Narrated Masruq:
A man came to 'Abdullah and said: 'A story teller has said that a smoke will appear from the earth, taking the hearing of disbelievers and manifesting as a cold for the believers.' He became angry, and since he was reclining, he sat up then said: 'When one of you is asked about something he knows, then let him speak accordingly' - Mansur (one of the narrators) narrated it as: Then let him inform of it - And when asked about what he does not know, then let him say: Allah knows best. For indeed, it is part of a man's knowledge, that when he is asked about something he does not know, he says: Allah knows best. For verily Allah, Most High said to His Prophet: Say: No wage do I ask of you for this, nor am I one of the pretenders (38:86). When the Messenger of Allah (ﷺ) saw that the Quraish were behaving stubbornly with him, he said: O Allah! Assist me against them with seven (years of famine) like the seven of Yusuf. So He punished them with drought making everything barren, until they ate skins and carcasses - one of them said: bones. He said: 'And it appeared that smoke was coming out of the earth. So Abu Sufyan came to him and said: Verily your people are being destroyed, so supplicate to Allah for them. He said: So this is about His saying: 'The Day when the sky will bring forth a visible smoke, covering the people, this is a painful torment (44:10 & 11).' Mansur narrated it as: So this is about His saying: Our Lord! Remove the torment from us, really we shall become believers (44:12). - So shall the punishment be removed from them in the Hereafter? Al-Batshah (humiliated defeat in Badr), Al-Lizam (disbeliever captives from Badr), the smoke, - one of them said: The moon the other said: The Romans have all passed.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجُدِّيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَمَنْصُورٍ، سَمِعَا أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ، يَقُولُ: إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْكُفَّارِ، وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، قَالَ: فَغَضِبَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا سُئِلَ أَحَدُكُمْ عَمَّا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ بِهِ، قَالَ مَنْصُورٌ: فَلْيُخْبِرْ بِهِ، وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، فَأَحْصَتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُهُمَا: الْعِظَامَ، قَالَ: وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، قَالَ: فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، قَالَ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ: فَهَذَا لِقَوْلِهِ: يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ 10 يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ 11 سورة الدخان آية 10-11، قَالَ مَنْصُورٌ: هَذَا لِقَوْلِهِ: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، فَهَلْ يُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ، قًالَ: مَضَى الْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ، وَقَالَ أَحَدُهُمَا: الْقَمَرُ، وَقَالَ الْآخَرُ: الروم . قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو ( واعظ ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ( قیامت کے قریب ) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے ( پہلے ) ٹیک لگائے ہوئے تھے، ( سنبھل کر ) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» ”اللہ بہتر جانتا ہے“ کہنا چاہیئے، کیونکہ یہ آدمی کے علم و جانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے «اللہ اعلم» ”اللہ بہتر جانتا ہے“، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» ”کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں“ ( ص: ۸۶ ) ، ( بات اس دخان کی یہ ہے کہ ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر“ ( آپ کی دعا قبول ہو گئی ) ، ان پر قحط پڑ گیا، ہر چیز اس سے متاثر ہو گئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے ( اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش و منصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے ) ، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آ کر کہا: آپ کی قوم ہلاک و برباد ہو گئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرما دیجئیے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم» ”جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ ( دھواں ) لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے“ ( الدخان: ۱۰ ) ، کا، منصور کہتے ہیں: یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون» ”اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں“ ( الدخان: ۱۲ ) ، کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جا سکے گا؟ ۔ عبداللہ کہتے ہیں: «بطشہ»، «لزام» ( بدر ) اور دخان کا ذکرو زمانہ گزر گیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا: «قمر» ( چاند ) کا شق ہونا گزر گیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «لزام» سے مراد یوم بدر ہے۔