غالب نے تو زندگی کے بارے میں کہا تھا لیکن میں نے تحریف
کر دی اور وہ بھی اپنی ایک مستقل قاری بہن یاسمین شوکت کے کہنے پر۔جن کے
تبصرے اور کلمات ایک حوصلہ دیتے ہیں۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے بھوربن مری سے برادر سردار سلیم کی والدہ کا جنازہ پڑھ
کر آیا ہوں میرے ساتھ جواد خان تھے ۔ کافی کے یہ بول ذہن میں آئے مائے نی
میں کنوں آکھاں درد وچھوڑیاں دے حال نی دکھوں اور دردوں میں پروئے یہ لفظ
جب بھی سنتا ہوں ماں یاد آ جاتی ہے ۔یا پھر کسی کی ماں کا جنازہ دیکھتا ہوں
پڑھتا ہوں تو دل کے تاروں سے درد اٹھتا ہے۔جو جاں کو تڑپاکے رکھ دیتا
ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ماں بہت اچھی ہوتی ہے مگر اس میں خرابی یہ
ہوتی ہے کہ وہ اپنے چاہنے والے بیٹوں اور بیٹیوں کو روتا دھوتا چھوڑ کر اس
دنیا سے اس دنیا چلی جاتی ہے۔وہ جو کسی کو تتی ہوا نہیں لگنے نہیں دیتی
دنیاوی تھپیڑوں کے حوالے کر منوں مٹی تلے دفن ہو جاتی ہے اور پھر کسی کی
خبر بھی نہیں لیتی
ایہو جیا نہ ویکھیا کوئی جیہڑا گیاں نوں موڑ لیاوے
ضیاء شاہد کی امی جان پڑھی قدرت اﷲ شہاب نے جو ماں کا ذکر کیا اسے بار بار
پڑھا۔اور جو نہیں لکھ سکتا ان کے چہروں پر ٹنوں بوجھ دکھ کے دیکھ کر ایسا
لگا سب ہی ایک جیسے دکھی ہیں۔ہم لکھنے والوں کے پاس یہ اﷲ کی عنائت ہے کہ
ہم نے اپنے دکھ قلم کے ذریعے قرطاس پر بکھیر دئے اور دوسرے لوگ سینے سے
لگائے عمر گزار دیتے ہیں۔جدہ میں ایک ہندی دوست سید مجاہد کا یہ شعر حسب
حال ہے
چہرے کی گرد پونچھنے ولا کوئی تو ہو لمبی مسافتوں سے جو گھر جائے آدمی
ماں کے کئی روپ ہیں کسی شکل میں وہ دادی ماں بھی ہے اور نانی ماں بھی۔یہ
بیچاریاں واری واری جانے والیاں کوئی ان سے پوچھے تمہیں ان سے کیا ملنا ہے
ان کے پیار کی تو کوئی قیمت ہی نہیں۔ایک شاعر دوست نے نثر لکھی اور کہا ماں
کے بعد اس کا پرتو بیٹی میں دیکھتا ہوں ۔ماں بھی میرے بغیر نہیں کھاتی تھی
اور پھر اب بیٹی ۔
سچ پوچھیں جب بھی کسی کی ماں اس دنیا سے جاتی ہے دل پر گرفت پڑتی ہے۔مائیں
دنیا سے چلی جائیں تو دنیا اندھیر سی ہو جاتی ہے۔کہتے ہیں ماں کسی چھوٹے کی
ہو یا بڑے کی ماں کا بچھڑنا ایک قیامت ہوتی ہے یہ قیامت آج ہمارے دوست
سردار سلیم خان اور ان کے اہل خانہ پر گزری ہے۔دلی افسوس ہوا ہے۔اﷲ پاک
ہمارے دوست بھائی کو حوصلہ اور صبر دے اور ان کی والدہ کو جنت الفردوس میں
جگہ عنائت فرمائے۔جنازے میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ایک جم غفیر
تھا۔بھوربن میں ان کے گھر کے وسیع و عریض صحن میں جنازہ تھا س میں علاقہ
بھر کی ممتاز شخصیات شریک ہوئیں۔غلام سرور خان آف ٹیکسلا غلام مرتضی ستی سے
بھی جنازے میں ملاقات ہوئی۔مانواں ٹھنڈیاں چھانواں سچ کہا کسی نے ماں در
اصل ایک پوسٹ بکس بھی ہے جس میں سارے گھر بھر کے لوگ اپنی شکائتیں جمع
کراتے ہیں۔یہ اﷲ کا حسین تحفہ کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتا ہر ایک کو دوسرے
سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ماں کے قدموں میں جنت ایسے ہی نہیں اس نے اولاد
کی پر ورش میں جو تکلیفیں برداشت کیں اﷲ نے اس کا اجر اس صورت میں دیا کہ
جنت اس کے قدموں میں رکھ دی۔اس میں کوئی شک نہیں جب کہا گیا کہ مانواں
ٹھنڈیا ں چھاواں تو اس موقع پر پیو دودھ گھیو کی بھی بات ہوئی۔دنیا کی ہر
ماں بہت اچھی اچھی ہوتی ہے اور سچ پوچھیں اپنی ماں سے زیادہ اچھی ماں کوئی
اور نہیں ہوتی۔میرے ایک دوست اچھے کالم نویس ہیں ان کا کہنا ہے اپنی ماں کے
چہرے پر جھریاں دوسرے کی ماں جس کے منہ غازے سے مزین ہوں بہتر ہوتی ہیں۔یہ
دعاؤں کا ایک خزانہ ہے جو کبھی خالی نہیں ہوتا۔بے جی کے بارے میں، میں نے
بہت کچھ لکھا ہے۔ان کی محنت کوشش جو ہمیں پالنے میں کی گئی اس کے تذکرے کا
یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا لیکن میں سردار سلیم کی والدہ کی رحلت پر ان کے
چہرے پر اداسیوں کے پہاڑ دیکھ کر محسوس کر رہا تھا میں بھی انہی احساسات سے
گزرا تھا اس منحوس دن کو جب بے جی ہم سے جدا ہوئیں پمز ہسپتال سے جب ہم
جنازہ گجرانوالہ لے کر گئے تو پورے راستے میں جو غم کے پہاڑ مجھ پر اور
فیملی پر ٹوٹے ان کا ذکر زیر قلم نہیں لا سکتا۔ماں ایک مرکزہ ہے جو سارے
بچوں کو جوڑ کر رکھتا ہے۔دنیا کی سب مائیں اپنے بچوں کے لئے بہت قربانیاں
دیتی ہیں کسی نے کہا کہ آپ کی ماں کیا کھاتی تھیں جواب دیا بچا کھچا۔میں نے
جو کمی محسوس کی اور اور کر رہا ہوں وہ یہی تھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ماں
جی نے اہتمام سے کھانا کھایا ہو البتہ جب بڑی ہو گئیں تو ہمارے لئے وہ
لمحات حسین تھے جب ہم سب مل کر ایک میز پر کھاتے تھے۔جدہ میں یہ مواقع ملے
مگر میں ان دنوں کی بات کر رہا ہوں جب ہم چھ بچے تھے اور چولہے کے پاس
بیٹھے ماں کی جانب دیکھتے تھے وہ سب کے لئے پکاتیں اور خود جو بچ جاتا اس
سے پیٹ بھر لیتیں۔بات کہاں سے کہاں چل نکلی۔سچ پوچھیں خوش نصیب ہیں وہ لوگ
جن کی مائیں زندہ ہیں۔سردار سلیم تو خوش قسمت ہیں کہ انہیں تا دیر اپنی
والدہ صاحبہ کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ہمارا دین تو کمال کا دین ہے والدین
جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں ان کے مقام و مرتبہ بلند ہو جاتا ہے۔مغرب کی باتیں
سنتا ہوں اور جب مجھے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہاں لوگ اپنے بزرگ والدین کو جمع
کرا دیتے ہیں۔ان کو پالنے والا نگہداشت کرنے والے اپنی اولاد کے علاوہ کوئی
اور ہوتے ہیں تو اس معاملے میں اپنے معاشرے کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ماں
باپ کو ان کا مقام حاصل ہے۔اﷲ تعالی کسی کا محتاج نہ کرے جن کے پاس والدین
ہیں ان کی خدمت کریں۔سچ پوچھیئے والدین ایک چھتر چھایا ہیں جو کوئی ان سے
استفادہ کر گیا تر گیا۔ان کے بارے میں تو احکامات ہیں کہ انہیں اف تک نہ
کہو۔مری کے علاقے بھوربن میں برادر سلیم کی والدہ کے جنازے میں شرکت کر کے
دلی راحت ہوئی افسوس تو اپنی جگہ لیکن راحت اس بات کی ایک ماں نے طویل عرصہ
تک فیض بانٹا۔میری مرحوم سردار ساجد سے ۲۰۰۲ کے زمانے کی یاد اﷲ تھی وہ
میرے پاس ایک ادارے میں جہاں میں ملازمت کرتا تھا تشریف لایا کرتے تھے وہ
کئی سال پہلے اس دنیا سے چلے گئے۔ماں بیٹے کا ملن آج ہے اﷲ پاک ان دونوں کے
جنت کے اچھے گوشے میں ایک کرے۔نہ صرف میری بلکہ میرے بیٹے نوید افتخار
چودھری اور تما اہل خانہ سے دلی تعزیت قبول فرمائیں۔ ان کے بے شمار ساتھی
ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔اﷲ پاک اہل خانہ کو صبر عطا فرمائے۔
تجھے اے ماں ،لاؤں کہاں سے |