پاکستان میں تعلیم

ستر سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ہم اپنا تعلیمی نظام درست نہیں کر سکے۔ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنا ہمارا تعلیم نظام انگلش میں کریں یا اردو میں کریں ملک کی قومی زبان اردو ہے لیکن نظام تعلیم انگلش میں ہے آئے دن نصاب کی تبدیلی بھی طلبا کے لئے مشکلات پیدا کرتی ہے ابھی تک ایسے سکول ہیں جن میں بنیادی ضرویات تک نہیں ہیں بہت سے سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے انگریزی زبان بچوں کو ضرور پڑھانی چاہیئے لیکن تمام نصاب انگریزی میں کرنے سے بچوں میں نقل کا رحجان بڑھتا ہے کیونکہ گھروں میں بھی اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اگر انگریزی پڑھانی ہی ہے تو پہلے انگریزی کو عام کیا جائے یہاں تو انگریزی سکھانے والوں کو انگریزی نہیں آتی تو طلبا خاک انگریزی سیکھیں گے۔پاکستان اپنے بجٹ کا انتہائی کم حصہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے جس سے تعلیم عام کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

ابھی بھی دور دراز کے علاقوں میں طلبا کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔زیادہ تر سکولوں میں استاتذہ کی کمی ہے اس کے علاوہ کمروں اور فرنیچر کی بھی شدید قلت ہے۔کمرے نہ ہونے کی وجہ سے بچے کھلی ہوا میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جنہیں شدید گرمی اور سردی کا سامنا رہتا ہے اور ان کے بیمار ہونے کا خدشہ بد ستور قائم رہتا ہے سب سے پہلے گورنمنٹ کو طلبا کے لئے تمام سکوں میں کمروں اور فرنیچر کا بندوبست کرنا چاہیئے اور جہاں پر معلم کی کمی ہے وہاں ان اسامیوں پر جلد از جلد استاتذہ بھرتی کئے جائیں۔بعض سکولوں میں کمرے تو ہیں لیکن ان کی چھتیں اتنی خستہ حال ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے پہلے تو ان بنیادی ضروتوں پر توجہ دیں تاکہ طلبا و طالبات ا ٓرام و سکون کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

اگر ہم اپنے طلبا کا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک کے طلبا سے کریں تو ہم اپنے آپ کو بہت پیچھے دیکھتے ہیں ۔ہمیں اپنا نصاب انٹڑنیشنل لیول کا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے طلبا و طالبات بھی جدیدسائینس و ٹیکنالوجی سے مستفید ہو سکیں اور دنیا میں اپنا نام پیدا کر سکیں۔ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ نصاب بدلنے کی بھی ضرورت ہے ۔نصاب ضرور بدلیں لیکن ہر روز نصاب میں تبدیلی نہ کریں تاکہ طلبا و طالبات کے لئے مشکلات نہ ہوں۔بار بار نصاب بدلنے سے جہاں طلبا و طالبات پریشان ہوتے ہیں وہیں پر والدین پر بھی ہر سال اضافی بوجھ بڑھ جاتا ہے کیونکہ آئے دن نئی کتابیں خریدنا والدین کے لئے ممکن نہیں ہے۔ایک بار نصاب کی تبدیلی کے بعد کم از کم چار سے پانچ سال تک تبدیلی نہ کی جائے۔

ہمیں استاتذہ کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ان کے لئے بھی جدید کورس متعارف کروائے جائیں تاکہ وہ طلبا و طالبات کو بھی جدید تعلیم سے روشناس کروا سکیں۔عام روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو کچھ ہنر بھی سکھائے جائیں تا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ہنر مند بھی بن سکیں۔ابھی حکومت نے کچھ کورس متعارف کروائے ہیں اور سکولوں میں پڑھائے بھی جا رہے ہیں جیسے کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم ہے یہ حکومت کا اچھا قدم ہے ہنر مندی کے لئے طلبا و طالبات کو چھٹیوں میں بھی کورسز کروائے جا سکتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ۱۰۰ فیصد تعلیم یافتہ لوگ ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ شرح انتہائی کم ہے ۔تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہی ہمارے نوجوان برائیوں کا شکار ہوتے ہیں اور غلط راستہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان کے لئے اور ملک کے لئے شرمندگی اور نقصان کا باعث بنتا ہے ہمیں اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ملک کے باعزت شہری بن سکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1840862 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More