کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، یعنی انسان کو جب کوئی ضرورت محسوس
ہوتی ہے تو وہ اسے پورا کرنے کے لئے کوئی چیز ایجاد کرلیتا ہے،لیکن آپ کے
موبائل فون پر بکثرت استعمال ہونے والی دو علامتوں اسٹیرک (*) اور ہیش (#)
کا معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔
یقیناً یہ ایک نادر مثال ہے کہ جب یہ دو علامات ٹیلی فون کے کی پیڈ کا حصہ
بنیں تو ان کا استعمال کسی کو معلوم نہیں تھا، حتیٰ کہ انہیں متعارف کروانے
والی کمپنی کو بھی نہیں۔
|
|
ویب سائٹ سائٹ سگنل بلاگ کی رپورٹ کے مطابق قدیم طرز کے ٹیلیفون کا استعمال
بیسویں صدی کے آغاز میں ہی شروع ہوگیا تھا لیکن اسٹیرک اور ہیش کی علامات
1968ءمیں ٹیلیفون کے کی پیڈ کا حصہ بنیں۔ اس وقت کے ٹیلیفون ٹچ ٹون کی پیڈ
استعمال کرتے تھے، یعنی ان پر موجود کسی بٹن کو دبانے سے دو آوازیں پیدا
ہوتی تھیں، جنہیں سن کر ٹیلیفون سسٹم فیصلہ کرتا تھا کہ کونسا نمبر دبایا
گیا ہے۔
ان دو باتوں کے امتزاج سے کل 12 مختلف اشارے پیدا کئے جاسکتے تھے، لیکن
ٹیلیفون کے کی پیڈ پر صرف 0 سے لے کر 9 تک ہندسے تھے، یعنی کل 10 ہندسے۔ اس
کا نتیجہ یہ تھا کہ تین قطاروں میں کل 9ہندسے تھے جبکہ آخری قطار میں صرف 0
تھا، جبکہ اس کے دائیں اور بائیں خالی جگہ تھی۔
ٹیکنالوجی کمپنی AT&T نے 1968ء میں فیصلہ کیا کہ صفر کے دائیں بائیں بھی دو
بٹن لگا دئیے جائیں، تاکہ کی پیڈ دیکھنے میں اچھا لگے۔ اب یہ سوال کھڑا ہوا
کہ ان دو بٹنوں پر کونسے ہندسے لکھے جائیں، کیونکہ اس وقت نمبر ڈائل کرنے
کے لئے صرف 0 سے لے کر 9 تک کے اعداد ہی استعمال ہوتے تھے۔
|
|
کمپنی نے فیصلہ کیا کہ دو نئے بٹنوں پر اسٹیرک اور ہیش کی علامات لکھ دی
جائیں، اگرچہ اس وقت ان کا کوئی استعمال نہیں تھا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ
شاید بعدازاں ٹیلی فون صارفین خود ہی ان کا کوئی استعمال ڈھونڈ لیں گے، اور
واقعی بعد میں ایسا ہی ہوا۔
تقریباً ایک دہائی بعد ٹیلی فون صارفین کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے
کمپنی اس نتیجے پر پہنچی کہ اسٹیرک (*) کے بٹن کو کال بیک کے لئے استعمال
کیا جائے، اور اسی طرح ہیش (#) کے بٹن کو بعد ازاں وائس میل سسٹمز کے لئے
استعمال کیا جانے لگا۔ سب سے پہلے *69 کا کوڈ وضع کیا گیا، جو اس وقت کال
بیک کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ بعد کے دور میں موبائل فون اور کمپیوٹرز کے
وسیع استعمال نے ان دو علامات کے متعدد نئے استعمالات بھی متعارف کروا دئیے
-
(بشکریہ نیو)
|