادت ایک شیر کے ہاتھ دی جائے تو سارے شیر کی طرح
لڑیں گے، اس کے برعکس اگر سو شیر اکٹھے کر لیے جائیں اور ان کی قیادت ایک
کتے کے ہاتھ دے دی جائے تو سارے کتے کی موت مریں گے۔‘‘
آج ہماری قوم کی مثال بعینہ اسی طرح ہے کہ شیروں کی قیادت کئی کتے کر رہے
ہیں اور نتیجتاً پوری قوم ، پوری ملت اسلامیہ کتوں کی طرح مر رہی ہے اور در
در کی جھرکیں سہ رہی ہے۔ ذلت و رسوائی، خواری و ناداری اسے سبھی اطراف سے
چمٹی ہوئی ہے۔ بہادر و باہمت قوم کی قیادت بزدلوں، لٹیروں، چوروں، ڈاکوؤں،
بد عنوان اور کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ نتیجتاً آج بڑوں کے یہ وصف پوری
قوم میں نمایاں نظر آتے ہیں کہ قوم مجموعی طور پر بد عنوان، کرپٹ، پیٹ پرست
ہے، کوئی اپنے مفاد سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں، چوری ، ڈاکہ اور بددیانتی
عام ہے۔ آج پوری قوم مجموعی طور پر بدیانت، خود غرض، بد عنوان و کرپٹ، مفاد
پرست نظر آتی ہے۔یہ قدرت کا دستور ہے کہ جیسے حکمران ہوں گے ویسے ہی عوام
ہوں گے۔ جیسے عوام ہوں گے ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں اور
پھر ان حکمرانوں کے وصف عوام میں پختگی اختیار کرتے جاتے ہیں۔ یہ تو ظاہر
ہے اولی الامرجو کریں گے تابع بھی وہی کچھ کر کے دیکھائیں گے۔ اگر حکمران و
رہبر، اولی الامر دیانتدار و راست باز ہو ں گے تو یقیناًعوام الناس بھی اس
کی کچھ جھلک دیکھائی دے گی۔ اگر اولی الامر عیار و مکار، دغا باز، بد عنوان
اور کرپٹ ہو ں گے تو عوام ان سے کوسوں آگے ہوں گے جیسا کہ آج کا منظر نامہ
اس کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ |