عالمی یومِ عربی اور ہماری ذمہ داریاں

عربی کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ حتی کہ اس کے حامل ابتدائی لوگوں کی نسلوںکا وجود بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔ یعرب بن قحطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلا عربی دان تھا۔ قوم عاد، قوم ثمود اور اہلِ یمن عربی بولتے تھے۔ اہل مکہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے عربی زبان اپنے ننھیال بنو جرہم سے سیکھی۔ اہلِ عرب نے اس کی حفاظت کا بڑا اہتمام کیا۔ بڑے بڑے دیوان عربی زبان میں لکھے گئے اور خطباء و شعراء نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ حتی کہ اہل عرب اپنے علاوہ سب کو ’’عجم‘‘ یعنی گونگا کہنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی بجائے تقوی کو معیار بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ عربی کی عمومی فضیلت بھی ظاہر فرمائی کیوں کہ شریعت اسلامی کے تمام مآخذ عربی میں تھے۔ فرمایا ’’عربی سیکھو کیوں کہ میں عربی ہوں، قرآن مجید بھی عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہوگی۔‘‘ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’عربی زبان میں پختگی پیدا کرو، یہ تمہارے ذہن اور عقل میں اضافہ کرے گی۔‘‘سیدنا علی المرتضی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما اپنے بچوں کو عربی غلط بولنے پر مارتے تھے۔ امام سیوطیؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے ہاں عربی زبان کا سیکھنا فرض ہے۔ اہل یورپ کی ڈکشنریوں میں 2500 سے زیادہ الفاظ عربی کے موجود ہیں۔28حروفِ تہجی پر مشتمل اس زبان کو ’’لغۃ الضاد‘‘ (ضاد کی زبان) اور ’’اُمُّ الاَلسنہ‘‘ (زبانوں کی ماں) بھی کہا جاتا ہے۔

عربی 45کروڑ عربوں کی مادری جب کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے۔ اقوام متحدہ اور27ممالک میں اسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ 57ممالک میں اچھی طرح بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ 18دسمبر 1973ء کو اِسے اقوام متحدہ کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور 19دسمبر2010کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال اٹھارہ دسمبر کو ’’عربی زبان کا عالمی دن‘‘ منایا جائے گا۔سن 2012ء سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد مختلف خطوں کے باسیوں کو عربی تہذیب و تمدن اور معاشرہ و ثقافت سے روشناس کرانا ہے۔تاکہ عرب و عجم ، خاص طور پر مغرب و مشرق وسطی کے درمیان جھجک اور غلط فہمیوں کی دیوار گرائی جا سکے۔ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے واقف ہوں اور علوم و فنون کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔

وطن عزیز میں عربی زبان و ادب اور اس کے تکلم کے فروغ پر کوئی قابل قدر کام نہیں ہو سکا ہے۔ حالاں کہ یہاں کے ستانوے فی صد باشندے مسلمان ہیں اور عبادات کی ادائی کی صورت میںان کا واسطہ عربی زبان سے رہتا ہے۔ ایک عام مسلمان اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں روزانہ پانچ مرتبہ سنی جانے والی آذان کے ترجمہ تک سے ناواقف رہتا ہے۔ عربی کی خدمت کے حوالے سے سب سے نمایاں نام مدارس دینیہ کا ہے لیکن وہاں بھی چند ایک مصادر اور گرائمر (صرف و نحو) کے رٹنے کا نام عربی رکھا گیا ہے۔ جس سے طلبہ پڑھ کر سمجھنے کے قابل تو ہو جاتے ہیں لیکن سن کر سمجھنے اور بولنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جدید عربی ادب کو سمجھنا ان کے لیے ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ حالاں کہ اردو میں چالیس فی صد سے زیادہ الفاظ عربی سے مستعار ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہاں اس کا طریقہ تدریس بحیثیت زبان بہت قدیم ہے۔ دورِ جدید میں کوئی بھی زبان سکھانے کے لیے تین چیزیں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں: ’’پڑھنا، سننا اور بولنا‘‘۔ نیز جدید آلات مثلا پروجیکٹر، کمپیوٹر اور ملٹی میڈیا کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ مدارس دینیہ میں پڑھنے پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن سننے اور بولنے کی مشق نہیں کی جاتی۔

پاکستان میں آئینی طور پر عربی کو تحفظ حاصل ہے۔ آرٹیکل نمبر31، شق 2میں ہے ’’عربی زبان کی تعلیم و تدریس، فروغ اور اشاعت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘حکومت کو چاہیے کہ اس شق کے نفاذ کے لیے میٹرک تک عربی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ عوام میں عربی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ شائقین کو شارٹ کورسز کروائے جائیںاور ورک شاپس منعقد کی جائیں۔ قرآن و حدیث سے صحیح استفادہ کے لیے قرآن مجید و صحاح ستہ کا ترجمہ نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ عربی زبان میں خطابت و مقابلہ مضمون نویسی منعقد کیے جائیں۔ عرب اساتذہ کو وطنِ عزیز میں آنے کی ترغیب دی جائے۔ اور یہاں کے ذہین طلبہ کو عرب یونیورسٹیوں میں سکالر شپ پر بھیجا جائے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغاں کا اہتمام بھی کیا جائے اور انہیں قرآنی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔ اسی طرح عرب ممالک میں جانے والے حضرات کو ضروری عربی سکھائی جائے۔ عربی صحافتی جرائد ، جدید ادب پر مشتمل کتب اور مختلف علوم و فنون سے عوام کو متعارف کروایا جائے۔ عربی سے اردو اور اردو سے عربی تراجم کو رواج دیا جائے تاکہ مشرق وسطی کے عوام کے حالات سے درست طور پر آگاہی ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اپنے دین کی تشریح صحیح طور پر سمجھنے کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت سے بھی نجات حاصل کر سکیں گے۔ کیوں کہ عوام جب دین کے اصل مآخذ تک رسائی حاصل کر لیں گے تو کئی ایک فتنے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ نیز ہم اپنے مفید تجربات اہل عرب تک پہنچا سکیں گے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا ’’اگر آپ کسی شخص سے اس زبان میں بات کریں جسے وہ محض سمجھتا ہو ، وہ صرف اس کے دماغ تک جائے گی۔ لیکن آپ اس سے اُس ہی کی زبان میں بات کریں گے تو وہ اس کے دل میں اتر جائے گی۔‘‘

Abd-us-Saboor Shakir
About the Author: Abd-us-Saboor Shakir Read More Articles by Abd-us-Saboor Shakir: 53 Articles with 99342 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.