اپنوں کی اپنائیت اور محبت بڑی سے بڑی مشکل کو آسان کر دیتی ہے مگر معاش کی تنگی اور روزی کی اشد ضرورت سب سے زیادہ اگر کسی کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے تو وہ ایک مرد کے لئے کیونکہ وہ پورا دن گھر سے بہر پیسہ کمانے کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے اور پھر گھر آکر گھر والوں کی ضرورتیں اور ان کی باتیں سن سن کر دل مذید خراب ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان کا کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہے جہاں کوئی مرد مُلک سے باہر پیسہ کمانے کی خاطر نہ گیا ہوا ہو، ملک میں چاہے کتنی غربت ہو کتنی ہی زیادہ نوکریوں کی کمی ہو یہاں رہ کر اپنوں کے ساتھ رہ کر کم از کم دل تو اطمینان میں ہوتا ہے کہ آپ ان کو دیکھ سکتے ہیں وہ پاس ہوتے ہیں نظروں کے پاس ہونا بھی اپنوں کو ہمت دیتا ہے مشکل وقت میں آگے بڑھنے کا۔
جس طرح ڈرامہ سیریل پردیس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایمن کا باپ احسن اس کی ماں زبیدہ کو چھوڑ کر پر پردیس چلا گیا تھا تاکہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو ایک مناسب مستقبل دے سکیں اور اپنے بھائی بہنوں کی اچھی کفالت کرسکے ان کو بھی ایک مقام تک پہنچا سکے، ماں کی باتوں سے جان چھٹ جائے، ماں کو بھی سکون آجائے ور وہ بھی خوشی خوشی زندگی گزارے۔ سب کو خوش رکھنے کی خاطر احسن نے اپنی خوشیوں کی قربانی دے دی اپنے سکون کو تباہ کر دیا اور لالچی بھائی نے پردیس سے آنے والا سارہ پیسہ اپنی عیاشی پر تباہ کردیا۔

احسن کے لوٹنے کے بعد بھی ان کے گھر کے حالات بدل نہ سکے یہاں تک کہ وہ اپنی موت کو جا پہنچا اور پھر اس کے بچے بیوی اکیلے ہی رہ گئے اور اکیلے ہی اپنی زندگی کو گزارنے لگے پھر ایمن کی شادی کے بعد جب اس کا شوہر باہر چلا گیا تو دن رات شوہر کو اپنے باپ کی طرح کھونے کے ڈر نے ایمن کی خوشیاں تباہ کرکے رکھ دیں، ہر مرتبہ جب بھی پردیس میں بیٹھے شوہر کو فون کرتی اس سے وطن واپسی کا سوال کرتی یہاں تک کہ ایمن نے خود بچے کے ساتھ ساتھ نوکری شروع کردی کہ مل کر شوہر کا سہارا بن سکوں اس کو پردیس میں رہنے کی اذیت سے بچا سکوں مگر ایمن کا شوہر کامیابی کی جانب آگے بڑھنے کی کوشش میں اس بات نہیں سمجھتا اور کہتا کہ جو کچھ کر رہا ہوں تمہارے اور اپنے بچے کی خوشی کی خاطر کر رہا ہوں۔
جب بات طلاق پر آپہنچتی ہے تو اس کی ماں اور ساس یہ بات سمجھاتی ہے کہ بیوی اکیلے شوہر کے بناء نہیں رہ سکتی ہے اس لئے اگر بیوی کو ساتھ ملک سے باہر نہیں لے جا سکتے تو خود بھی یہیں رہو اور آخری قسط میں ایمن کا شوہر ہمیشہ کے لئے اس کے پاس آ جاتا ہے یہ کہہ کر:
''
میں جس کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہوں، اتنی محنت کر رہا ہوں، اپنا من مار کر رہ رہا ہوں پردیس میں، جو میرے خوابوں کی تعبیر ہے وہی جب مجھ سے میرے کام سے میری نوکری سے خوش نہ ہو تو کیا فائدہ ان پیسوں کا، میں خوش نصیب ہوں کہ میری بیوی مجھ سے نہ تو بڑا گھر مانگتی ہے اور نہ ہی پیسہ، بس بیوی کا ساتھ اور محبت سے بچے کی خوشیاں ایک ساتھ دیکھنی ہیں، پردیس سے زیادہ سکون اپنے ملک میں ہے۔
''
اس قسط پر یوتیوب پر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مدح کمنٹ کرتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
''
یہ ڈرامہ اصلیت اور بالکل پاکستانی معاشرے کےعین مطابق ہے، یہاں ہر دوسری عورت اپنے بیٹے یا شوہر کی جدائی برداشت کر رہی ہے، کچھ نے خود شوہروں کو ملک بدر ہونے پر آمادہ کیا ہوا ہے تو کچھ مجبوری کی خاطر یہ سب برداشت کر رہی ہیں، بہت مشکل ہے غیر ملک میں اکیلے رہنا، اپنوں سے دور رہنا۔
''
کچھ کہتے ہیں کہ:
''
ماں اور بیوی کے خرچے، بھائی بہنوں کی ذمہ داری مجھے ملک سے باہر لے گئی، در در کی ٹھوکریں کھائیں،، دن رات کام کی خاطر کچھ پیسے کمانے کی خاطر ایک کیا، ہمیشہ آگے بڑھ کر سب کچھ ہر کسی کی ضرورت پورا کرنے کا سوچا، گھر والے آرام تو چاہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ پردیس جانے والا کن مشکل حالت سے زندگی گزار رہا ہے۔
''
مذید کہتے ہیں کہ:
''
ماں کی بیماری، بھائی بہنوں کی تعلیم، بیوی بچوں کا مستقبل دیکھتے دیکھتے کاندھے ٹوٹ گئے پردیس میں کام کرتے کرتے، ایک دن جان ہی چلی گئی جو ذمہ داریوں سے چھٹکارہ مل گیا ورنہ یہ ذمہ داریاں انسان کو جینے نہیں دیتی ہیں۔
''