دنیا جہاں بیش بہا پریشانیوں اور نا امیدیوں میں
ڈوبی ہوئی ہے وہیں کچھ ایسے لکھنے والے ہمارے درمیان موجود ہیں جو پڑھنے
والوں میں امید کی کرنوں کو بکھیرنے کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ان میں ایک
قابلِ ذکر شخصیت ظہور حسین مصنف ـ’اے سانگ آف اے بلائینڈ برائیڈ‘ کتاب کے
ہیں۔ظہور حسین کا تعلق بنجاب کے شہر لیہ سے ہے۔ وہ آج کل بہاؤالدین زکریا
یونیورسٹی لیہ کیمپس میں بطور کوآرڈینیٹر آف انگلش ڈیپارمنٹ خدمات سرانجام
دے رہے ہیں۔ یہ کتاب انگریزی نظموں پر مشتمل ہے جو کہ مجھے چند ماہ قبل
پاکستان ادب پبلشرزکے ڈائریکٹر اور فیچر رائٹر اوصاف سمیع اﷲ خان کی جانب
سے موصول ہوئی۔کتاب کی اشاعت گزشتہ برس دسمبر میں ہوئی جو سادہ مگر خوبصورت
ٹائٹل اور انتہائی سادہ سرِورق کے ساتھ اسی صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں پچاس
خوبصورت نظمیں ہیں۔ ہر ایک نظم بہت سادہ اور خوبصورت انداز میں لکھی گئی ہے
جس میں محبت ،امن اور امید کا پیغام ملتا ہے۔ظہور حسین جہاں اردو اور
پنجابی میں کتابیں لکھ چکے ہیں اور ادب میں ایک پہچان رکھتے ہیں وہیں ان کی
یہ کتاب پڑھ کر ایک تسکین محسوس ہوئی۔ ظہور حسین کی شخصیت بلاشبہ ان کی
تحریروں میں صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک حساس اور دردِ دل رکھنے والا انسان
جو اپنی تئیں کوشاں ہے کہ وہ اس دنیا سے مایوسی مٹا کر محبت ، خوشی اور امن
کے گلستان لگا دے۔ہر طرف خوشی کے پھول اور رنگ بکھرے ہوئے ہوں۔ اس بات کا
عکس ہمیں بلاشبہ ان کی نظم اے سانگ ٓف اے بلائینڈ برائیڈ میں نظر آتا ہے
جوکہ ان کی کتاب کا نام بھی ہے۔ اس نظم میں ایک اندھی لڑکی ندا کا ذکر ہے
جس کو سرخ رنگ پسند ہے ۔ وہ سرخ رنگ کو گلاب اور دلہن سے بھی منسوب کرتی
ہے۔اسے سرخ رنگ اور گلاب دونوں پسند ہیں۔سرخ رنگ کی وجہ سے اسے دلہن بننا
بھی پسند ہے۔کیونکہ دلہن سرخ ہوتی ہے اور سرخ گلاب ہوتا ہے۔
ظہور حسین بلاشبہ اپنی تخلیقات کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے
ہیں۔ ان کی نظموں میں محبت اور ہم آہنگی کے رنگ کے ساتھ ساتھ ایک اور
نمایاں رنگ نظر آیا وہ ہے اﷲ اور دینِ اسلام سے گہرا لگاؤ۔دینِ اسلام
بلاشبہ پوری کائنات کیلئے امن کا پیغام دیتا ہے۔ جہاں دنیا مسلمان اور
اسلام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہیں ایک دفعہ پھر سے تاریخ کا حوالہ
دے کر ظہور حسین نے اسلام کااصل چہرہ پڑھنے والوں کو دکھایا۔ان کی نعت جس
کا ذکر انھوں نے کتاب کے دیباچہ میں بھی کیا ہے۔
love of humanity.the harbinger of peace
for the worst, the best ease
even for Hinda fine mohammad
Mohammad Mohammad mine Mohammad
اس قطعہ میں آپ نے بہت خوبصورتی سے محبت اور امن کے اس پیغام کی تشریح کی
ہے جو چودہ سو سال قبل محمدﷺ نے دیا تھا جب آپ ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ ؓ
کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو معاف کر دیا تھا۔
اسی طرح اگر دوسری برف دیکھا جائے تو نظم آئی ایم نتھنگ میں ایک اور نئی
سوچ کو پیش کیا ہے۔ جس میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ میں کچھ نہیں ہوں تم سب
کچھ ہو۔مگر نظم کے آخر میں انھوں نے ایک ایسی حقیقت کا نکشاف بھی کر دیا کہ
جو کچھ نہیں ہوتے ہیں دراصل وہی بہت کچھ ہوتے ہیں۔زندگی کثیرالجہتی کا نام
ہے۔ظہور حسین نے اپنی کتاب میں زندگی اور زندگی سے متثل بہت سے رنگوں کو
بیان کیا ہے۔ جیسے کہ ان کے مطابق ایک طرف زندگی کسی غبارے کی طرح ہے تو
دوسری طرف زندگی کو ایک لائن سے مشابہت دی جبکہ ایک طرف زندگی کو دوڑ اور
دوسری طرف فیس بک سٹیٹس کے طور پر پیش کیا۔
زندگی ایک غبارہ کی مانند ہے جس کے اندر اور باہر ہوا ہے۔زندگی کسی غبارے
کی مانند ہوا میں ادھر ادھر اپنی مرضی سے اڑتی ہے۔کبھی نیچے اور کبھی
اوپر۔اور جب غبارہ پھٹتا ہے تو اس میں سے نکلنے والی ہوا ، ہوا میں تحلیل
ہو جاتی ہے جبکہ باقی صرف پلاسٹک کا ٹکڑا رہ جاتا ہے۔زندگی مسلسل چلتے رہنے
کا نام ہے۔ ہر دن ،آنے والے نئے دن کی امید کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔وقت ایک
جیسا نہیں رہتا ہے۔وقت گزر جاتا ہے چاہے وہ اچھا ہو یا برا اور اس کو مصنف
نے اپنی نظم’life is like status‘ میں بخوبی بیان کیا ہے۔ آخر میں پاکستان
ادب پبلشرز کو ان کی اس شاندار اشاعت پر مبارکباداور ان کے منشور پر ان کو
داد دیتی ہوں جو محدود آمدن صحافیوں اور ادیبوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کا
عزم رکھتے ہیں۔ |