تحریر! زہرا تنویر، لاہور
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں انسان کے طرز زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوئیں
ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ویسے ہی روز بروز نت نئی ایجادات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انسانی زندگی میں ان ایجادات کا استعمال اور کردار ہر دور میں بہت اہمیت کا
حامل رہا ہے۔ ان ایجادات نے انسان کو لاتعداد آسانیاں فراہم کی ہیں۔ دنوں
کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کروانا ان
ایجادات کا ہی کمال ہے۔ پہلے رابطوں میں دشواری اس قدر ہوتی تھی کہ لوگ
اپنا پیغام پہنچانے کے لیے قاصد راونہ کرتے تھے لیکن پھر بھی پیغام بروقت
نہ ملنے پر افسوس کیا جاتا تھا اب وہی پیغام منٹ میں نہیں سیکنڈز میں
پہنچتا ہے۔ یہ سب ان ایجادات کو دریافت کرنے والوں کی مرہون منت ہے جنہوں
نے انسانی زندگی کے امور کو آسان سے آسان تر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اپنے اذہان اور علم کو کائنات میں موجود چیزوں پر غوروفکر کرنے میں صرف کیا۔
زمانہ قدیم کی بات ہو یا پھر جدید کی ہر دور میں مختلف اور نت نئے تجربات
کیے گئے۔ اپنے اپنے دور میں میسر وسائل کی دستیابی کے مطابق مشاہدات اور
تجربے کیے جاتے رہے۔ پہلے لوگ ان ایجادات سے اتنے زیادہ مستفید نہیں ہو
پاتے تھے کیونکہ لوگوں کے رابطے آج کے دور جیسے تیزرفتار نہیں تھے۔ رابطوں
میں کمی کی وجہ سے بات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا دشوار ہوتا تھا۔ اس
لیے ان ایجادات پر ہونے والے تحقیقی و علمی کام کو تحریر کی شکل میں محفوظ
کر لیا جاتا تھا۔ اور استاد اور شاگرد کے تعلق سے یہ سلسلہ آگے سے آگے
بڑھتا چلا گیا۔ یہ سلسلہ ترقی کرتے کرتے آج اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ ان
ایجادات سے ہر خاص و عام فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عرف عام میں ان ایجادات کو
سائنس و ٹیکنالوجی کا نام دیا جاتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے معنی دیکھیں جائیں تو سائنس کے معنی علم و حکمت
غوروفکر کے ہیں۔ کائنات میں موجودات کی علمی تحقیق و مشاہدے کو زیر غور
لانا سائنس کے زمرے میں آتا ہے۔ سائنس کی تحقیقات اور اس سے حاصل ہونے والے
نتائج کے فوائد سے بنی نوع انسان کو ہر دور میں بیشمار فوائد ملے ہیں۔ اس
برعکس صنعت و حرفت، فنیات اور ایسے علوم و فنون جو صنعت کے زمرے میں ائیں
ٹیکنولوجی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔آج ہم سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا پر
نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر دریافت کو موجد مغربی دنیا سے ہی ملے گا۔ مسلم دنیا
کا وہ کردار اور نام کہیں دکھائی نہیں ملے گا جو ماضی کی تاریخ کے ابواب
میں ملتا ہے۔
ان تاریخی ابواب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دارلعلوم سے تعلق
رکھنے والے عبدالمالک اصمعی کا نام ملتا ہے۔ جنہوں نے جانوروں پر تحقیقات
کیں اور ان کو کتابی شکل میں قلم بند کیا۔ عبدالمالک اصمعی کی کتابوں میں
المخیل، انابل، الشاۃ، الوجوش اور خلق الانسان قابل ذکر ہیں۔ خلق الانسان
میں انسانی اعضاء کی بناوٹ اور افعال کی تشریح کی گئی ہے۔ خلیفہ مامون
الرشید کے عہد حکومت میں اصمعی نے ایک رصد گاہ بنائی۔ اس رصد گاہ میں عباس
بن سعید، یحیی بن منصور ، ابو طیب سند بن علی اور علی بن عیسی جیسے قابل
اور بڑے سائنس دان موجود تھے اس رصد گاہ میں زمین کی پیمائش اور فلکیات کے
شعبے میں تحقیقات کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ آگے محمد بن موسی الخوارزمی سے
ابوالقاسم مجریطی سے شریف ادریسی، ابو ہاشم خالد، ابو داؤد سلیمان بن حسان،
ضیاء الدین ابن بیطار، ابوالقاسم الزہروی، عباس ابن فرناس، علی ابن فرناس
سے ہوتا ہوا حسین ابن الہیشم اور بو علی سینا تک آیا۔ بوعلی سینا کی کتابیں
آٹھ سو سال تک یورپ کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔ علم طب کا
حقیقی ڈھانچہ بوعلی سینا کتابوں پر ہی رکھا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم
اپنا قیمتی سرمایہ اپنی غفلت کی بدولت مغرب کو دے کر خود پس منظر میں چلے
گئے۔ اور جدید علوم اور ایجادات میں کوئی بھی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہ
دے سکے۔
ہم اپنے عروج کے سنہری ادوار کو پی یاد کر کے خوش گمانیوں میں کھوئے رہے
اور غیر ہمارے علوم سے فائدہ اٹھاتے رہے اور سن کے روشن ستاروں کی جگمگانے
لگے۔ اگر دیکھا جائے تو آج کی سائنس و ٹیکنالوجی میں کسی بھی مسلم موجد کا
نام قابل ذکر دکھائی نہیں دے گا۔ جہاں دیکھو مغرب نے ہر میدان میں اپنی
کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اور ہم لوگ اپنے علوم سے مستفید ہونے کے بجائے
دوسروں کو موقع دیتے رہے ہیں۔ جو تحقیق اور علوم یماری میراث تھے آج ان کے
وارث کوئی اور ہیں۔ ہم بس ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو استعمال میں لا کر ہی
خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ یہ خوش قسمتی بھی ہماری بد بختی کا پیش خیمہ
بن رہی ہے کیونکہ ہماری نئی نسل اس ٹیکنالوجی سے کچھ سیکھنے کے بجائے اپنا
وقت برباد کرنے میں مگن ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں زندگی کے ہر میدان میں اپنا
کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ہر زوال کے بعد عروج ضرور آتا ہے۔ عروج کی
بلندی پر قدم رکھنے کے لیے اپنے وقت اور عقل کا صحیح استعمال ہی منزل تک
پہنچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مغرب اگر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں
صف اول میں کھڑا ہے تو انہوں نے اپنی عقل اور وقت کو ہمیشہ بروقت استعمال
کیا۔ اور زمانے کی ضروریات کو سمجھا۔ |