سندھ میں جرائم و قتل کی میگا انڈسٹریز۔۔۔!!

پاکستان دنیا اسلام میں واحد ملک ہےجہاں صوبہ سندھ اور بلخصوص کراچی شہر میں جرائم و قتل کی میگا انڈسٹریز قائم ہیں، اندرون سندھ میں ڈاکوؤں کا راج زمینداروں کے سبب قائم و دائم ہے،اس کی کئی وجوہات ہین جن میں وڈیروں کے ظلم و بربریت اور بہمانہ سلوک شامل ہیں، تحقیق و شواہد بتاتے ہیں کہ نجی جیلوں کا رواج اندرون سندھ میں برسوں سے چلا آرہا ہے، اندرون سندھ کے کئی ایسے مقامات آج بھی ہیں جہاں حکومت کی رٹ نہیں بلکہ وڈیروں کا راج چلتا ہے ،جہاں عدالتیں اور پولیس بے بس تماشائی نظر آتی ہیں، غریب کسان ہوں یا مزدوراندرون سندھ میں آج کے زمانے میں بھی نچلی ذات پات، چھوت اور پلیت سمجھا جاتا ہے کسی کم درجہ کی مجال نہیں کہ وہ زمیندار اور وڈیروں کے ساتھ بیٹھ جائے کیونکہ ساتھ بیٹھنے کی سزا وہ جانتا ہے کہ ان کے تکبر، غرور، جلال، غضب وبربریت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، وڈیروں اور جاگیردار سرکاری املاک جس میں تعلیم گاہ ہوں یا صحت کے مرکز ان سب پر اپنا قبضہ جمالیتے ہیںکسی وڈیرے اور جاگیردارنےان سرکاری عماراتوں میں بھینس بکریوں کے باڑے بنائے ہوئے ہیں تو کسی نے اوطاق بنائی ہوئی ہیں، اوطاقوں میں دیکھا گیا ہے کہ آج کل کے وڈیروں کی نئی نسل نشہ اور غیر اخلاقی کام کرتے ہیں، ہاری اور کسان و مزدورکی بیٹیاں غیر محفوظ رہتی ہیں عجب حال ہے اندرون سندھ کا، اپنے دولت اور زمینوں کے نفسیاتی دباؤ سے غریبوں سے ووٹ چھینتے ہیں گویا ان کے ووٹ اپنے پاس گروی رکھ والیتے ہیں، مجبور و لاچار ہاری ،کسان و مزدور کرے تو کیا کرے متعلقہ علاقے کی پولیس ان کے تلوؤں کو چاٹتی پھرتی ہے، غلام سے بد ترمقام پر رہتی ہیں کیونکہ یہی وڈیرہ یا زمیندارایم پی اے،ایم این اے اور سینٹر بناہواہوتا ہے تو کئی وزراتوں کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں، اندرون سندھ برسوں سےجرائم و کرائم، رشوت، کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارت گری،بد عنوانی، لاقانونیت کا شکار رہا ہے ، ظلم و بربریت اور خونریزی کے ثبوت بھی موجود ہیں مگر کہیں ان کے ڈر سے خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے تو کہیں پولیس کیس کو انتہائی کمزور بناکر عدالت میں پیش کرتی ہے اسی بابت آج تک نہ کوئی وڈیرہ اور جاگیردار اپنے جرم کی سزا پاتاہے اور نہ ہی ان کی نسلوں کو کبھی آنچ آتی ہےکیونکہ قانون ان کے در کی لونڈی بنی ہوئی ہوتی ہے ۔، اندورن سندھ کے ظلم و بربریت کی عکاسی کچھ فیصد آج میڈیا پیش کررہا ہے لیکن ایماندار اور سچےصحافی اور رپورٹرز حضرات ان با اثر طاقتور وڈیروں اور جاگیردار وں کی بربریت کا شکار بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے، کبھی بھی صحافی تنظیموں نے اس بابت عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ اندرون سندھ کے صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائےکیونکہ کراچی میں سندھ اسمبلی ہے اور صوبائی وزراتوں کے ہیڈ کوارٹرز بھی موجود ہیں مگر جرائم و کرپشن میں ملوث وزرا شہر کراچی کے چند اہم صحافیوں کو بھاری مراعات اور سہولیات بہم کرکے انہیں اس بابت خاموش کرادیتے ہیں جو زرد صحافت کے مترادف ہے۔۔۔ یوں تو صحافیوں کی کئی تنظیمیں موجود ہیں مگر ان مین چند ایک کے سوا تمام تنطیمیں بد نظمی اور خود غرضی کا شکار ہوچکی ہیں۔۔۔معزز قارئین!! یہی وجہ ہے کہ کراچی یونین آف جنرنلسٹ۔۔،حیدرآباد یونین آف جنرنلسٹ۔۔ ، سکھر یونین جرنلسٹ۔۔، میرپورخاص یونین جنرنلسٹ۔۔، نوابشاہ یونین جنرنلسٹ ۔۔،سانگھڑ یونین جنرنلسٹ۔۔،ٹھٹہ یونین جنرنلسٹ۔۔، بدین یونین جنرنلسٹ۔۔،ٹنڈو محمد خان یونین جنرنلسٹ۔۔،دادویونین جنرنلسٹ۔۔، جیکب آبادیونین جنرنلسٹ ۔۔،شکارپوریونین جنرنلسٹ۔۔،لاڑکانہ یونین جنرنلسٹ۔۔، کوٹری یونین جنرنلسٹ سے لیکر تمام سندھ بھر کے شہروں کی جنرنلسٹ تنظیمیں اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کررہی جس کا انھوں نے حلف اٹھا رکھا ہے، تنظیموں کے اندر خود کئی گروپ اور گروہ بنے ہوئے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کو سب سے زیادہ اولین ترجیح دیتے ہیں، یہ سلسلہ بھی کئی سالوں پر محیط ہے، وقت ضرورت یہ ہے کہ سندھ بھر کی تمام صحافی تنظیمیں ایک منشور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور تمام صحافیوں کے بنیادی جائز حقوق کیلئے یکجا ہوکر بھرپور مثبت کردار ادا کریں اس سے نہ صرف صحافی حضرات میں اعتماد اور اطمینان کی فضا قائم بلکہ اس اتحاد سے سندھ بھر میں سرکاری و غیر سرکاری گورنرز ، انتظامی امور کی بہتری بھی دکھائی دے گی اور قانون اپنی اصل شکل میں ابھرے گا اور قانون کا نفاذ بھی نظر آئے گا پھر کسی بھی وڈیرہ اور جاگیردار کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں کمزور، نہتے، کسان، ہاری، مزدور کو اپنے ظلم اور ہوس کا نشانہ بناسکیں،تمام جنرنلسٹ یونین کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ بلا تفریق رنگ و نسل، ذات پات، مسلک و مذہب اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرے، اپنی ذمہ داری کے دوران ذرا بھی کسی بھی سیاسی پارٹی بننے کا عنصر نہ آنے پائے اگر ایسا ہوا تو وہ صحافی نہیں بلکہ اپنی من پسند سیاسی پارٹی کا کارکن کہلائے گا۔۔۔۔۔معزز قارئین!! اب بات کرتے ہیں پاکستان کا دل میٹروپولیٹن شہر کراچی کی ، کراچی وہ شہر تھا جہاں دن تو دن شب بھر مارکیٹیں کھلی رہتی تھیں ، صنعت و حرفت، فیکٹریاں تین سے چار شفٹوں میں کام کیا کرتی تھیں ، سفر سادہ لیکن انتہائی محفوظ تھا، بینک مکمل ضمانت اور اعتبار کا امتیاز سمجھی جاتی تھیں،نہایت بہتر منافع بخش تھیں،بینکوں سے روپیہ پیسہ نکال کر لے جانے والوں میں کوئی خوف نہ تھا ،نہ ہی بینکوں کے باہر گارڈ ہوتے تھے اور نہ ہی عزت و حرمت کسی بھی نسواں کی پامال ہوتی تھیں یہی کراچی تھا جہاں نشہ اور دیگر غیر اخلاقی معاملات نہ دور دور تک شائبہ نہ تھا، یہ کراچی مکمل کاروبار میں مصروف عمل دکھائی دیتا تھا، بری،بحری اور فضائی ترسیل زوروں پر تھیں ، نہ قوم قرض میں مبتلا تھی اور نہ ہی پاکستانی کرنسی کسی سے کم تھی، اشیا خورد و نوش سے لیکر گوشت سبزی اور دودھ دہی انتہائی کم قیمت پر فروخت کی جاتی تھیں، گھرانوں کے افراددس سے زیادہ بھی ہوتے تھے جبکہ کمانے والا فرد واحد ہوتا تھا۔۔، مذہب، مسلک ، فرقہ، رنگ و نسل، زبان و قوم میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا گویا ایک پاکستانی اور ایک مسلمان پہچان تھی۔۔۔۔۔معزز قارئین!! پاکستان کی تاریخ معیشت، پاکستان کی تاریخ سیاست اور پاکستان کے محل و قوع اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آج کے تمام تر حالات کی وجہ اورذمہ دار ایک مارشل لا کا دور رہا ہے دوسرا نام نہاد جمہوری حکومتوں کادور۔۔۔۔۔، ان ادوار میں ہمیں غیروں کی جنگ جھونکا گیا،افغان پناہ گزیر کو پالا گیا، کلاشنکوف اور منشیات کے تحفے ہمیںسابق صدر و ریٹائرڈ جنرل ضیا الحق سے ملے تو دوسری جانب قومی خذانے کی بندر باٹ، لوٹ مار، نا قص ریاست ،کمزور ادارے سابق وزرااعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں ہمیشہ سے ملتے رہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بار بار جیتنے والی سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی جیبیں نہ صرف بھریں بلکہ منی لانڈرنگ کرکے قومی خذانے کو تہس نہس کر ڈالا یہی نہیں بلکہ ان حکومتوں نے عوام پر قرضوں کے بوجھ بڑھاتے ہی چلے گئے۔۔، ان سیاسی جماعتوں میں ایم کیو ایم بھی شامل ہوگئی، گویا مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ کے دیہی و شہری علاقوں کو برباد کرنے میں کوئی قصر نہ چھوڑی، ان سیاسی جماعتوں کے منفی اقدامات سے قوم کے نوجوان بےروزگاری میں مبتلا ہوگئے، تعلیم اور صحت کا حصول مشکل میں پڑ گیا کیونکہ تعلیم اور صحت مہنگی سے مہنگی تر ہوتی چلی گئی، تعلیم اور صحت ناپید ہوگئی۔۔۔۔دوسری جانب سندھ پولیس بے پناہ کرپشن کی کیچڑ میں لت پت ہوگئی ، عدالتوں میں ڈگری اور کیسس کا بھاؤ تاؤ چلنے لگے، چوری ڈکیتی سے لیکر قتل و غارت گری کے ریٹ فکس ہوگئے ایسے حالات میں کراچی میں دیگر صوبوں سے آئے ہوئے نوجوانوں نے نا جائز غیر قانونی اسلحہ تھام لیا اور چلتے پھرتے راہگیروں کو لوٹنا شروع کردیا ،اب ڈکیتی ہو یا قتل و غارت گری ایک مافیا بن چکی ہے اس کی پشت پناہی میں جہاں سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے وہیں پولیس کے محکمہ کی آشیروار بھی نظر آتی ہے۔۔۔معزز قارئین!!کچھ سال قبل ڈاکو بینک یا کاروباری حلقہ میں اپنی کاروائیاں کیا کرتے تھے لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا دائرہ کار بھی بڑھا اور طریقہ کار بھی تبدیل ہوگیا، اب کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ ذرا سا بھی رش کہیں ہو جائے ڈکیٹ فوری باہر نکل کر بے خوف آزادانہ ڈکیتی کرتے ہیں کیونکہ اب حصہ داری کا نیا نظام رائج ہوچکا ہے جس میں ایک تہائی حصہ اس علاقے کی پولیس کو پہنچایا جاتا ہے جہاں ڈکیتی کی گئی ہو موبائل اسکیچنگ، موٹر سائیکل و کار چوری اب عام سی بات بن گئی ہے ۔۔۔ہمارے میڈیا کے کچھ زر خرید رپورٹرز، اینکرز کرپٹ ترین پولیس افسران اور بیورو کریٹس کی تعریفوں کے بند باندھتے ہیں کیونکہ ان کرپٹ لوگوں سے بے ضمیر صحافی اپنے عیش و عشرت کا سامان طلب کرتے ہیں اور ذاتی مفادات کے تحت مقدس پیشہ صحافت کو بدنام کرنے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیںکرتے ۔۔۔معزز قارئین!! گزشتہ چار ماہ سے میں ایک تحقیقی و مشاہداتی رپورٹ کی تکمیل کے بعد محکمہ تعلیم کے افسران کی توجہ مبعوث کرانے کیلئے پیٹیشن دائر کی لیکن ان جعل ساز سرکاری ملازمین نے پی اے اور کلرکوں کے ماہانہ باندھ رکھے ہیں اسی بابت مجھ سے قبل بھی ان کے خلاف انکوائری جاری کی گئیں جن میںان کے خلاف ثبوت کے ساتھ رپورٹ جاری ہوئی لیکن اسے دبا دیا گیا اور اب بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ، ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر ایسٹ، ڈائریکٹر آف اسکول کراچی، اسپیشل سیکریٹری ایجوکیشن سے ملاقات کے دوران اپنی پیٹیشن کے متعلق یاد دلاتا رہا ہوں لیکن ہر بار کی طرح کہا گیا ہے کہ انکوائری جاری ہے کچھ وقت لگے گا اگر اس انکوائری مین بھی انہیں بچانے کی کوشش کی گئی اور کرپشن کے عمل کع جاری رکھا گیا تو میرے پاس مکمل دستاویزات ثبوت کیساتھ ہیں میں پھر اپنی پیٹیشن نیب کو دونگا شاہد نیب ہی پنپنے والے کرپشن کو روک سکے۔۔!! معزز قارئین!! بے شمار محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے ملازمین نے شکوہ کیا ہے کہ تغلق ہاؤس سندھ سیکریٹریٹ کی ناقص پالیسیوں، نظام کے تحت حق تلفیوں کے انبار کھڑے ہیں انہیں سوائے وقت گزاری اور کمیشن گیری کے کچھ سجھائی دیتا نہیں ، اسی بابت بائیو میٹرک سسٹم کو باقائدہ اصول کے مطابق نہیں بنایا گیا اس نظام سے جس قدر کام سستی کا شکار ہوا ہے اور کرپشن کا ماحول بڑھ گیا ہے کبھی سیکریٹری اور وزیر تعلیم نے سوچا بھی نہیں، یہی حال وزیر صحت کا ہے کہ نہ کبھی اسے کسی اسپتال کا دورہ کیا اور نہ ہے اسپتالوں کی صورتحال جاننے کیلئے آفس سے باہر نکلے ،سندھ کے وزرا سمجھتے ہیں کہ اپنی سیاسی پارٹیوں کے اجلاس مین شرکت کرنا ہی سب کچھ ہے تو جان لیں پی پی پی کے بلاول بھٹو ہوں یا آصف علی زرداری یا پھرایم کیو ایم کے فاروق ستار اگر سندھ کے شہری و دیہاتی علاقوں کو اسی قدر بے توجہگی کی گئی تو یہی عوام انہیں سوائے جوتوںکے ہار پہنانے کے کچھ نہیں دیں گے، کیوں بھول جاتے ہیں کہ سندھ کسی کی باپ کی میراث نہیں، سندھ اور پاکستان عوام کا ہے اسی بڑی قربانیوں کے بعد آزاد کرایا گیا ہے یہاں سب کے حقوق مساوی ہیں، سیاست نام ہے عوامی خدمت کا ، سیاست لوٹ مار اور کرپشن کا نام نہیں یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب جب کرپٹ سیاسی رہنماؤں کو اقتدار ملا تو بیوروکریٹس بھی ان سے زیادہ کرپٹ ہوئے ہیں اسی لیئے نا اہل سیاسی دانوں ،نا اہل اقتدار پر برجمان ہونے والے وزرا کی وجہ سے سندھ اب جرائم و قتل کی میگا انڈسٹریز بن چکا ہے ، خدارا سندھ اور پاکستان کو بچانے کیلئے اس جرائم و قتل کی میگا انڈسٹریز کا خاتمہ بھی میگا آپریشن کے ذریعے کیا جائے تاکہ سندھ غلط لوگوں سے پاک ہوجائے اور سندھ کا مستقبل روشن و تابناک ہوجائے آمین ثما آمین۔اللہ پاکستان کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے آمین ثما آمین،پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!!

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273589 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.