نام رکھنے کے لئے سماج میں ایک عام طریقہ رائج ہے وہ یہ
ہے کہ کوئی ایک لفظ لے لیتے ہیں اور لوگوں سے اس لفظ کا معنی پوچھتے ہیں ۔اگر
معنی خوبصورت ہوا تو نام رکھ لیتے ہیں ۔سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے ابھی
ایک دوسرا طریقہ ایجاد ہوا ہے و ہ یہ ہے کہ گوگل یا کسی ویب سائٹ سے ناموں
کی لسٹ دیکھ کرخوبصورت معنی والا نام پسند کرلیتے ہیں جبکہ اس میں معنوی
اور اعتقادی بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں۔
مسلمانوں کو نام رکھنے میں یہ مذکورہ طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،
انہیں چاہئے کہ اللہ کے اسمائے حسنی جانے اور کسی ایک کو اختیار کرکے شروع
میں عبد لگاکر نام رکھ لے ۔اسی طرح انبیاء ، صحابہ، تابعین اور علماء
ومحدثین وغیرہ کے نام جانے اور ان کے ناموں پر نام رکھے ۔ یہ انتساب ہمارا
دینی ہوگا ۔
ایان کے تعلق سے نٹ پر اردو، ہندی اور انگلش میں کافی بحث موجود ہے جہاں اس
کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک معنی اللہ کا تحفہ زیادہ
منتشرہےجبکہ اس لفظ کو اردو زبان کی لغت میں تلاش کرتے ہیں تو نہیں ملتا ۔عربی
زبان میں یاء کی تشدید کے ساتھ آیا ہے جو کب اورجب کے معنی ہے ۔ گویا لوگوں
میں مشہور لفظ ایان اردو اور عربی میں موجود نہیں ہے ۔
تاہم ناموں کی حیثیت سے یہ لفظ ہندی، انگلش ،صومالی اور تمل زبان میں
مستعمل ہے۔کئی زبانوں کے ڈراموں اور قصے کہانیوں میں بھی یہ نام کثرت سے
استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی یہ لفظ عام ہوگیا اور اپنے
بچوں کو اس نام سے پکارنے لگے ۔
آیان الف کے مد کے ساتھ فارسی زبان میں ملتا ہے جس کے معنی آمدہ اور شب
دراز کے ہیں۔
جہاں تک عین سے عیان کی حقیقت ہے تو یہ اردو میں نوں غنہ کے ساتھ اس طرح
آیا ہے "عیاں" ۔ اس کا معنی ظاہر ہے۔ عَيّان عربی میں عین کے زبر اوریاء کی
تشدید کے ساتھ عاجز کے معنی میں اور عِيَان عین کے کسرہ کے ساتھ دیکھنے اور
معائنہ کرنےکے معنی میں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کاایان، آیان یا عیان نام رکھنا چاہتے ہیں
انہیں میں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ اسی سے ملتا جلتا نام ابان رکھیں ۔ابان بن
سعید رضی اللہ عنہ قبیلہ قریش کےایک جلیل القدر صحابی گزرے ہیں ،فتح مکہ سے
تھوڑا پہلےسن 7 ہجری میں اسلام قبول کیا اور واقدی کے مطابق اجنادین کے دن
سن13 ہجری کو شام میں جام شہادت نوش فرمایا۔ نبی ﷺ نےسات ہجری میں ایک سریہ
کی قیادت دے کر بھیجا تھا اور9ہجری میں بحرین کا والی بھی مقرر کیا تھا آپ
کی وفات کے وقت بحرین کے والی تھے۔ ایک اور مشہور ومعروف ابان گزرے ہیں وہ
ہیں ابان بن عثمان تابعی جوکہ خلافت امویہ میں عبدالملک بن مروان کے عہد
حکومت میں سات سال مدینہ کے والی رہے۔ سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ ان
سے کچھ احادیث مروی ہیں اور یہ ثقہ راوی ہیں بلکہ یحی بن قطان کے حوالے سے
لکھا کہ وہ مدینہ کے دس فقہاء میں سے ایک ہیں ۔لوگ ان سے قضاء کی تعلیم
حاصل کرتے ،عمروبن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے ابان بن عثمان سے زیادہ علم
حدیث اور فقہ کا جانکار نہیں دیکھا۔ |