Zaid bin Arqam said:
“We were participating in a battle along with the Messenger of Allah, and there were some people from the Bedouins with us. So we all rushed toward some water and the Bedouins raced us to it. One of the Bedouins beat his companions to it and he (tried to obstruct) the pond, he placed rocks around it and he put a leather sheet over it until his companions came.” He said: “A man among the Ansar reached the Bedouin and he dropped the reigns of his camel to drink, but the Bedouin would not allow him. So he started removing the barriers around the water, but the Bedouin raised a stick beating the Ansari man on the head, and smashed it. He went to Abdullah bin Ubayy, the head of the hypocrite, to inform him – he was in fact one of his companions. So Abdullah bin Ubayy became enraged, the he said: ‘Do not spend anything on whoever is with Muhammad until they depart.’ Meaning the Bedouins. They were preparing food for the Messenger of Allah. So Abdullah said: ‘When they depart from Muhammad, then bring Muhammad some food, and let him and whoever is with him eat it.’ Then he said to his companions: ‘If we return to Al-Madinah, indeed the more honorable will expel therefrom the meaner.’” Zaid said: “And I was riding behind the Messenger of Allah, and I had heard Abdullah bin Ubayy, so I informed my uncle who went to tell the Messenger of Allah. He sent a message to him (Abdullah) but he took an oath and denied it.” He said: “So the Messenger of Allah accepted what he said and did not believe me. So my uncle came to me and said: ‘You only wanted the Messenger of Allah to hate you, and the Muslims to say that you lied.’” He said: “I suffered such worry as has not been suffered by anyone else.” He said: “(Later) while I was on the move with the Messenger of Allah on a journey, my mind was relieved of worry, since the Messenger of Allah came to me and rubbed my ear and smiled in my face. I would never be happier than with that as long as the world remained. Then Abu Bakr caught up to me, and said: ‘What did the Messenger of Allah say to you?’ I said: ‘He did not say anything to me, he only rubbed my ear and smiled in my face.’ He said: ‘Receive the good news!’ Then Umar caught up with me and I said the same to him as I had said to Abu Bakr. In the morning the Messenger of Allah recited Surat Al-Munafiqin.”
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ فَكُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَاءَ، وَكَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ، فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ فَسَبَقَ الْأَعْرَابِيُّ، فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّى يَجِيءَ أَصْحَابُهُ، قَالَ: فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَى زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ، فَأَبَى أَنْ يَدَعَهُ، فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَاءِ، فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّهُ، فَأَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَهُ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ، وَكَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْكُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ: لَئِنْ رَجَعْتُم إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، قَالَ زَيْدٌ: وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، فَأَخْبَرْتُ عَمِّي، فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفَ وَجَحَدَ، قَالَ: فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَنِي، قَالَ: فَجَاءَ عَمِّي إِلَيَّ، فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَّبَكَ وَالْمُسْلِمُونَ، قَالَ: فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنَ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنَ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، فَمَا كَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَحِقَنِي، فَقَالَ: مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُ عَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي، فَقَالَ: أَبْشِرْ، ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ: مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( غزوہ بنی مصطلق میں ) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے ( جب کہیں پانی نظر آتا ) تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کر لینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے ( اس وقت ایسا ہوا ) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے اردگرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کر دی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار کر اس کا سر توڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے ( ہم خیال ) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا، غصہ میں آ گیا، کہا: ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ ( یعنی اعرابی ) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھا اور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمد کے پاس سے چلے جائیں تو محمد کے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھ ( خاص ) موجود لوگ کھا لیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ ( بسلامت ) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں ( اعرابیوں ) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگا دینا چاہیئے، زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتا دی، چچا گئے، انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آ کر قسمیں کھائیں اور انکار کیا ( کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا مان لیا اور مجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے، بولے ( بیٹے ) تو نے کیا سوچا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر غصہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، ( یہ سن کر ) مجھے اتنا غم اور صدمہ ہوا کہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنا سر جھکائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں چلا ہی جا رہا تھا کہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرا دیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگر مجھے دنیا میں جنت مل جاتی تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر رضی الله عنہ ملے، مجھ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلائے اور مجھے دیکھ کر ہنسے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: خوش ہو جاؤ، پھر مجھے عمر رضی الله عنہ ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر رضی الله عنہ سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( نماز فجر میں ) سورۃ منافقین پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔